علامہ طاہر القادری کا یوم شہداء چند اعلانات کے بعد اختتام پذیر ہو چکا ہے، عوامی مذہبی، سیاسی اور صحافتی ان اعلانات رپ اپنی اپنی سوچ اور بصیرت کے مطابق تبصرے کر رہے ہیں۔ یوم شہداء کے موقع پر کئے گئے، اعلانات کا غیر جانبدارانہ جائزہ لیتے ہوئے یہی بات یہ ابھر کر سامنے آ ئی ہے کہ شیخ رشید احمد اور چودھری برادران کی کوششیں بالآخر رنگ لے آئیں اور عمران خان کا آزادی مارچ اور علامہ کا انقلاب مارچ 14اگست کے لئے فکس کر دیئے گئے ہیں، اب 14اگست کو دونوں فورسز اسلام آباد کی طرف مارچ کرنے کی کوشش کرینگی جبکہ وفاقی و پنجاب حکومتیں اس پوزیشن میں نظر نہیں آ رہی کہ ان دونوں طاقتوں کو اسلام آباد میں افراتفری پھیلانے کی اجازت دیں۔
ماڈل ٹائون لاہور میں گزشتہ ہفتے سے کھیلا جانے والا کھیل اپنے منطقی انجام کی طرف گامزن ہو چکا ہے۔ اس سارے کھیل تماشے میں حکومتی بے بسی اور پولیس کے صبر کو ہر خاص و عام نے شدت کے ساتھ محسوس کیا، یہ الگ ایشو ہے کہ ہمارا الیکٹرانٹ میڈیا ایک بار پھر ڈنڈی مار گیا اور پولیس کو لاٹھیاں برساتے ہوئے تو دکھاتا رہا مگر ہمارے میڈیا کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ ڈنڈا برداروں کے پولیس جوانوں پر تشدد کی فوٹیج بھی دکھا دے کہ خصوصی طور پر تیار کئے گئے ڈنڈوں نے کتنے پولیس والوں کو موت کے منہ میں دھکیل دیا، کتنے جوانوں کو خون میں نہلا یا گیا۔
17جون کے سانحہ ماڈل ٹائون میں تو ایک گلو بٹ سامنے آیا تھا لیکن اس کے جواب میں آج ماڈل ٹائون میں ہزاروں گلو بٹ نظر آ رہے ہیں جو ہر کاری گلو بٹوں کو سبق سکھانے کا انتظار کر رہے ہیں۔ طاہر القادری اور ان کے حواری پنجاب حکومت کی طرف سے ڈھائے جانے والے مظالم کا رونا رو رہے ہیں لیکن غیر جانبدار طبقہ یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہے کہ کشیدگی کا ماحول پیدا کرنے کا ذمہ دار کون ہے۔ وہ کون ہے جس کے باعث ہلاکتیں ہوئیں لوگ اپاہج کر دیئے گئے پٹرول پمپس والوں نے پٹرول کی سپلائی بند کر دی لوگ آنے جانے سے محروم کر دیئے گئے جنازوں اور ایمبولنسوں کے راستے روک دیئے گئے راستہ نہ ملنے پر ایمبولینسوں میں مریض تڑپتے رہے اور ایک دو ہلاک بھی ہو گئے۔ ہسپتالوں کی سڑکیں بند کر دی گئیں میرے نزدیک اس سب کچھ کے ذمہ دار صرف حکمران ہی نہیں بلکہ حکمرانوں کے سیاسی مخالفین بھی ہیں جو اپنے عزائم کی تکمیل کے لئے علامہ طاہر القادری اور عمران خان کو ہلہ شیری دے رہے ہیں، لوگ ان بے حس لیڈروں کو چلے ہوئے کارتوس اور سیاسی یتیم کہتے ہیں اور سچ کہتے ہیں، مان لیا کہ طاہر القادری تو بیرونی ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں اور ایک گھنائونا مشن لیکر آئے ہیں اور چند لوگوں کی مدد سے مشن پورا کرنا چاہ رہے ہیں لیکن چیرت ہے عمران خان پر کہ وہ نہ جانے کیوں کٹھ پتلی بنا ہوا ہے۔
ایک طرف حکومت کنفیوژ ہے اور کوئی ایسا Stepلینا نہیں چاہ رہی جو ہلاکتوں اور خون خرابے کا سبب بنے حکومت کے اسی ذہنی دیوالیہ پن نے مخالفین کو متحد ہو کر میدان عمل میں نکلنے کا موقع دیدیا ہے۔ حکومت کی اس کنفیوژن کا ہی نتیجہ ہے کہ حکومت کو مزید ڈرانے کے لئے ایسے بیانات سامنے آنے لگے ہیں جن سے حکومت دشمنوں کے دلوں کے اندر چھپے ہوئے چور باہر آنے لگے ہیں، پہلے عمران خان نے کہا کہ اگر آزادی مارچ سے پہلے یا اس دوران اپنی کچھ ہو گیا تو انکے کارکنوں کو شریف برادران کو چھوڑنا نہیں چاہئے یعنی بدلہ لینا چاہئے۔ ابھی عمران خان کے بیان پر تبصرے ہو رہے تھے تو چودھری شجاعت نے بھی اسی قسم کا بیان دے ڈالا لیکن طاہر القادری کے تازہ ارشاد نے تو حکومتی بڑوں کی نیندیں حرام کر دی ہیں۔ فرماتے ہیں میری اطلاع کے مطابق مجھے شہید کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے اور کسی وقت بھی شہید کیا جا سکتا ہے اگر مجھے ختم کر دیا گیا تو میں کارکنوں سے کہتا ہوں کہ شریف برادران کو نہ چھوڑیں‘‘۔ اس نازک صورتحال کے بعد پاک فوج سے امیدیں وابستہ کی جا سکتی ہیں کہ وہ پاکستان کو خون خرابے سے بچانے کے لئے اپنا رول ادا کرے گی۔ کور کمانڈر کانفرنس کا انعقاد اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے اللہ میرے پاکستان کی حفاظت کرے اور اسے دشمنوں کے شر سے بچائے رکھے۔ آمین !