لاہور (وقائع نگار خصوصی) لاہور ہائی کورٹ کے مسٹر جسٹس خالد محمود خان نے شہر میں کنٹینر لگانے اور پٹرول پمپس کی بندش سمیت دیگر حکومتی اقدامات سے شہریوں کو درپیش مسائل کے خلاف ایک شہری حسن اور احمد اویس کی درخواستوں کی سماعت کرنے سے انکار کرتے ہوئے فائل چیف جسٹس کو واپس بھجوا دی۔ فاضل جج کا کہنا تھا کہ انہوں نے اتوار کے روز ڈاکٹر طاہر القادری کی تقریر سنی۔ تقریر کی کوئی بھی ذی شعور پاکستانی حمایت نہیں کر سکتا۔ تقریر سننے کے بعد میرا ذہن تعصب سے مغلوب ہو چکا ہے۔ تقریر سے ان کا ایک ذہن بن گیا اور جب کوئی جج کسی معاملے میں ایک ذہن بنا لے تو شاید پھر وہ انصاف کے تقاضے پورے نہیں کر سکتا۔ اس لئے وہ اس رٹ کی سماعت نہیں کر سکتے۔ جسٹس خالد نے کہا کہ پاکستان ہم سب کا ملک ہے اگر ملک ہے تو ہم سب ہیں، ادارے ہیں اور عدلیہ بھی ہے۔ طاہر القادری کی تقریر کو میڈیا نے دکھایا اور اسے پوری دنیا نے سنا۔ میں میڈیا کی کوریج پر حیران ہوں۔ فاضل جج نے فریقین کے وکلاء کو مخاطب کر کے کہا کہ اگرچہ احتجاج کرنا شہریوں کا بنیادی حق ہے مگر عوام کو اشتعال دلانے کی ہرگز اجازت نہیں دی جا سکتی۔ طاہر القادری نے کارکنوں سے مخاطب ہو کر جو باتیں کیں اس کو ذہن قبول نہیں کرتا۔ ہمیں ملک کو بچانے کی بات کرنی چاہئے۔ تقریر سن کر ان پر ایک خاص رائے غالب آگئی ہے جس کے باعث میرے لئے اس کیس کی سماعت کرنا ممکن نہیں رہا۔ درخواست گذاروں کا کہنا تھا کہ حکومت آزادی مارچ روکنے کیلئے اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آئی ہے۔