جرات و استقامت کا پیکر

Aug 12, 2014

پروفیسر محمد مظہر عالم

حرمت قلم اور فکری و تحریری حرمت کا سلسلہ جناب مجید نظامی نے 1962 تا 2014 جاری و ساری رکھا۔ نظریہ پاکستان کے فروغ، فکروفلسفہ علامہ اقبالؒ اور فرمودات قائداعظمؒ کی ترویج کا سلسلہ انہوں نے نصف صدی سے بھی زیادہ جاری رکھا۔ جناب مجدد نظریہ پاکستان نے، امام صحافت کا کردار کچھ اس انداز سے جاری و ساری رکھا اور آنے والے ہر سول یا فوجی حکمران کے ہر اس غیر جمہوری غیر آئینی اقدامات کی بھرپور مخالفت کی اور ہر باطل قوت کے سامنے سینہ سپر رہے۔ میں نے اپنے تقریباً 40 سالہ تدریسی تجربہ کے دوران جس استقامت و جرات کے ساتھ جناب مجید نظامی کو حکمرانوںکے جبر اور سیاست دانوں کے ملک دشمن خیالات و عمل کو عزم صمیم سے سامنا کرتے دیکھا، وہ انہی کا وصف تھا۔ وہ شعبہ تعلیم اور اس میں ایسے مضامین کی تدریس، خصوصاً معاشرتی علوم، تاریخ جیسے اہم مضامین کی تدریس اور سلیبس مدون کرنے کے دوران ایسے موضوعات منتخب کروانا جس سے نوجوان نسل اپنی تاریخ وثقافت سے بیگانہ ہو اور انہوں نے ہمیشہ غلط فیصلوں کا دفاع کیا۔ 11 ستمبر 2005 کو قائداعظمؒ کی برسی کی تقریب نظریہ پاکستان ٹرسٹ زیر صدارت جناب آبروئے صحافت مجید نظامیؒ کا انعقاد ہوا۔ اسی سال سال 2005-06 کے آغاز سے تاریخ پاکستان (انٹرمیڈیٹ) کے سلیبس میں سے حکومت وقت نے (1857 سے 1947) کا تحریک قیام پاکستان کا حصہ سال اول سے خارج کرکے (1947 سے 1977 اور 1977 سے 1986) کا حصہ دو حصوں میں تقسیم کرکے سال اول اور دوم کے لئے رائج کر دیا۔ (یاد رہے کہ تاریخ کا مضمون انٹرمیڈیٹ کی سطح پر پہلے ہی اختیاری ہے) اساتذہ و طلبا کے لئے یہ صورتحال نہایت تشویش ناک تھی۔ نئی کتب بھی مارکیٹ میں چھپ کر آ گئیں۔ میں نے دوران تقریب ایک چٹ پہ یہ لکھ کر ایک طالب علم کے ذریعے جناب مجید نظامی صاحب کی خدمت میں لکھ کر بھیجا۔ ’’موجودہ غیر آئینی و غیر جمہوری حکومت نے ملک دشمن قدم اٹھاتے ہوئے تاریخ پاکستان کا اہم حصہ انٹرمیڈیٹ کے نصاب سال اول میں سے خارج کر دیا ہے۔ امید ہے آپ چند مذمتی کلمات سے نوازیں گے‘‘۔ تقریب کے اختتام پر جناب شاہد رشید نے صدارتی کلمات کے لئے جناب مجید نظامی صاحب کو دعوت خطاب دی۔ نظامی صاحب سٹیج پر تشریف لائے، خواتین و حضرات کہہ کر فرمایا، ’’مجھے ہال میں سے ایک چٹ موصول ہوئی ہے، میری خواہش ہے کہ موصوف سٹیج پر آ کر تفصیلاً حقائق سے آگاہ کریں میں اپنا وقت ان کو دیتا ہوں۔ کہا اور واپس اپنی جگہ پر تشریف فرما ہوئے‘‘ میں نے ان کے حکم کی تعمیل میں نہایت مفصل حقائق سے آگاہ کیا اور ہال میں موجود خواتین وحضرات، طلباوطالبات کی اکثریت نے حکومتی اقدامات کی مذمت کی۔ جناب مجید نظامی صاحب تو ہر حکومت کے ملک دشمن اقدامات کے سامنے ڈٹ جاتے تھے۔ مجھے انہوں نے نہایت مشفقانہ طریقے سے کہا ’’پروفیسر صاحب کیا آپ کل بارہ اور ساڑھے بارہ کے درمیان میرے دفتر آ سکتے ہیں‘‘۔ دوسرے روز 12 ستمبر 2005 کو میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ انہوں نے کمال شفقت سے تمام امور کو غور سے سنا۔ مجھے انہوں نے جناب سلمان غنی صاحب کے پاس بھیجا۔ انہیں تمام تفصیلات سے آگاہ کیا۔ پھر کیا تھا نوائے وقت کے پلیٹ فارم سے حکومت وقت کے ملک دشمن عزائم کو اسی روایت سے چیلنج کیا کہ بات چلتی چلتی قومی اسمبلی تک پہنچی۔ اور حقیقتاً یہ پہلی مرتبہ ہوا کہ نئے سلیبس کے تحت مطبوعہ تمام کتب کو تلف کرنا پڑا۔ ہاں ایک بات ضرور ہے کہ آغاز میں تو اہل اقتدار نے تسلیم ہی نہ کیا مگر بعد میں مجبوراً کہ جناب مجید نظامی کے عزم کے سامنے انہیں جھکنا پڑا۔ انہوںنے ساری زندگی وطن عزیز کی نظریاتی سرحدوں کی جس طرح حفاظت کا سلسلہ نظریہ پاکستان ٹرسٹ اور نظریہ پاکستان ورکرز ٹرسٹ کے زیراہتمام جاری کیا ہے وہ ہمارے حوصلہ اور طمانیت کا باعث ہے۔ اور ایک حقیقت بلامبالغہ بیان کرتا چلوں کہ جس طرح قائداعظمؒ کے بعد دوسرا حقیقی قائد نہ مل سکا بعینہ جناب مجید نظامی کے بعد شاید ہی کوئی دوسرا میسر آ سکے۔

مزیدخبریں