خلافت اور ملوکیت کے مصنف نے کبھی بھولے سے بھی نہیں سوچا ہو گا کہ ان کے ملک مملکتِ خداداد میں چند برسوں بعد خلافت کی سوچ، خاندانی اور وراثتی سیاست میں تبدیلی ہو جائیگی اور رحمان ملک اور ملک مصطفی اور ربانی ملک جیسے ملکوں سے ملک کو بھر کر ملوکیت میں بدل دیں گے دراصل ملک کا مطلب ہی بادشاہ فرمانروا یا سلطان کا ہے۔ اور خیبر سے کراچی تک یہ ملک، ملک الموت کی صورت اور روپ دھارے، سیاست کے نام پہ عوامی قتل عام کے مرتکب ہو کر فخر محسوس کرتے اور یوم پاکستان پہ ایوارڈوں کی آپس میں تقسیم کی بندر بانٹ میں شب و روز مصروف ہیں۔ ملکی تاریخ کی ملکی تقریب میں ایسا پہلی دفعہ ہو ا ہے اور اس دفعہ بھی ایسی ہی توقع ہے۔
سیاست کی جگہ ملوکیت کو ملنے کیلئے قوم کو پانچ کھرب روپیہ تین سال کے عرصے میں حکومت نے بیرون ممالک سے قرض لیکر ذہنی مرض میں مبتلا کر دیا گیا ہے جبکہ سابقہ حکومتوں نے مجموعی طور پر ساٹھ سال میں پانچ کھرب کا قرضہ لیا تھا، مسلمانوں کے موجودہ حاکم اگر پچاس لاکھ کا سوٹ پہنیں گے اور قرضے لیکر لاکھوں رو پے روزانہ ایک کمرے کا کرایہ اور دوسرے ملک کے ہوٹلوں کے کرایے کیلئے ادا کریں گے۔ مشرف اور موجودہ حکومت کی عیاشیوں پہ ایک ضخیم کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ وہ موجودہ لکھار ی اس لئے نہیں لکھ رہے کہ ایک کاتب اوپر بھی بیٹھا ہے کہ جس کے لکھے کو نہ کوئی مٹا سکتا ہے اور نہ ہی ایوانوں میں اس کی کوئی ترمیم ممکن ہے البتہ اٹھارہ کروڑ عوام کی بددعائیں بوقت سحر و افطار اور نماز پنجگانہ ملوکیت کے بانیوں کے ساتھ ساتھ ہیں۔ کیا ان کروڑوں عوام میں کوئی ایک بھی مستعجاب الدعا نہیں ہو گا؟ یقیناً ہو گا مگر ظالم کی رسی دراز اور خدا کی دی ہوئی ڈھیل جب آڑے آ جاتی ہے تو عوام کا صبر چھلکنا شروع ہو جاتا ہے اور عوام اپنے اعمال کے وبال کو فراموش کر دیتے ہیں۔ہمارے موجودہ مَلک اور سُلطان ملک کو خدانخواستہ ویران کرنے کی کوشش کے باوجود بھی یہ چا ہتے ہیں کہ وہ موجودہ تخت نشین کا کوئی جانشین بھی اپنی زندگی میں مقرر کر جائیں کیونکہ سیاست میں بھی وراثت کے قائل اور عیش و نشاط پر مائل اقتدار کی مالا کو گلے سے اتارنے کا تصور ہی نہیں کر سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک کی تقریباً سات آٹھ بڑی پارٹیاں ہیں جن میں پاکستان پیپلزپارٹی مسلم لیگ (ن) اور مسلم لیگ (ق) ایم کیو ایم ، تحریک انصاف، عوامی نیشنل پارٹی، متحدہ مجلس عمل، بلوچستان نیشنل پارٹی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ اسی کے قریب دوسری چھوٹی پارٹیاں ہیں جو بڑی پارٹیوں میں شامل ہونے کی بجائے اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد اس لئے بنائے بیٹھے ہیں کہ وہ شراکت اقتدار کے قائل نہیں۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکمرانی میں جانشینی کا تصور کیسے آیا؟ اور کب آیا؟ چونکہ یہ داستان خاصی پرانی اور دلوں میں بگاڑ پیدا کر نے کا باعث بن سکتی ہے لہذا محض ایک ہی دلیل اس گھمبیرتا سے نکلنے کی سبیل ہے کہ جب بیت المال اور مفلوک ا لحال عوام کا پیسہ ایوانوں کے اخراجات سوگنا بڑھانے اور تزک و احتشام کے تقاضوں کے تحت محلات اور مملوکوں کی مسند کو مستقل بنیادوں پر استوار کرنے کے لئے عوام کو زبردستی مسخر و مسحور کر کے اور کرپشن کے ریکارڈ قائم کر کے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے ہیں اور مقصد کے حصول کیلئے کبھی ستارہ شناسوں کبھی سیاسی موقعہ شناسوں اور کبھی نجومیوں اور دست شناسوں کے کہنے پر ساحل سمندر کے قریب اور میدانوں اور پہاڑوں کی قربت ترک کر دیتے ہیں تو پھر ملوکیت جنم لیتی ہے۔ ایمانداری ا ور اسلاف کے انداز حکمرانی کے بالکل برعکس جبکہ خلیفہ وقت ذاتی گفت و شنید کے وقت سرکا ری پیسوں سے دیئے (چراغ) بجھا دیتا ہے کہ اسے یہ بھی گوارہ نہ تھا کہ عوام کے پیسوں سے چند منٹ چراغ جلانے سے ان کی آخرت خراب نہ ہو جائے مگر یہاں تو سارا ملک اندھیرے میں ڈوبا ہوتا ہے مگر ایوان اقتدار جگمگا رہے ہوتے ہیں اور بدعنوانی کی ابتدا ہی اختیار کی نچلی سطح پہ تقسیم کو اخلاقاً رد کرتے ہوئے، بدعنوانی کے مجموعی طور پر ساٹھ سالہ ریکارڈ توڑ دیئے جاتے ہیں اور حاجیوں کو بھی نہیں بخشا جاتا اور 25 ریال فی بندہ کے حساب سے نچلی سطح سے لیکر وزیر مذہبی امور کو بھی بدعنو انی کے تحت ملوث کر دیا جاتا ہے اور شاید قدرت نے خلاف قدرت کام کرنیوالوں کا ساتھ دینے پر مکافات عمل کا کلیہ و قاعدے کے تحت آزمائش میں مبتلا کر دیا ہے۔
جہاں بے نظیر شہید، میاں نواز شریف، سمیرا ملک، رحمان ملک، گیلانی، مونس الٰہی، پرویز الٰہی امین فہیم پر بدعنوانی کے الزامات ہوں مگر اس کے باوجود وہ کون سی کشش اور مقناطیسیت اور عود کرنیکی لالچ اور خود غرضی ہے کہ جو ان تمام بڑے سیاستدانوں کو مجبور کرتی ہے کہ و ہ اپنی اولاد کو کانٹوں کی سیج پہ سجانے کےلئے اور بٹھانے کیلئے وہ بے تاب نظر آتے ہیں کیونکہ وہ اقتدار کے سنگھاسن کو دائمی سمجھتے ہوئے حواریوں، چاپلوس اور خوشامدی حمایتیوں کے وہ الفاظ اور وہ تعریفی کلمات کو بھلانے کو تیار ہی نہیں ہوتے جو بوقت اقتدار ان کو لمحہ بہ لمحہ سننے کو ملتے ہیں۔ بینظیر شہید، اور ذوالفقار علی بھٹو اور ان کے بیٹوں کا انجام اور بیگم نصرت بھٹو کے خود فراموشی کے حال کو دیکھنے کے باوجود بھی جانشینی کیلئے بلاول کو سیاست کے سمندر میں دھکا دینے والے کیا واقعی ان کے ساتھ مخلص ہیں؟ یہ بات شاید میں ایک والد ہونیکی حیثیت سے کہہ رہا ہوں۔ شاید میں یہ بھول رہا ہوں کہ میں عام انسان ہوں سیاستدان نہیں کیونکہ سیاستدان تو شدید بیماری کے باوجود دل کی داد خواہی، فالج اور لکنت زدہ بلکہ قومے میں چلے جانے کو بھی خاطر میں نہ لاتے ہوئے، میدان سیاست میں خم ٹھونک کر سامنے آنے سے گریز نہیں کرتے مگر یہ بات لائق تحسین ہے کہ کلثوم نواز ، حسن، حسین اور مریم کو جانشینی سے دور اور سیاست کی دلدل میں دھکیلنے سے اجتناب کیا ہے۔ ہماری دانست میں جس حکمران اور سیاستدان نے اندرون یا بیرون ملک سے قرض لیا ہے وہ سیاست کو ملوکیت میں بدلنے کا مجرم اور ذمہ دار ہے ، جسکے تدارک کیلئے قوم خمینی ثانی کی منتظر ہے!!