اس عیدالفطر کا چاند دیکھنے سے پہلے ہی ماہرین موسمیات نے اعلان کر دیا تھا کہ جمعہ کو چاند نظر آ جائے گا جس کی وجہ سے عید سے پہلے جمعہ کو جمعتہ الوداع اور یوم القدس کے طور پر منایا گیا۔ یقینی علم ہونے کے باوجود بھی عید سے دو روز پہلے تک لاہور کی مارکیٹوں میں رش معمول سے کچھ زیادہ رہا لیکن عید کے چاند کا اعلان ہوتے ہی تمام مارکیٹوں پر عوام نے یلغار کر دی۔ درزیوں نے تو پندرہ روز پہلے ہی سلائی کے کپڑے لینے سے انکار کر دیا تھا اس لئے خواتین و حضرات نے بچوں سمیت سب سے زیادہ شاپنگ ریڈی میڈ گارمنٹس کی دکانوں پر کی۔ مختلف چینلز نے بڑی مارکیٹوں میں تو عوام کا عید جوش بہت ذوق و شوق سے دکھایا لیکن حقیقت یہ ہے کہ پرانے لاہور کی تمام مارکیٹوں بشمول اندرون شہر عوام کا اور خصوصاً خریداروں کا زبردست رش رہا۔ مزنگ، ٹمپل روڈ، گوالمنڈی، کرشن نگر ہر مارکیٹ میں صرف سر ہی سر نظر آ رہے تھے لیکن انارکلی میں تو ریکارڈ رش تھا۔ یہ تو اچھا ہوا کہ سکیورٹی کے پیش نظر انارکلی سے تجاوزات کا کافی حد تک خاتمہ کر دیا گیا تھا۔ ہاں البتہ مال روڈ کے دونوں اطراف خریداروں کی زبردست یلغار تھی لیکن شاید کمشنر لاہور نے سکیورٹی کے نقطہ نظر سے اس طرف توجہ نہیں دی۔ وہ تو اچھا ہوا کہ ضلعی انتظامیہ نے پولیس کے تعاون سے سکیورٹی کا فول پروف سسٹم بنایا ہوا تھا جو ٹریفک پولیس اور دوسرے متعلقہ اداروں کے تعاون سے بہت کامیاب رہا۔
لاہوریوں کے لئے عید کا سب سے بڑا تحفہ لیسکو کی طرف سے بلاتعطل بجلی کی فراہمی تھی جس پر ایک طرف تو لاہوریئے حیران اور خوش تھے تو دوسری طرف اس حکمت عملی سے کسی بھی شاپنگ سینٹر یا مارکیٹ میں کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما نہیں ہوا ورنہ دوسری صورت میں لاہوریوں کی اکثریت کو لوٹ مار سمیت بہت سے ناخوشگوار واقعات کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ اس لئے لیسکو چیف ارشد رفیق بھی اپنے پورے عملے کے ساتھ شاباش کے مستحق ہیں۔ ویسے اب لیسکو کو نئی حکمت عملی بنا کر پورے لاہور کو لوڈشیڈنگ سے نکالنا چاہئے۔ لاہور کی معیشت میں عید فیسٹیول کا بہت اہم کردار ہے اور صرف اس خوبصورت اور مقدس تہوار کی وجہ سے اوپر سے نیچے تک نہ صرف ہر کسی کو روزگار ملتا ہے بلکہ مال میں سے حصہ بقدر جثہ بھی ملتا ہے۔ اب یہ الگ بات ہے کہ اس موقع پر اگلی پچھلی کسر نکالنے کیلئے ہر کوئی مہنگائی میں مزید اضافہ کر دیتا ہے لیکن لاہوریوں پر عید کا جوش اتنا غالب ہوتا ہے کہ وہ اس مہنگائی کو خاطر میں نہیں لاتے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عوام کو اللہ تعالیٰ کی تمام نعمتیں وافر مقدار میں دستیاب رہتی ہیں ورنہ پہلے تو عید کے روز سبزی منڈی اور فروٹ مارکیٹ بند ہونے سے پھل اور سبزیاں کمیاب ہو جاتی تھیں لیکن اب وہ دن گئے اور انسان بے اختیار کہہ اٹھتا ہے کہ ”اپنے رب کی کون کونسی نعمت کو جھٹلاﺅ گے“۔
گورنر پنجاب چودھری سرور نے عید کے روز ایک استقبالیہ رکھا ہوا تھا لیکن کوئٹہ کے واقعہ کی وجہ سے اسے کینسل کر دیا گیا البتہ اپنے دوستوں کو فرداً فرداً عید کی مبارک ٹیلی فون پر ضرور دی جس پر چودھری سرور کے دوست خوش ہوئے کہ گورنر بننے کے بعد بھی چودھری سرور کی گردن میں کوئی سریا نہیں آیا۔
لاہوریوں نے عید کا روز تو عزیزوں رشتہ داروں سے ملنے ملانے میں صرف کیا لیکن دوسرے دن تفریح گاہوں کو بھر دیا۔ حسبِ دستور چڑیا گھر نے ریکارڈ قائم کیا کیونکہ لاہور میں اس سے سستی تفریح گاہ کوئی دوسری نہیں ہے۔ راوی میں پانی کا بہاﺅ دیکھنے اور برسات میں لطف اٹھانے کیلئے لاہوریوں کی ایک بڑی تعداد نے کشتیوں کی سیر کی اور کامران کی بارہ دری پر بھرپور عید منائی۔ شوبزنس کی دنیا میں رونق بحال ہو گئی ہے۔ شہزاد رفیق کی اردو فلم عشق خدا نے بہت اچھا بزنس کیا۔ اس عید پر پانچ پشتو، دو پنجابی، دو اردو اور ایک سرائیکی فلم نمائش کیلئے پیش کی گئی جسے تماشائیوں نے دیکھا اور پاکستانی سینما کی حوصلہ افزائی کی۔ تمام سٹیج ڈراموں پر زبردست رش رہا۔ الحمرا میں ہال نمبر ایک کی ڈیٹ سولہ لاکھ میں نیلامی ہوئی جو ایک ریکارڈ ہے۔
عید کی گہما گہمی کے باوجود پنجاب حکومت نے ڈینگی کے خلاف اپنی مہم جاری رکھی۔ خصوصاً میانی صاحب کے قبرستان سمیت بہت سے مقامات پر لاروا برآمد ہونے پر قانونی کارروائی کی گئی۔ وزیراعلیٰ پنجاب کو چاہئے کہ برسات میں لاروا ضرور برآمد کریں اور تشہیری مہم بھی زور شور سے چلائیں لیکن قانونی کارروائی معطل کر دی جائے کیونکہ بارشوں کے پانی کو خشک کرنے کیلئے اتنی بڑی فورس چاہئے جو پنجاب حکومت فراہم نہیں کر سکتی۔