”موجودہ حکومت کے دور میں بلدیاتی الیکشن کا انعقاد ممکن نہیں“

لاہور (سروے رپورٹ: رفیعہ ناہید اکرام) مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی خواتین نے موجودہ دور حکومت میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کو ناممکن قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ بلدیاتی انتخابات کیلئے پولیٹیکل ول کی ضرورت ہوتی ہے جو اس وقت سیاستدانوں میں دکھائی نہیں دیتی، صوبہ خیبر پی کے کے سوا کسی اسمبلی میں لوکل گورنمنٹ کا بل منظور نہیں ہوسکا اور قانون کی عدم موجودگی میں الیکشن کیسے ہو سکتے ہیں۔ نوائے وقت سروے میں رکن پنجاب اسمبلی ساجدہ میر نے کہا کہ فی الحال چاروں صوبائی اسمبلیوں میں اتفاق رائے نہیں ہوسکا کہ انتخابات 1979ءکے نظام کے تحت کروائے جائیں یا 2000ءکے نظام کے تحت، مسلم لیگ ن کی فرح دیبا نے کہا کہ مسلم لیگ ن عوامی توقعات کے مطابق الیکشن کے انعقادکا فیصلہ کرے گی۔ معلوم ہوتا ہے کہ صوبائی حکومتیںکنٹرول اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتی ہیں اور اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کے حق میں نہیں۔ ممتاز مغل نے کہا کہ اس کیلئے پولیٹیکل ول کی ضرورت ہے جو چاروں صوبوں میں صورت نظر نہیں آتی، ڈاکٹر عائشہ رفیق اور پروفیسر فوزیہ شاہد نے کہا کہ حکومتیں اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے قانون سازی تو بہت جلدی کر لیتی ہیں مگر عوامی مفادات کیلئے قانون سازی میں برسوں لگ جاتے ہیں جب تک قانون نہیں بنے گا الیکشن کیسے ہونگے؟ فائزہ جہاں ایڈووکیٹ نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کے سربراہان سر جوڑ کر بیٹھیں اور بلدیاتی الیکشن کے حوالے سے لائحہ عمل تیار کریں۔گھریلو خواتین شازیہ شکیل، ارم اقبال اور صدف عدیل نے کہا کہ لگتا ہے اپوزیشن کی جماعتیں چاہتی ہیں کہ جنرل الیکشن پہلے ہوں مگر حکومت الیکشن سے پہلے لوکل باڈیز کے الیکشن چاہتی ہیں۔ بنک آفیسرز میمونہ اور نگہت امتیاز نے کہا کہ لوکل گورنمنٹ سسٹم کی حیثیت لوگوں اور عورتوں کے سیکھنے کیلئے نرسری کی تھی، خواتین اساتذہ انیلہ اور فردوس علی نے کہا کہ سیاستدان اس بات سے خائف ہیں کہ اگر بلدیاتی انتخابات میں ان کے مخالفین جیت گئے تو عام انتخابات کے نتائج متاثر ہو سکتے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن