صدر آصف علی زرداری اپنے دورۂ یورپ سے واپس آنے کے بعد اس دورے کے حوالے سے ہونیوالی شدید تنقید کو نظرانداز کرکے اب 18 اگست کو روس کے دورے پر روانہ ہو رہے ہیں‘ جہاں وہ چار ملکی کانفرنس میں شرکت کرینگے۔ اس کانفرنس میں پاکستان اور اسکے مابین منشیات کی سمگلنگ کی روک تھام کے معاہدے پر دستخط کا امکان ہے‘ جبکہ افغان صدر حامد کرزئی اس معاہدے کی سخت مخالفت کر رہے ہیں۔ سفارتی ذرائع کے مطابق افغان حکام پاکستان کو اس معاہدے پر دستخط کرنے سے روکنے کیلئے پوری کوشش کر رہے ہیں۔
اس مجوزہ معاہدے کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اسکی بنیاد پر خطے میں منشیات کی سمگلنگ میں بڑی حد تک کمی آسکتی ہے تاہم سیلاب کے متاثرین اس ملک کے کروڑوں باشندوں کی ڈھارس بندھانے اور ان کیلئے امدادی کاموں کو تیز کرنے کیلئے صدر مملکت کا ملک میں موجود رہنا زیادہ ضروری ہے‘ سیلاب انکے اپنے صوبے کا بھی گھیرائو کر چکا ہے۔ متذکرہ معاہدے پر تو وزیر داخلہ اور سیکرٹری داخلہ کی سطح پر بھی دستخط ہو سکتے ہیں اس لئے اگر صدر مملکت مصیبت میں گھرے اپنے لاچار و مجبور ہم وطنوں کے درمیان رہ کر ان کیلئے امدادی کاموں کی نگرانی کرتے‘ تو انکی نیک نامی بھی ہوتی اور اپنے دورۂ فرانس و برطانیہ کی وجہ سے انہیں اور حکومت کو جس کڑی تنقید کا سامنا ہے‘ اس کا بھی کچھ مداوا ہو جاتا مگر محسوس یہی ہوتا ہے کہ انہوں نے کسی بھی تنقید کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اپنے ایجنڈے کے مطابق حکمرانی کرنے کی ٹھانی ہوئی ہے۔ عوام کے مسائل میں انہیں فرانس کی ملکہ میری انٹیونٹ جتنی ہی دلچسپی نظر آتی ہے‘ جنہوں نے اپنے عوام کو روٹی نہ ملنے کی شکایت پر مشورہ دیا تھا کہ روٹی میسر نہیں تو وہ کیک کھالیں‘ مگر انہیں اس 38 سالہ ملکہ کے انجام کو بھی پیش نظر رکھنا چاہیے۔ کیا ضروری ہے کہ فرانس کی ملکہ سے منسوب اس روایت کو دہرانے کا موقع فراہم کیا جائے یا روم کے جلنے پر نیرو کے بانسری بجانے کی ضرب المثل اپنی ذات پر لاگو کرائی جائے۔ موجودہ اور گزشتہ صدی کے سب سے بڑے سیلاب کی شکل میں اس وقت ملک اور عوام پر جو آفت ٹوٹی ہوئی ہے‘ اگر حکمرانوں کو اس کا احساس ہی نہ ہو اور وہ عوام کے دکھ درد میں شریک ہونے کے بجائے اپنے بیرونی دوروں میں ہی مگن رہیں تو تاریخ میں انکے تذکرے فرانس کی ملکہ اور روم کے نیرو جیسے ہی ہونگے۔
اس میں کیا شک ہے کہ سیلابی ریلوں سے ملک کے ہر صوبے میں جس وسیع پیمانے پر تباہی و بربادی ہو رہی ہے اور انسانی بے بسی اور دکھوں کی نئی داستانیں جنم لے رہی ہیں‘ یہ صورتحال اس ملک کیلئے قیامت سے کم نہیں‘ پوری دنیا کو ان تباہ کاریوں پر تشویش لاحق ہے اور مصیبت میں گھرے پاکستان کے عوام کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا جا رہا ہے مگر صدر آصف علی زرداری نے عین اس وقت ایسے مرحلہ پر جب مون سون کی بارشوں نے سیلاب کی کیفیت پیدا کر دی تھی‘ ایک ہفتے پر محیط اپنے دورۂ فرانس و برطانیہ کی دکھی عوام کو نوید سنائی اور جب نوشہرہ اور مردان عملاً سیلاب کے پانی میں ڈوب چکے تھے اور سیلابی ریلا خیبر پی کے سے سندھ کا رخ کر چکا تھا‘ وہ سیلاب کی مصیبت میں گھرے بے سہارا عوام کو چھوڑ کر مقررہ شیڈول کے مطابق اپنے دورۂ یورپ پر روانہ ہو گئے جس پر انہیں بیرون ملک سے بھی کڑی تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ برطانوی اخبارات میں ان سے منسوب لطیفے بھی شائع ہونے لگے‘ کارٹون بھی شائع ہوئے‘ فرانس کے میڈیا اور دوسرے مختلف حلقوں نے بھی انکے دورۂ فرانس و برطانیہ پر سخت ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔ امریکی حکام سے منسوب یہ باتیں بھی میڈیا کے ذریعہ منظر عام پر آگئیں کہ انہوں نے تو صدر پاکستان کو اپنا دورۂ منسوخ کرکے ملک واپس جانے کا مشورہ دیا تھا مگر وہ پھر بھی اپنے دورے کے مزے لوٹتے رہے۔ انہیں برطانیہ آمد پر میڈیا کی سخت تنقید کا ہی نہیں‘ وہاں مقیم پاکستانی کمیونٹی کے احتجاجی مظاہروں کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ برطانوی کابینہ کے رکن پاکستانی نژاد شاہد ملک نے بھی صدر زرداری کو اپنا دورۂ برطانیہ منسوخ کرنے کا مشورہ دیا‘ برطانوی رکن پارلیمنٹ لارڈ نذیر نے تو انکے اعزاز میں دیئے گئے لنچ کا بھی بائیکاٹ کر دیا جبکہ برمنگھم میں انہیں اپنی ہی پارٹی کے جلسے میں اپنے دورۂ برطانیہ کے حوالے سے ایک بزرگ کارکن کی جانب سے جوتے پھینکنے کی صورت میں ہزیمت بھی اٹھانا پڑی جبکہ اس کڑی تنقید کے جواب میں انہوں نے یہ کہہ کر کہ مزید تنقید کے راستے کھولے کہ اگر انہیں معلوم ہوتا کہ سیلاب نے اتنی زیادہ تباہ کاریوں کا باعث بننا ہے تو وہ اپنے دورۂ یورپ کا پروگرام ہی نہ بناتے۔
اب ملک واپسی کے بعد بھی سیلاب سے تباہ ہونے والے عوام کے دکھ درد میں شریک ہونے اور ان کیلئے امدادی کاموں کی خود نگرانی کرنے کیلئے انہوں نے پہلے سے طے شدہ اپنے دورۂ روس کو منسوخ کرنا بھی ضروری نہیں سمجھا۔ ایک جانب تو وہ اعلان کر رہے ہیں کہ وہ متاثرین کی بحالی تک چین سے نہیں بیٹھیں گے‘ مگر اسکے ساتھ ہی وہ اپنے دورۂ روس کیلئے بھی بے چین نظر آتے ہیں۔ اس طرز عمل سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ملک کو درپیش سنگین اور نازک صورتحال سے عہدہ براء ہونے میں انہیں کتنی دلچسپی ہے؟ چاہیے تو یہ تھا کہ وہ ملک واپس آتے ہی سیلاب کی تباہ کاریوں کی مفصل رپورٹ طلب کرتے اور جائزہ لیتے کہ متاثرین سیلاب کی بحالی کیلئے کیا فوری اقدامات بروئے کار لائے جا سکتے ہیں؟ اس سلسلہ میں وہ ملک کے پانچوں صوبوں کے وزراء اعلیٰ سے بھی بریفنگ لے سکتے تھے‘ وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف تو سیلاب کی تباہ کاریاں شروع ہونے کے ساتھ ہی سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے دورے پر چل نکلے تھے جو گزشتہ دو ہفتے سے مصیبت زدہ عوام کے ساتھ اپنے شب و روز گزار رہے ہیں اور امدادی کارروائیوں کی خود نگرانی کر رہے ہیں‘ چونکہ انہیں سیلاب سے ہونیوالے نقصانات کا بہتر اندازہ ہے‘ اس لئے صدر زرداری ان سے مفصل بریفنگ لے کر بیرون ملک سے آنیوالی امدادی رقوم اور دوسرے سامان کی متاثرہ صوبوں میں نقصان کے تناسب سے تقسیم کو یقینی بنا سکتے تھے مگر وفاقی حکومت کی سطح پر صدر کے بیرونی دورے کے دوران بھی اور اب انکی موجودگی میں بھی سیلاب زدگان کی امداد کی حکمت عملی طے کرنے کے معاملہ میں کسی قسم کی دلچسپی نہیں لی گئی۔ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی صدر کے بیرونی دورے کے دوران سیلاب زدہ علاقوں میں اپنی موجودگی کا کریڈٹ تو لیتے رہے ہیں مگر وزیر اعلیٰ پنجاب کی جانب سے امداد کے جو بھی مطالبے وفاقی حکومت سے کئے گئے‘ ان میں سے اب تک ایک بھی پورا نہیں ہوا اور وزیر اعلیٰ اپنے صوبے کے وسائل پر ہی اکتفاء کرتے ہوئے سیلاب زدگان کی ڈھارس بندھا رہے ہیں۔
اس صورتحال میں صدر مملکت کا دوبارہ بیرونی دورے پر جانا‘ انکے سیاسی مستقبل کیلئے ہی نہیں‘ موجودہ پورے سسٹم کیلئے نقصان دہ ہو سکتا ہے‘ اپنے منتخب جمہوری حکمرانوں کے ایسے طرز عمل کے بعد عوام کا جمہوریت پر اعتماد کیسے قائم ہو پائے گا؟ اس لئے کل کو سسٹم پر کوئی افتاد ٹوٹتی ہے تو وفاقی حکمران طبقہ خود کو اسکی ذمہ داریوں سے نہیں بچا پائے گا؟ جمہوری حکمرانی تو عوام کیلئے اور عوام کے ذریعے ہوتی ہے‘ اگر عوام ہی اس حکمرانی میں رسوا ہو رہے ہوں اور انکے مصیبت کے دنوں میں انکے حکمران بیرونی دوروں کے مزے لوٹ رہے ہوں تو عوام کو بھی انکے اور سسٹم کے ساتھ بھلا کیا سروکار ہو سکتا ہے؟ اس لئے اب بھی موقع ہے‘ صدر مملکت اور انکے حکومتی اکابرین اپنے طرز حکمرانی پر نظرثانی کرلیں‘ ورنہ صدر کے بیرونی دورے انکے اور انکی حکومت کیلئے بہت مہنگے ثابت ہو سکتے ہیں۔
امریکہ بہادر ! تشریف لے جائیے
امریکی وزیر دفاع نے افغانستان اور عراق کی جنگوں کے باعث پیدا ہونیوالے شدید مالی بحران کے پیش نظر امریکہ کی دس بڑی فوجی کمانڈز میں سے ایک جوائنٹ فورسز کمانڈ جرنیلوں اور ایڈمرلز کی پچاس آسامیاں ختم کرنے کے ساتھ دفاعی اخراجات میں بڑے پیمانہ پر کمی کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔
امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس نے پریس کانفرنس میں ان اقدامات کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ امریکی فوجیں دو جنگیں لڑ رہی ہیں‘ مالیاتی اور اقتصادی حقائق اس بات کا تقاضہ کرتے ہیں کہ امریکی محکمہ دفاع بجٹ میں شامل ہر ایک ڈالر کو صحیح جگہ خرچ کرے‘ انہوں نے مزید کہا کہ محکمہ دفاع کے بیرونی ٹھیکیداروں سے متعلق بجٹ میں بھی آئندہ برس دس فیصد کمی کی جائیگی۔ امریکی صدر نے بھی اخراجات میں کمی کا خیرمقدم کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ اصلاحات اس بات کو یقینی بنائیں کہ ہماری قوم زیادہ مضبوط اور محفوظ ہو گئی ہے۔
امریکہ اس وقت دنیا کی واحد سپرپاور ہے‘ اس نے عراق پر حملہ کیا جواز یہ تھا کہ وہاں صدر صدام حسین نے عوامی تباہی کے ہتھیار بنائے ہوئے ہیں‘ مگر یہ ہتھیار نہ ملے اور یہ بھی ثابت ہو گیا کہ یہ جھوٹی اطلاع تھی۔ برطانیہ میں اسکی تحقیقات بش کا پوڈل ٹونی بلیئر بھگت رہا ہے‘ پھر امریکہ نے افغانستان پر انتہائی سفاکی سے حملہ کیا اور ایک پسماندہ مسلمان ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور کم از کم دس پندرہ لاکھ مسلمانوں کو شہید کر دیا۔ امریکہ کو شبہ تھا کہ امریکہ پر 9/11 کے حملے کرانے والے افراد یہاں رہتے ہیں جو کہ ایک غلط بات ثابت ہوئی۔ امریکہ کے بیسیوں نہیں سینکڑوں افراد کا یہ کہنا ہے کہ 9/11 کے حملے امریکہ میں کسی امریکی ایجنسی کا منصوبہ تھا‘ اس میں کوئی بیرونی تنظیم شامل نہ تھی۔
امریکہ ایک ایسی وحشی‘ سنگدل اور خونخوار طاقت کا نام ہے‘ جو اپنے غلط افعال پر نادم نہیں ہوتی اور نہ ہی امریکی لیڈروں کے پاس کردار اور ضمیر قسم کی کوئی صفات موجود ہیں۔ امریکہ اپنے پڑوس میں بھی خود ہی ہے‘ امریکہ کو دنیا میں کسی بھی فوجی طاقت سے خطرہ نہیں‘ اسکے باوجود امریکہ کا ضمیر یا تو اپنی سابقہ غلطیوں ہیروشیما‘ ناگاساکی پر ایٹم بم پھیکنا یا پھر ویت نام کی وجہ سے مجرمانہ احساس کا بوجھ اٹھائے ہوئے اب عراق اور افغانستان والے مزید گناہوں کے بعد نفسیاتی دبائو کا شکار ہے اور اپنی طاقت کی آگ میں خود ہی جل رہا ہے۔ پاکستان کے لیڈروں کو چاہیے کہ امریکی لیڈروں کو مشورہ دیں کہ انہیں کوئی بیرونی خطرہ نہیں‘ وہ صرف اپنے آپ سے ہی خوفزدہ ہیں‘ اس لئے وہ افغانستان عراق اور پاکستان سے اپنے سازو سامان کو اٹھائیں اور اپنے گھر تشریف لے جائیں۔ وہاں کوئی ان پر حملہ کرنے کیلئے کیوں آئیگا؟ البتہ دوسروں کی زندگی تلخ کرینگے تو پھر کوئی نہ کوئی موسیٰؑ ہر فرعون کا مقدر ہے‘ جیسے کہ شاعر نے کہا ہے…ع
خود را کردہ علاجے نیست
ترقی اور خوشحالی کیلئے ڈیموں کی ضرورت
پاکستان میں امریکی سفیر این ڈبلیو پیٹرسن نے حکومت پاکستان کی پالیسیوں میں بنیادی تبدیلی لانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کو سیلاب سے سبق سیکھتے ہوئے زیادہ سے زیادہ ڈیم تعمیر کرنے چاہئیں۔ ایوان صنعت و تجارت اسلام آباد میں تاجروں سے خطاب اور میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی سفیر نے بارشوں، سیلاب اور آفات سماوی کے موقع پر امریکی حکومت سے ملنے والی امداد، امریکی ہیلی کاپٹروں اور سوات میں امریکی فوجیوں کی امدادی کارروائیوں میں شرکت اور نیٹو افواج کے ہیلی کاپٹروں کی طرف سے بھی امدادی کاموں میں حصہ لینے کا تذکرہ کیا۔ افسوس کہ ہمیں اغیار بھی اب مشورے دے رہے ہیں کہ ہمیں اپنے ملک میں بڑے ڈیم تعمیر کرنے چاہئیں۔ بتایا گیا ہے کہ موجودہ بارشوں اور سیلاب کا پانی اگر ہم ڈیموں میں جمع کر لیتے تو یہ کم از کم تین برس تک نہ صرف ہماری انرجی بلکہ ہماری زرعی ضروریات کیلئے بھی کافی ہوتا مگر یہ تب ہی ممکن تھا کہ اگر ہم نے ڈیم بنائے ہوتے۔ نوشہرہ، کالاباغ ڈیم بننے سے قبل ہی سیلاب میں ڈوب گیا جبکہ انجینئرز کہتے ہیں کہ کالاباغ ڈیم اگر بن جاتا تو نوشہرہ کبھی نہ ڈوبتا۔ اسی طرح سندھ والوں کو بھی یقین واثق ہونا چاہئے کہ ڈیم بن جانے کی صورت میں صوبہ سندھ زیادہ خوشحال اور سرسبز و آباد ہو گا اور اسکے دریائوں میں روانی بھی رہے گی۔ ملک میں جتنے بھی ڈیم بنیں گے یہ ملک و قوم کی خوشحالی کیلئے بنیں گے اور ان کا فائدہ سارے صوبوں کو یکساں ہو گا۔ متعدد انجینئرز نے میڈیا کے کئی پروگراموں میں کہا ہے کہ کالاباغ ڈیم سب سے پہلے اور کم از کم وقت میں بن سکتا ہے۔ اسکے ساتھ ہی منڈا ڈیم، دیامیر بھاشا ڈیم اور اکوڑی ڈیم، داسو ڈیم پر بھی کام شروع ہو جائے تو اس سے ہم نے گذشتہ 20 برسوں میں جو کوتاہی کی ہے اس کا ازالہ ہو جائیگا۔ ہمارا دشمن ملک بھارت چاہتا ہے کہ پاکستان میں کوئی ڈیم نہ بنے۔ پاکستان میں ہمیشہ لوڈشیڈنگ کے اندھیرے چھائے رہیں۔ یہاں زراعت کیلئے پانی نہ ہو۔ یہ بنجر اور صحرا کی طرح ویران ہو جائے مگر محب وطن پاکستانیوں کو تعمیر وطن کیلئے آگے بڑھنا چاہئے اس خوفناک سیلاب کے بعد تو ہمیں کچھ نہ کچھ عقل و فہم سے کام لے کر تکنیکی منصوبوں کو انجینئرز پر چھوڑ دینا چاہئے۔ ہماری فیکٹریاں اور کارخانے سستی بجلی سے ہی چل سکتے ہیں جو صرف اور صرف ڈیموں سے ہی حاصل ہو گی۔
اس مجوزہ معاہدے کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اسکی بنیاد پر خطے میں منشیات کی سمگلنگ میں بڑی حد تک کمی آسکتی ہے تاہم سیلاب کے متاثرین اس ملک کے کروڑوں باشندوں کی ڈھارس بندھانے اور ان کیلئے امدادی کاموں کو تیز کرنے کیلئے صدر مملکت کا ملک میں موجود رہنا زیادہ ضروری ہے‘ سیلاب انکے اپنے صوبے کا بھی گھیرائو کر چکا ہے۔ متذکرہ معاہدے پر تو وزیر داخلہ اور سیکرٹری داخلہ کی سطح پر بھی دستخط ہو سکتے ہیں اس لئے اگر صدر مملکت مصیبت میں گھرے اپنے لاچار و مجبور ہم وطنوں کے درمیان رہ کر ان کیلئے امدادی کاموں کی نگرانی کرتے‘ تو انکی نیک نامی بھی ہوتی اور اپنے دورۂ فرانس و برطانیہ کی وجہ سے انہیں اور حکومت کو جس کڑی تنقید کا سامنا ہے‘ اس کا بھی کچھ مداوا ہو جاتا مگر محسوس یہی ہوتا ہے کہ انہوں نے کسی بھی تنقید کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اپنے ایجنڈے کے مطابق حکمرانی کرنے کی ٹھانی ہوئی ہے۔ عوام کے مسائل میں انہیں فرانس کی ملکہ میری انٹیونٹ جتنی ہی دلچسپی نظر آتی ہے‘ جنہوں نے اپنے عوام کو روٹی نہ ملنے کی شکایت پر مشورہ دیا تھا کہ روٹی میسر نہیں تو وہ کیک کھالیں‘ مگر انہیں اس 38 سالہ ملکہ کے انجام کو بھی پیش نظر رکھنا چاہیے۔ کیا ضروری ہے کہ فرانس کی ملکہ سے منسوب اس روایت کو دہرانے کا موقع فراہم کیا جائے یا روم کے جلنے پر نیرو کے بانسری بجانے کی ضرب المثل اپنی ذات پر لاگو کرائی جائے۔ موجودہ اور گزشتہ صدی کے سب سے بڑے سیلاب کی شکل میں اس وقت ملک اور عوام پر جو آفت ٹوٹی ہوئی ہے‘ اگر حکمرانوں کو اس کا احساس ہی نہ ہو اور وہ عوام کے دکھ درد میں شریک ہونے کے بجائے اپنے بیرونی دوروں میں ہی مگن رہیں تو تاریخ میں انکے تذکرے فرانس کی ملکہ اور روم کے نیرو جیسے ہی ہونگے۔
اس میں کیا شک ہے کہ سیلابی ریلوں سے ملک کے ہر صوبے میں جس وسیع پیمانے پر تباہی و بربادی ہو رہی ہے اور انسانی بے بسی اور دکھوں کی نئی داستانیں جنم لے رہی ہیں‘ یہ صورتحال اس ملک کیلئے قیامت سے کم نہیں‘ پوری دنیا کو ان تباہ کاریوں پر تشویش لاحق ہے اور مصیبت میں گھرے پاکستان کے عوام کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا جا رہا ہے مگر صدر آصف علی زرداری نے عین اس وقت ایسے مرحلہ پر جب مون سون کی بارشوں نے سیلاب کی کیفیت پیدا کر دی تھی‘ ایک ہفتے پر محیط اپنے دورۂ فرانس و برطانیہ کی دکھی عوام کو نوید سنائی اور جب نوشہرہ اور مردان عملاً سیلاب کے پانی میں ڈوب چکے تھے اور سیلابی ریلا خیبر پی کے سے سندھ کا رخ کر چکا تھا‘ وہ سیلاب کی مصیبت میں گھرے بے سہارا عوام کو چھوڑ کر مقررہ شیڈول کے مطابق اپنے دورۂ یورپ پر روانہ ہو گئے جس پر انہیں بیرون ملک سے بھی کڑی تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ برطانوی اخبارات میں ان سے منسوب لطیفے بھی شائع ہونے لگے‘ کارٹون بھی شائع ہوئے‘ فرانس کے میڈیا اور دوسرے مختلف حلقوں نے بھی انکے دورۂ فرانس و برطانیہ پر سخت ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔ امریکی حکام سے منسوب یہ باتیں بھی میڈیا کے ذریعہ منظر عام پر آگئیں کہ انہوں نے تو صدر پاکستان کو اپنا دورۂ منسوخ کرکے ملک واپس جانے کا مشورہ دیا تھا مگر وہ پھر بھی اپنے دورے کے مزے لوٹتے رہے۔ انہیں برطانیہ آمد پر میڈیا کی سخت تنقید کا ہی نہیں‘ وہاں مقیم پاکستانی کمیونٹی کے احتجاجی مظاہروں کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ برطانوی کابینہ کے رکن پاکستانی نژاد شاہد ملک نے بھی صدر زرداری کو اپنا دورۂ برطانیہ منسوخ کرنے کا مشورہ دیا‘ برطانوی رکن پارلیمنٹ لارڈ نذیر نے تو انکے اعزاز میں دیئے گئے لنچ کا بھی بائیکاٹ کر دیا جبکہ برمنگھم میں انہیں اپنی ہی پارٹی کے جلسے میں اپنے دورۂ برطانیہ کے حوالے سے ایک بزرگ کارکن کی جانب سے جوتے پھینکنے کی صورت میں ہزیمت بھی اٹھانا پڑی جبکہ اس کڑی تنقید کے جواب میں انہوں نے یہ کہہ کر کہ مزید تنقید کے راستے کھولے کہ اگر انہیں معلوم ہوتا کہ سیلاب نے اتنی زیادہ تباہ کاریوں کا باعث بننا ہے تو وہ اپنے دورۂ یورپ کا پروگرام ہی نہ بناتے۔
اب ملک واپسی کے بعد بھی سیلاب سے تباہ ہونے والے عوام کے دکھ درد میں شریک ہونے اور ان کیلئے امدادی کاموں کی خود نگرانی کرنے کیلئے انہوں نے پہلے سے طے شدہ اپنے دورۂ روس کو منسوخ کرنا بھی ضروری نہیں سمجھا۔ ایک جانب تو وہ اعلان کر رہے ہیں کہ وہ متاثرین کی بحالی تک چین سے نہیں بیٹھیں گے‘ مگر اسکے ساتھ ہی وہ اپنے دورۂ روس کیلئے بھی بے چین نظر آتے ہیں۔ اس طرز عمل سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ملک کو درپیش سنگین اور نازک صورتحال سے عہدہ براء ہونے میں انہیں کتنی دلچسپی ہے؟ چاہیے تو یہ تھا کہ وہ ملک واپس آتے ہی سیلاب کی تباہ کاریوں کی مفصل رپورٹ طلب کرتے اور جائزہ لیتے کہ متاثرین سیلاب کی بحالی کیلئے کیا فوری اقدامات بروئے کار لائے جا سکتے ہیں؟ اس سلسلہ میں وہ ملک کے پانچوں صوبوں کے وزراء اعلیٰ سے بھی بریفنگ لے سکتے تھے‘ وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف تو سیلاب کی تباہ کاریاں شروع ہونے کے ساتھ ہی سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے دورے پر چل نکلے تھے جو گزشتہ دو ہفتے سے مصیبت زدہ عوام کے ساتھ اپنے شب و روز گزار رہے ہیں اور امدادی کارروائیوں کی خود نگرانی کر رہے ہیں‘ چونکہ انہیں سیلاب سے ہونیوالے نقصانات کا بہتر اندازہ ہے‘ اس لئے صدر زرداری ان سے مفصل بریفنگ لے کر بیرون ملک سے آنیوالی امدادی رقوم اور دوسرے سامان کی متاثرہ صوبوں میں نقصان کے تناسب سے تقسیم کو یقینی بنا سکتے تھے مگر وفاقی حکومت کی سطح پر صدر کے بیرونی دورے کے دوران بھی اور اب انکی موجودگی میں بھی سیلاب زدگان کی امداد کی حکمت عملی طے کرنے کے معاملہ میں کسی قسم کی دلچسپی نہیں لی گئی۔ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی صدر کے بیرونی دورے کے دوران سیلاب زدہ علاقوں میں اپنی موجودگی کا کریڈٹ تو لیتے رہے ہیں مگر وزیر اعلیٰ پنجاب کی جانب سے امداد کے جو بھی مطالبے وفاقی حکومت سے کئے گئے‘ ان میں سے اب تک ایک بھی پورا نہیں ہوا اور وزیر اعلیٰ اپنے صوبے کے وسائل پر ہی اکتفاء کرتے ہوئے سیلاب زدگان کی ڈھارس بندھا رہے ہیں۔
اس صورتحال میں صدر مملکت کا دوبارہ بیرونی دورے پر جانا‘ انکے سیاسی مستقبل کیلئے ہی نہیں‘ موجودہ پورے سسٹم کیلئے نقصان دہ ہو سکتا ہے‘ اپنے منتخب جمہوری حکمرانوں کے ایسے طرز عمل کے بعد عوام کا جمہوریت پر اعتماد کیسے قائم ہو پائے گا؟ اس لئے کل کو سسٹم پر کوئی افتاد ٹوٹتی ہے تو وفاقی حکمران طبقہ خود کو اسکی ذمہ داریوں سے نہیں بچا پائے گا؟ جمہوری حکمرانی تو عوام کیلئے اور عوام کے ذریعے ہوتی ہے‘ اگر عوام ہی اس حکمرانی میں رسوا ہو رہے ہوں اور انکے مصیبت کے دنوں میں انکے حکمران بیرونی دوروں کے مزے لوٹ رہے ہوں تو عوام کو بھی انکے اور سسٹم کے ساتھ بھلا کیا سروکار ہو سکتا ہے؟ اس لئے اب بھی موقع ہے‘ صدر مملکت اور انکے حکومتی اکابرین اپنے طرز حکمرانی پر نظرثانی کرلیں‘ ورنہ صدر کے بیرونی دورے انکے اور انکی حکومت کیلئے بہت مہنگے ثابت ہو سکتے ہیں۔
امریکہ بہادر ! تشریف لے جائیے
امریکی وزیر دفاع نے افغانستان اور عراق کی جنگوں کے باعث پیدا ہونیوالے شدید مالی بحران کے پیش نظر امریکہ کی دس بڑی فوجی کمانڈز میں سے ایک جوائنٹ فورسز کمانڈ جرنیلوں اور ایڈمرلز کی پچاس آسامیاں ختم کرنے کے ساتھ دفاعی اخراجات میں بڑے پیمانہ پر کمی کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔
امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس نے پریس کانفرنس میں ان اقدامات کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ امریکی فوجیں دو جنگیں لڑ رہی ہیں‘ مالیاتی اور اقتصادی حقائق اس بات کا تقاضہ کرتے ہیں کہ امریکی محکمہ دفاع بجٹ میں شامل ہر ایک ڈالر کو صحیح جگہ خرچ کرے‘ انہوں نے مزید کہا کہ محکمہ دفاع کے بیرونی ٹھیکیداروں سے متعلق بجٹ میں بھی آئندہ برس دس فیصد کمی کی جائیگی۔ امریکی صدر نے بھی اخراجات میں کمی کا خیرمقدم کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ اصلاحات اس بات کو یقینی بنائیں کہ ہماری قوم زیادہ مضبوط اور محفوظ ہو گئی ہے۔
امریکہ اس وقت دنیا کی واحد سپرپاور ہے‘ اس نے عراق پر حملہ کیا جواز یہ تھا کہ وہاں صدر صدام حسین نے عوامی تباہی کے ہتھیار بنائے ہوئے ہیں‘ مگر یہ ہتھیار نہ ملے اور یہ بھی ثابت ہو گیا کہ یہ جھوٹی اطلاع تھی۔ برطانیہ میں اسکی تحقیقات بش کا پوڈل ٹونی بلیئر بھگت رہا ہے‘ پھر امریکہ نے افغانستان پر انتہائی سفاکی سے حملہ کیا اور ایک پسماندہ مسلمان ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور کم از کم دس پندرہ لاکھ مسلمانوں کو شہید کر دیا۔ امریکہ کو شبہ تھا کہ امریکہ پر 9/11 کے حملے کرانے والے افراد یہاں رہتے ہیں جو کہ ایک غلط بات ثابت ہوئی۔ امریکہ کے بیسیوں نہیں سینکڑوں افراد کا یہ کہنا ہے کہ 9/11 کے حملے امریکہ میں کسی امریکی ایجنسی کا منصوبہ تھا‘ اس میں کوئی بیرونی تنظیم شامل نہ تھی۔
امریکہ ایک ایسی وحشی‘ سنگدل اور خونخوار طاقت کا نام ہے‘ جو اپنے غلط افعال پر نادم نہیں ہوتی اور نہ ہی امریکی لیڈروں کے پاس کردار اور ضمیر قسم کی کوئی صفات موجود ہیں۔ امریکہ اپنے پڑوس میں بھی خود ہی ہے‘ امریکہ کو دنیا میں کسی بھی فوجی طاقت سے خطرہ نہیں‘ اسکے باوجود امریکہ کا ضمیر یا تو اپنی سابقہ غلطیوں ہیروشیما‘ ناگاساکی پر ایٹم بم پھیکنا یا پھر ویت نام کی وجہ سے مجرمانہ احساس کا بوجھ اٹھائے ہوئے اب عراق اور افغانستان والے مزید گناہوں کے بعد نفسیاتی دبائو کا شکار ہے اور اپنی طاقت کی آگ میں خود ہی جل رہا ہے۔ پاکستان کے لیڈروں کو چاہیے کہ امریکی لیڈروں کو مشورہ دیں کہ انہیں کوئی بیرونی خطرہ نہیں‘ وہ صرف اپنے آپ سے ہی خوفزدہ ہیں‘ اس لئے وہ افغانستان عراق اور پاکستان سے اپنے سازو سامان کو اٹھائیں اور اپنے گھر تشریف لے جائیں۔ وہاں کوئی ان پر حملہ کرنے کیلئے کیوں آئیگا؟ البتہ دوسروں کی زندگی تلخ کرینگے تو پھر کوئی نہ کوئی موسیٰؑ ہر فرعون کا مقدر ہے‘ جیسے کہ شاعر نے کہا ہے…ع
خود را کردہ علاجے نیست
ترقی اور خوشحالی کیلئے ڈیموں کی ضرورت
پاکستان میں امریکی سفیر این ڈبلیو پیٹرسن نے حکومت پاکستان کی پالیسیوں میں بنیادی تبدیلی لانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کو سیلاب سے سبق سیکھتے ہوئے زیادہ سے زیادہ ڈیم تعمیر کرنے چاہئیں۔ ایوان صنعت و تجارت اسلام آباد میں تاجروں سے خطاب اور میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی سفیر نے بارشوں، سیلاب اور آفات سماوی کے موقع پر امریکی حکومت سے ملنے والی امداد، امریکی ہیلی کاپٹروں اور سوات میں امریکی فوجیوں کی امدادی کارروائیوں میں شرکت اور نیٹو افواج کے ہیلی کاپٹروں کی طرف سے بھی امدادی کاموں میں حصہ لینے کا تذکرہ کیا۔ افسوس کہ ہمیں اغیار بھی اب مشورے دے رہے ہیں کہ ہمیں اپنے ملک میں بڑے ڈیم تعمیر کرنے چاہئیں۔ بتایا گیا ہے کہ موجودہ بارشوں اور سیلاب کا پانی اگر ہم ڈیموں میں جمع کر لیتے تو یہ کم از کم تین برس تک نہ صرف ہماری انرجی بلکہ ہماری زرعی ضروریات کیلئے بھی کافی ہوتا مگر یہ تب ہی ممکن تھا کہ اگر ہم نے ڈیم بنائے ہوتے۔ نوشہرہ، کالاباغ ڈیم بننے سے قبل ہی سیلاب میں ڈوب گیا جبکہ انجینئرز کہتے ہیں کہ کالاباغ ڈیم اگر بن جاتا تو نوشہرہ کبھی نہ ڈوبتا۔ اسی طرح سندھ والوں کو بھی یقین واثق ہونا چاہئے کہ ڈیم بن جانے کی صورت میں صوبہ سندھ زیادہ خوشحال اور سرسبز و آباد ہو گا اور اسکے دریائوں میں روانی بھی رہے گی۔ ملک میں جتنے بھی ڈیم بنیں گے یہ ملک و قوم کی خوشحالی کیلئے بنیں گے اور ان کا فائدہ سارے صوبوں کو یکساں ہو گا۔ متعدد انجینئرز نے میڈیا کے کئی پروگراموں میں کہا ہے کہ کالاباغ ڈیم سب سے پہلے اور کم از کم وقت میں بن سکتا ہے۔ اسکے ساتھ ہی منڈا ڈیم، دیامیر بھاشا ڈیم اور اکوڑی ڈیم، داسو ڈیم پر بھی کام شروع ہو جائے تو اس سے ہم نے گذشتہ 20 برسوں میں جو کوتاہی کی ہے اس کا ازالہ ہو جائیگا۔ ہمارا دشمن ملک بھارت چاہتا ہے کہ پاکستان میں کوئی ڈیم نہ بنے۔ پاکستان میں ہمیشہ لوڈشیڈنگ کے اندھیرے چھائے رہیں۔ یہاں زراعت کیلئے پانی نہ ہو۔ یہ بنجر اور صحرا کی طرح ویران ہو جائے مگر محب وطن پاکستانیوں کو تعمیر وطن کیلئے آگے بڑھنا چاہئے اس خوفناک سیلاب کے بعد تو ہمیں کچھ نہ کچھ عقل و فہم سے کام لے کر تکنیکی منصوبوں کو انجینئرز پر چھوڑ دینا چاہئے۔ ہماری فیکٹریاں اور کارخانے سستی بجلی سے ہی چل سکتے ہیں جو صرف اور صرف ڈیموں سے ہی حاصل ہو گی۔