دو عشرے قبل کی بات ہے ویٹر نے میر ے کمر ے کا دروازہ مقفل کر کے اردگرد نظر دوڑاتے ہوئے مجھے مخاطب کیا ”صاحب! ہم آج بھی پاکستانی ہیں، میرا باپ ریلوےز میں ملازم تھا وہ جہلم رےلوے سٹےشن پر کام کرتا تھا پاکستان ٹوٹ گےا تو وہ سب کو لے کر ڈھاکہ آگےا صاحب! مےرا باپ آج بھی پاکستان کو ےاد کرکے روتا ہے“ وےٹر نے اےک ہزار مےل دور سے آئے ہوئے پاکستانی کے سامنے اپنا دل چےر کر رکھ دےا۔ وہ تےز قدموں سے مےرے کمرے سے اس خطرے سے باہر نکل گےا کہ کوئی اس کی گفتگونہ سن لے۔ بنگلہ دےش بن تو گےا ہے لےکن آپ کو جگہ جگہ ”جےتے جاگتے پاکستان“ ملےں گے جو اس خوف سے اپنی زبان پر حال دل نہےں لاتے بنگلہ دےش مےں رہ کر پاکستان کی بات کرنے والے گردن زنی قرار پائے ہیں۔ بنگالی نوجوان جس نے پاکستان بنتے اور نہ ہی ٹوٹتے دےکھا ہے لےکن اس نے اپنے باپ کی گفتگو سے پاکستان کو محسوس کےا ہے اس کے لئے پاکستان اےک مقدس سرزمےن کا نام ہے جو برصغےر کے مسلمانوں کی پناہ گاہ ہے جسے بھارت نے 22سال کی مسلسل سازشوں کے بعد اپنی عسکری قوت سے دولخت کر دےا۔ اس کے مشرقی حصے کو بنگلہ دےش بنا دےا تھا مےں مارچ 1994ءکے دوسرے ہفتے نےشنل پرےس کلب ڈھاکہ کی دعوت پر سارک ممالک پرےس کلبز کانفرنس مےں راولپنڈی اسلام آبادپرےس کلب (جس کو نےشنل پرےس کلب اسلام آباد کا درجہ دے دےا گےا ہے) کے صدر کی حےثےت سے نمائندگی کی تھی سارک کانفرنس مےں مےرا اےک دن بھی دل نہےں لگا۔ مےں بلاخوف وخطر ڈھاکہ کے گلی کوچوں پھرتا رہا اور بنگلہ دےش مےں اپنے ”گمشدہ پاکستان“ کو تلاش کرتا رہا۔ مےں ان بنگالی فوجی افسران سے بھی ملا جنہوں نے شےخ مجےب الرحمنٰ کی حکومت کا تختہ الٹا۔ مےں نے ان بنگالےوں کا دروازہ بھی کھٹکھٹاےا جن کے عزےزو اقارب نے ”البدر اور الشمس“ کے پلےٹ فارم سے پاکستان کے لئے اپنی جانوں کے نذرانے پےش کئے۔ مےں نے شےخ مجےب الرحمنٰ کی حکومت کے خاتمے کے بعد بنگلہ دےش کی صدارت سنبھالنے والی نامور سےاسی شخصےت مشتاق کھنڈکر تک رسائی حاصل کی۔ متحدہ پاکستان کی قومی اسمبلی کے سابق سپےکر فضل القادر چوہدری کے صاحبزادے صلاح الدےن سے بھی ملنے گےا جو اپنے باپ کی وضع قطع کے مالک ہےں اور اسی لب و لہجہ مےں گفتگو کرتے ہےں جو ان کے عظےم والد کا خاصا تھا۔ مےں نے جماعت اسلامی بنگلہ دےش کے عظےم لےڈر پروفےسر غلام اعظم سے جماعت اسلامی کے دفتر مےں ملاقات کی۔ صلاح الدےن اپنی آبائی نشست سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوتے چلے آرہے ہےں جس پر ان کے والد سالہاسال منتخب ہوتے رہے۔ پروفےسر غلام اعظم کی قےادت مےں جماعت اسلامی نے بنگلہ دےش کی تےسری بڑی جماعت کی حےثےت اختےا رکرلی ہے۔ شےخ مجےب الرحمنٰ کی عوامی لےگ ہمےشہ بھارت نواز رہی ہے جب کہ بےگم ضےاالرحمنٰ کی جماعت اور جماعت اسلامی ان قوتوں کی نمائندہ ہےں جو بھارت کے توسےع پسندانہ عزائم کی تکمےل کی راہ مےں رکاوٹ ہےں۔ وہ بھارت کے مقابلے مےں پاکستان سے تعلقات استوار کرنے کی حامی ہےں۔ ےہ کہنا مبالغہ آرائی نہےں ہو گا کہ بنگلہ دےش کی سےاست ”پرو پاکستان اور پرو انڈےا“ کےمپوں مےں منقسم ہے۔ 40سال گذرنے کے باوجود شےخ مجےب الرحمنٰ کی بےٹی حسےنہ واجد بنگالےوں کے دلوں سے پاکستان سے محبت نہےں نکال سکی، اس نے اپنے باپ کے قاتلوں کو تختہ دار پر لٹکا کر اپنے انتقام کی آگ تو بجھا لی ہے لےکن وہ ان عظےم پاکستانےوں کو بھی کسی صورت معاف کرنے کے لئے تےار نہےں جنہوںنے 43سال قبل بنگلہ دےش بننے کی مخالفت کی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو اور شےخ مجےب الرحمنٰ کے درمےان اےک دوسرے کے ملکوں کے شہرےوں کے خلاف جنگی جرائم کے مقدمات نہ چلانے کا معاہدہ ہوا تھالےکن بنگلہ دےش نے اس معاہدے کی خلاف ورزی کی پروفسر غلام اعظم، علی احسن، دلاور حسن، قمر زمان، مولانا سعےد، مولانامطےع الرحمنٰ عبد القادر، صلاح الدےن قادراور دےگر رہنماﺅں کو جنگی جرائم کی عدالت سے سزائے موت دےنے کے فےصلے کے خلاف پورا بنگلہ دےش سراپا احتجاج بن چکا ہے۔ ان عظےم پاکستانےوں کی رہائی کے لئے سےنکڑوں لوگ اپنی جانوں کے نذرانے دے چکے ہےں۔ پاکستان مےں جماعت اسلامی نے احتجاج کےا ہے لےکن ہماری حکومت نے تو خاموشی اختےار کر لی ہے۔ جس پر وفاقی وزےر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے بنگلہ دےش مےں ”پاکستانےت“ کے قتل عام پر سفارتی سطح پر بات کرنے کا وعدہ کےا ہے۔ اسلامی سربراہ کانفرنس بنگلہ دےش کی حکومت کو اس نوعےت کی سزائےں دےنے سے روکنے مےں کردار اد کرسکتی ہے۔ جماعت اسلامی نے اس روز ہی بنگلہ دےش کو تسلےم کرلےا تھا جب نئی رےاست قائم ہوگئی تھی۔ وہ بنگلہ دےش مےں انتخابات لڑ رہی ہے، اس کے ارکان بنگلہ دےش کے آئےن کے تحت قومی اسمبلی کے رکن کا حلف اٹھا رہے ہےں۔ پاکستان کے19کروڑ عوام کو خاموش تماشائی کا کردار ادا نہیں کرنا چاہئے اور پاکستانی حکومت کو پاکستان کی بقا کی جنگ لڑنے والے پاکستانےوں کے حق مےں آواز بلند کرنے پر مجبور کرنا چاہئے۔ مسلم لےگ، پاکستان کی خالق جماعت ہے مشرقی حصے مےں ہم سے جدا کر دئےے جانے والے ان پاکستانےوں کی رہائی کے لئے موثر تحرےک چلانی چاہئے جنہوں نے پاکستان کے لئے اپنا سب کچھ قربان کر دےا۔ اگر ہم نے بنگلہ دےش مےں ”پاکستانےت کے قتل عام“ پر ”مجرمانہ خاموشی“ اختےار کر لی تو آنے والی نسلےں کبھی معاف نہےں کرےں گی۔