سیاسی محاذ آرائی اورخدشات؟

مکرمی! جوں جوں 14 اگست کادن قریب آ رہا ہے پاکستانی قوم پر ایک ہیجانی کیفیت طاری ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ ہر طرف بے یقینی کے سائے منڈلانے لگے ہیں۔ ایک طرف تحریک انصاف ہے جو آزادی مارچ کی تیاریوں میں مصروف ہے تودوسری طرف طاہرالقادری اپنا انقلاب لاناچاہتے ہیں۔ اگر موجودہ حالات کو دیکھا جائے تو اپوزیشن جماعتیں اپنے احتجاج کو لے کر ایک گرما گرم ماحول بنانے اور بظاہر لاپروا نظر آنے والی حکومت پر سیاسی دباؤ بڑھانے میں کامیاب ہوگئی ہیں۔ اب حکومتی حلقوں کی طرف سے بھی لاہور میں طاہر القادری کا انقلاب اور اسلام آباد میں عمران خان کے مارچ کو روکنے اور ناکام بنانے کے لئے کئی طرح کی حکمت عملیاں اور منصوبے بنائے جا رہے ہیں۔ ملک میں بڑھتی ہوئی سیاسی کشیدگی کو کم کرنے اور ملک کو کسی بڑے سانحے سے محفوظ رکھنے کیلئے سنجیدہ سیاسی حلقوں نے مصالحتی کوششیں شروع کردی ہیں۔کسی انہونی کو روکنے کیلئے جماعت اسلامی اور پیپلزپارٹی سمیت دیگر جماعتیں بھی اپنا کردار ادا کرنے کیلئے میدان میں آ گئی ہیں۔ لیکن پریشانی کی بات یہ ہے کہ ایک طرف وزیراعظم حالات کو بہتر کرنے کیلئے اپوزیشن اور حکومتی شخصیات سے مشاورت جاری رکھے ہوئے ہیں تو دوسری جانب لاہور میں تحریک منہاج القرآن اورتحریک انصاف کے رہنماؤں کی گرفتاریوں، موٹرسائیکلوں کی پکڑ دھکڑ، لاہور اور اسلام آباد کے راستوں پر پٹرول پمپوں کی بندش سمیت ہر طرح کے اقدامات کر رہی ہے۔ ملک کے سنجیدہ قومی وسیاسی حلقوں میں یہ بحث جاری ہے کہ 14 اگست کوکیا ہو گا؟ ہمارے ملک میں ابھی جمہوریت ابتدائی مراحل میں ہے اسے مستحکم ہونے کے لیے وقت درکار ہے۔ ہمارے عوام اور سیاسی جماعتوں میں بے صبری بہت زیادہ ہے۔ وہ چاہتے ہیں دنوں میں کام ہوں، مسئلے حل ہوں اور ان کے مطالبے پورے ہوں۔ جب تک سیاسی جماعتوں میں یہ سوچ پیدا نہیں ہو گی کہ وہ منتخب حکومتوں کو اپنی مدت پوری کرنے دیں، تب تک گاڑی ایسے ہی چلے گی۔(سمیع الرحمان ضیا، منصورہ، لاہور)

ای پیپر دی نیشن