بعض لوگ حکومت اور ریاست کو ایک ہی ادارہ سمجھتے ہیں حالانکہ دونوں الگ الگ ہیں۔ حکومت تبدیل ہوتی رہتی ہے اس لئے عارضی ہوتی ہے جبکہ ریاست ایک مستقل چیز ہے۔ ریاست میں جمہوری حکومت بھی ہو سکتی ہے اور آمریت کا راج بھی مگر اس کی حیثیت عوام کیلئے ہمیشہ سائبان کی سی رہتی ہے۔ حکومت کا یہ کام ہوتا ہے کہ وہ اپنے اداروں کے ذریعے عوام کو تحفظ اور سہولت فراہم کرتی ہے۔ پاکستان میں اس وقت جو حکومت برسراقتدار ہے‘ اس نے ریاست کے فطری کردار کے برعکس حکمت عملی اپنا رکھی ہے۔ یہ برائے نام جمہوری حکومت دن بدن اپنے بچھائے ہوئے انتظامی حربوں کا شکار ہوکرپسپائی اختیار کرتی جا رہی ہے۔ میڈیا دن رات اسے جن حرکتوں سے منع کر رہا ہے‘ یہ اسی قدر جارحانہ اقدامات کی طرف بڑھ رہی ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے حکومت پنجاب اور وفاق کو کوئی مشاورتی ٹیم باقاعدہ تباہی کی طرف دھکیل رہی ہے۔ ذیل میں ہم بالترتیب ان امور کی نشاندہی کر رہے ہیں جو حکومت کی مکمل طورپر ناکام حکمت عملی اور سیاسی خودکشی کی علامت ہیں۔
1۔ 17 جون کی رات پنجاب حکومت نے بھاری نفری کے ساتھ جن دو گلیوں کی رکاوٹوں کو بہانہ بنا کر شب خون مارا اور اندھا دھند فائرنگ کرکے معصوم شہریوں کا قتل عام کیا۔ اس کی کوئی اخلاقی‘ قانونی‘ سیاسی اور انتظامی توجیح ممکن نہیں۔ اگر اس وقت دو گلیوں میں رکاوٹیں جرم تھا تو آج پورا ماڈل ٹاﺅن اور لاہور نوگو ایریا بن چکا ہے۔
2۔ پنجاب پولیس نے جرائم پیشہ اہلکاروں کے ذریعے جو قتل عام کیا‘ وہ میڈیا کی بروقت کوریج کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور ہو چکا ہے۔ اس سے انکار کسی فریق کیلئے ممکن نہیں مگر اس دور میں بھی کسی شخص کو قصووار ٹھہرا کر نہ تو کوئی مقدمہ قائم کیا گیا ہے اور نہ کسی کے خلاف ایف آئی آر کاٹی گئی ہے۔ الٹا مظلوم اور مقتول فریق پر ایف آئی آر کٹوائی گئی۔ یہ کونسی جمہوریت‘ حکومت اور قانون ہے۔
3۔ پنجاب حکومت نے ڈاکٹر طاہرالقادری پر اب تک کئی مقدمات درج کر دیئے ہیں۔ ان پر لگائے گئے الزامات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انہوں نے کارکنان کو پولیس پر دست درازی کی ترغیب دی۔ پولیس بنیادی طورپر ریاست میں امن و امان برقرار رکھنے کیلئے ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں پولیس محض دہشت‘ لاقانونیت اور ظلم و جبر مسلط کرنے کا آلہ کار بن کر رہ گئی ہے۔حکومت نے 17 جون کے شہداءکے ذمہ داران کو کیفرکردار تک پہنچانے میں ابھی تک جس مجرمانہ جانبداری کا مظاہرہ کیا ہے‘ اس کے عوام کی نظروں میں اس کی حیثیت بہت کمزور کر دی ہے۔ اس کی بددیانتی اور بدحواسی کا ایک اور واضح ثبوت یہ ہے کہ گزشتہ روز ایک اہلکار ٹریفک حادثے میں جاںبحق ہوا جس کی میڈیکل رپورٹ اب میڈیا نے تفصیل سے شروع کر دی ہے مگر حکومت نے اس کا مقدمہ بھی ڈاکٹر طاہرالقادری کے خلاف قائم کر دیا ہے۔ اس کے برعکس پولیس نے ایک دن میں مزید آٹھ کارکنان کو ہلاک کر دیا ہے جن کا جرم یہ تھا کہ وہ یوم شہداءمیں شرکت کیلئے لاہور آرہے تھے۔ کیا اس قتل عام پر حکومت نے معذرت کا ایک لفظ بھی ادا کیا ہے۔
4۔ گزشتہ روز پنجاب بھر کی شاہراہوں پر جس قدر رکاوٹیں کھڑی کرکے عام لوگوں کو پریشان کیا گیا‘ مریضوں کو ہسپتالوں میں نہیں جانے دیا گیا‘ مجھ سمیت بے شمار لوگ لاہور میں اپنے اپنے دفاتر نہیں جا سکے۔ ماڈل ٹاﺅن کو غزہ بنا دیا گیا۔ رہائشی لوگوں کو بھی اپنے گھروں میں جانے کی اجازت نہیں۔ کیا کسی عدالت یا کسی کمیٹی نے اس کا نوٹس لیا؟ حکومت جب اس قدر بہری‘ اندھی اور گونگی ہو جائے تو اس کے پاس ملک پر حکم چلانے کا کیا جواز رہ جاتا ہے۔ میں خود ذاتی طورپر آج تیسرے دن سے اپنی رہائش گاہ اور دفتر میں نہیں جا سکا۔ میرے بچے اور گھر والے دو جگہوں پر منقسم ہیں۔ موبائل فون کے سگنل نہیں اس لئے باہم رابطہ بھی ممکن نہیں۔ کیا ایک آزاد ملک کے کسی حصے میں شہریوں کو ثبوت جرم کے بغیر اس قدر پریشان کیا جانا قرین قیاس ہے؟ یہ حکومتی بوکھلاہٹ اور پسپائی کی علامت نہیں تو اور کیا ہے؟ کہ نارنگ منڈی سے لیکر شاہدرہ تک اور جی ٹی روڈ سے لیکر فیروز پور روڈ سمیت لاہور میں داخل ہونے کے سبب راستے سیل کر دیئے گئے۔ حکومت نے تحریک انصاف کے ساتھ سفارتکاری او مذاکرات کی پالیسی اپنائی جبکہ عوامی تحریک کے ساتھ کھلی جارحیت کی پالیسی اپنائی گئی۔ حکومت معاملات کو بند گلی میں دھکیل رہی ہے۔ اس کے بھیانک نتائج برآمد ہوں گے۔
حکومتی پسپائی کے مظاہر
Aug 12, 2014