نظریاتی سپہ سالار ”مجید نظامی“ وہ گفتار ہی نہیں کردار کے بھی غازی تھے

احمد کمال نظامی
اچھا صحافی کسی بھی مصلح قوم، سماجی، معاشرتی، مذہبی اور سیاسی رہنما سے بڑھ کر رہنمائی کا کام کرتا ہے،اس کی تحریروں سے لاکھوں اذہان منور ہوتے ہیں، ایک بڑا صحافی جو اپنے نظریہ اور فلسفہ پر سیسہ پلائی دیوار کی مانند کھڑا ہے وہ قوم کے لئے سمت اور منزل کا تعین بھی کرتا ہے۔ ماضی کے اوراق پر نگاہ ڈالیں تو مولانا ظفر علی خان، مولانا محمد علی جوہر جیسی قدآور شخصیات کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں ۔ مولانا ظفر علی خان اور مولانا محمد علی جوہر برطانوی سامراج کے عہد میں پیدا ہوئے انہوں نے آزادی صحافت سے زیادہ آزادی وطن کی جنگ لڑی اوراس جنگ میں سرخرو ہوئے۔ اس سامراجی زمانہ میں صحافت آزاد تھی انہیں آزادی صحافت کی جنگ نہیں لڑنی پڑی لیکن قیام وطن کے بعد فدویانہ صحافت کو قومی مفاد قرار دے دیا گیا بڑے بڑے نامور صحافی جو مالکان اخبارات میں شامل تھے انہوں نے فدویانہ صحافت کی کیونکہ ان کے پس پردہ کوئی نظریاتی قوت کارفرما نہ تھی بلکہ صحافت کو ایک بزنس قرار دیتے تھے اور بزنس مین کی طرح انہوں نے صحافت کی۔ لیکن جب پاکستان میں ہر طرف فدویانہ صحافت کا پرچم لہرا رہا تھا تو وطن عزیز کے اساسی نظریہ قائد و اقبال کے فلسفہ کے پرچم کو جس جرا¿ت کا مظاہرہ کرتے ہوئے لہرایا اس کا نام حمید نظامی تھا۔ صحافت کی جس کھیتی کو 1958ءکے مارشل لاءاور مطلق العنانی کی کھاد اور کھاری پانی دیا جا رہا تھا اس کھیتی کو سرسبز و شاداب کرنے اور رکھنے کے لئے مولانا ظفر علی خان اور مولانا محمد علی جوہر کی طریقت پر چلتے ہوئے فدویانہ صحافت کی بجائے باغبانہ صحافت کی تلوار کو نیام سے باہر گو حمید نظامی نے نکالا تھا لیکن حمید نظامی کی رحلت کے بعد جب مجید نظامی کے سپرد علم ہوا تو بطن صحافت مجید نظامی نے تادم آخر اس تلوار کو نیام میں نہیںڈالا۔ جنرل ایوب خان سے جنرل پرویزمشرف تک جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق بلند کرنے کی ناقابل فراموش داستان رقم کی۔ فیصل آباد میں مجید نظامی کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے بہت سے حضرات نے ذاتی طور پر دفتر نوائے وقت تشریف لا کر اظہار تعزیت کیا جبکہ اجتماعی طور پر نظریہ پاکستان فورم انجمن تاجران سٹی پریم یونین اور یدگر سماجی رفاہی اور کاروباری تنظیموں نے تعزیتی اجلاسوں میں بھرپور انداز میں مجید نظامی کی قومی اور صحافتی خدمات کو اپنا ورثہ قرار دیا۔ نظریہ پاکستان فورم کے بانی بھی مجید نظامی ہیں۔ نظریہ پاکستان فورم کے تعزیتی اجلاس کی صدارت میاں عبدالکریم نے کی اور مقررین میں ارکان قومی اسمبلی ممتاز تاجر اور نئی نسل کے نمائندہ طلباوطالبات کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ مقررین نے اپنی یادوں کے حوالہ سے مجید نظامی کے کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے انہیں نظریاتی سپاہ کے سالاراعظم کے خطاب سے نوازا۔ قومی اسمبلی کے رکن حاجی اکرم انصاری نے کہا کہ مجید نظامی کو اقتدار سے قطعی پیار نہیں تھا بلکہ اقتدار کی کرسی ان کے نزدیک کسی بھی درجہ کی مستحق نہیں تھی۔ یہی وجہ ہے کہ جب میاں محمد نوازشریف نے مملکت پاکستان کے صدارتی انتخاب کے موقع پر مجید نظامی کو بطور صدارتی امیدوار نامزد کرنے کی اجازت مانگی تو مرحوم مجید نظامی نے صاف انکار کر دیا اور جسٹس رفیق تارڑ کا نام بھی پیش کیا اور اپنی تقریر میں نئی نسل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ مجید نظامی کا راستہ اپنائیں جو پاکستان کی ترقی، استحکام اور خوشحالی و سلامتی کا راستہ ہے۔رکن قومی اسمبلی میاں عبدالمنان کا کہنا تھا مرحوم مجید نظامی کی رحلت کے بعد ان کے پاکستان کے خلاف جو سازشیں ہو رہی ہیں جو ان کی زندگی میں ناکامی سے دوچار ہوتی رہیں، سازشی عناصر کو یہ علم ہونا چاہیے کہ مجید نظامی کی تیارکردہ نظریاتی سپاہ ہر محاذ پر سازشوں کا مقابلہ کرنے کے لئے چاک و چوبند ہے۔ مجید نظامی اس سپاہ کے ہوتے ہوئے زندہ ہے اور زندہ رہے گا۔ صاحبزادہ زاہد محمود قاسمی نے کہا کہ بھارتی بنیا اور ہنود تہذیب و ثقافت کے خلاف وہ پوری زندگی سینہ سپر رہے اور پاکستان میں قائد و اقبال کے نظریات کے امین ہونے کی ادا ہمیں مرحوم مجید نظامی کی زندگی سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔ تحریک وحدت کے لیڈر مولانا محمد ریاض کھرل نے کہا کہ نوائے وقت کی پیشانی پر جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق محض اشتہار کے طور پر ایک نعرہ کے طور پر نہیں لکھا ہوا تھا جبکہ نوائے وقت کے مضامین نوائے وقت کے اداریئے اور شذرات اس کا منہ بولتا ثبوت تھے جو حاکم وقت کی بھارتی دورے کے موقع پر ہمراہ چلنے کی دعوت یہ کہہ کر ٹھکرا دے کہ کاش ٹینک پر سوار ہو کر بھارت چلنے کی دعوت دیتے۔ اس سے ہی مجید نظامی کے مجاہدانہ کردار کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ وہ گفتار کے غازی نہیں بلکہ نظریاتی طور پر کردار کے غازی تھے اور ان کے جرا¿ت بیان کے آگے بڑے بڑے جرنیلوں کا پتہ پانی ہو جاتا تھا۔ تحریک پاکستان کے کارکن اور تاجر لیڈر حاجی شیخ محمد بشیر نے مجید نظامی کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے صحافتی محاذ پر اگر کوئی شخص 52برسوں تک پوری جرات اور رند کے ساتھ ضرب عضب لگاتا رہا اور اس کی ضرب عضب سے بہت سے سورمے اپنے حواس بھی قائم نہ رکھ سکے تو اس مردجری کا نام مجید نظامی تھا جو ایسے وقت میں ہمیں چھوڑ گیا جب اس کی قائدانہ صلاحیتوں اور کردار کی قوم کو ضرورت تھی۔نوائے وقت کی پیشانی پر جہاں جابر سلطان کے سامنے کلمہ جہاد بلند کرنا لوح پیشانی تھا وہاں امریکی سامراج نے افغانستان میں جس بربریت اور وحشت کی نئی فرعونی تاریخ رقم کی تو مجید نظامی نے قائد و اقبال کے سچے پیروکار ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے ”افغان باقی کہسار باقی، الحکم اللہ الملک اللہ“ کا سلوگن مستقل نوائے وقت کے صفحات پر دے کر مسلم امہ کی قیادت و سیاست کو فکر مسلم کی دعوت دی۔ کاش کوئی اس دعوت کی روح کو پہچانتا تو دہشت گردی کے اصل چہرے اس کے سامنے بے نقاب ہو جاتے ۔اس تعزیتی ریفرنس میں پرویز خالد شیخ، حامد سلطان دا¶دی، آصف تارڑ، ارشد قاسمی، جعفر حسن مبارک، شعیب مدنی اور زندگی کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد نے اپنے اپنے انداز میں عقیدت کے پھول مجید نظامی کے حضور نچھاور کئے جبکہ انجمن تاجران فیصل آباد سٹی کے خواجہ رزاق سکا کی صدارت میں تعزیتی ریفرنس ہوا جس میں فیصل آباد کی تمام تاجر تنظیموں کے عہدیداروں نے شرکت کی۔ تاجروں کے اس ریفرنسی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے رکن قومی اسمبلی رانا محمد افضل ، حاجی خالد سعید، محمود عالم جٹ، مرزا صدیق بیگ، اسامہ سعید اعوان اور خواجہ رزاق سکا نے کہا کہ ڈاکٹر مجید نظامی کی شخصیت ایک ایسی شخصیت تھی جس کے دل کی دھڑکن نظریہ پاکستان کی ترویج و اشاعت سے مشروط تھی اور مجید نظامی مرحوم اپنی ذات میں ایک مکمل ادارہ تھے ، ہم اس شخصیت سے محروم ہو گئے ہیں ان کے جانے سے جو خلا پیدا ہوا وہ خدا کرے کہ اسی انداز میں پر ہو جائے جیسے حمید نظامی کے رخصت ہونے پر مجید نظامی نے خلا کو پر کیا اور 52 برسوں تک ایک لمحہ کے لئے یہ احساس نہیں ہونے دیا کہ خلا خالی ہے جبکہ ذاتی طور پر بیوروآفس روزنامہ نوائے وقت اور میرے گھر تشریف لا کر تعزیت کرنے والوں کی ایک طویل فہرست ہے۔ جگہ کی کمی کے باعث تمام حضرات کے تعزیتی کلمات تحریر کرنے سے قاصر ہے ، تعزیت کے لئے آنے والی شخصیات میں ممتاز ماہر تعلیم، صنعت و تجارت، سیاسیات اور سماجیات کے شعبوں سے تعلق رکھنے والے شامل ہیں۔ ان میں راجہ نادر پرویز، رانا محمد افضل، اکرم انصاری، میاں عبدالمنان، بیگم خالدہ منصور، فقیر حسین ڈوگر، پروفیسر ڈاکٹر اقرار احمد خاں، پروفیسر ڈاکٹر جلال عارف، میجر(ر) معین باری ،اعجاز بٹالوی محکمہ تعلقات عامہ پنجاب کے ڈائریکٹر سبحان علی، جنگ کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر ظفر ڈوگر، ایکسپریس کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر نواز ڈوگر نے اظہار تعزیت کیا جبکہ چچا مرحوم مجید نظامی کی وفات پر میرے ساتھ اظہار تعزیت کرنے والوں میں بڑی تعداد میں ایسے حضرات بھی شامل ہیں جنہوں نے گاہے بگاہے چچا مرحوم مجید نظامی سے شرف ملاقات کیا اور تعزیت کرتے وقت ان کی یادوں کو تعزیت کا حصہ بنایا۔ ان حضرات کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر مجید نظامی حالات کیسے بھی ہوں نظریہ پاکستان کی جنگ لڑنے سے انہوں نے کبھی غفلت نہیں برتی اور یہی جنگ لڑتے ہوئے لیلة القدر کی مبارک ساعتوں میں اپنے مالک حقیقی کے حضور پیش ہو گئے۔ گویا لیلة القدر کو پانے کی خواہش اور تمنا ہر مومن کے دل میں مچلتی رہتی ہے اور ڈاکٹر مجید نظامی نے لیلة القدر کو پا لیا اوراس دولت کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے رب العزت کے حضور پیش ہو گئے جو ان کے ایک سچے مسلمان اور عاشق رسول ہونے کی بین دلیل ہے اور تعزیت کا سلسلہ جاری ہے۔ نظریہ پاکستان، فکر اقبال اور اصول قائد کی روح گھولنے والے اس مرد قلندر سے اظہار تعزیت کرنے اور ان کے نظریات کو اصول زندگی قرار دینے والوں کی کمی نہیں محسوس ہو گی۔ اس لئے کہ جانے والا سبق صداقت پڑھا گیا ہے اور ہم نہیں ہوں گے تو ہمیں یاد کرو گے والا مقولہ ڈاکٹر مجید نظامی مرحوم پر صادق آتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن