اسلام آباد، کمالیہ (نوائے وقت رپورٹ + ایجنسیاں + نامہ نگار) سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا ہے کہ عمران خان بلاجواز الزام تراشی کررہے ہیں۔ میں نے عمران خان کو 20 ارب روپے کا نوٹس بھیجا ان کے پاس میرے نوٹس کا کوئی جواب نہیں۔ عمران خان نے 58 پٹیشنز ٹربیونل کے سامنے داخل کیں جس میں سے 39 پر فیصلہ ہوچکا ہے باقی 19 کا فیصلہ ہونا باقی ہے۔ عمران خان کا وہی حال ہے کھسیانی بلی کھمبا نوچے۔ عمران نے کوئی مصدقہ ثبوت نہیں دیا۔ جسٹس (ر) خلیل الرحمن رمدے نے عمران خان کے الزامات مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ 2002ء میں ہائی کورٹ چھوڑ چکے تھے جس کے بعد سے ان کا جونیئر جوڈیشری سے کوئی رابطہ نہیں رہا۔ انہوں نے کہا کہ میں 2011ء میں عدالتی فرائض سے فارغ ہوا، الیکشن اس کے ڈھائی سال بعد ہوئے ہیں۔ ہائیکورٹ چھوڑے ہوئے مجھے 11 سال ہوچکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان میری نظربندی کے دوران مجھے منصف اعلیٰ قرار دیتے تھے۔ نواز شریف میرا حکم مانتے ہیں نہ کبھی ان کا مشیر رہا۔ جن ریٹرننگ افسروں کو کھانا کھلایا عمران خان اس میں سے کسی ایک کا نام بتادیں۔ عمران خان کے الزامات پر صرف ہنسی آتی ہے ایسی باتیں عمران خان کو زیب نہیں دیتیں۔ عمران خان یہ تو بتائے کہ کہاں کھانا کھلایا، کب کھلایا۔ کمالیہ سے نامہ نگار کے مطابق سپریم کورٹ کے جسٹس (ر) خلیل الرحمن رمدے کے بڑے بھائی مسلم لیگ ن کے ایم این اے چودھری اسد الرحمن نے کہا ہے کہ اگر مجھے میرے بھائی نے جتوانا ہوتا تو اس وقت جتواتے جب وہ سپریم کورٹ کے جسٹس تھے اس وقت تو میں الیکشن ہار گیا تھا اب جب وہ ریٹائر ہو چکے ہیں وہ مجھے کیسے جتوا سکتے تھے۔ عمران خان کیلئے اس سے بڑی بدقسمتی کی بات اور کیا ہو سکتی ہے کہ انہیں کمالیہ میں میرے مقابلے میں قومی اسمبلی کا امیدوار نہیں مل سکا جو اُن کا صوبائی اسمبلی کا امیدوار تھا اس نے بھی صرف 2700 ووٹ حاصل کئے تھے۔ عمران خان بوکھلاہٹ کا شکار ہو چکے ہیں صوبہ خیبر پی کے میں اپنی حکومت چلانے میں نا کام ہو چکے ہیں۔ پنجاب کے سابق نگران وزیراعلیٰ نجم سیٹھی نے کہا ہے کہ عمران خان کی طرف سے لگائے گئے الزامات پر سمجھ نہیں آ رہا کہ ہنسوں یا روئوں‘ شریف برادران کے کہنے پر نگران حکومت میں ردوبدل کا الزام غلط ہے۔ عمران خان کی طرف سے لگائے گئے الزامات پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے نجم سیٹھی نے کہ کہا عمران خان نے مجھ پر الزام لگایا ہے میں نے شریف برادران کے کہنے پر نگران حکومت میں ردوبدل کیا جو غلط ہے۔ نوازشریف کی طرف سے مجھے چیئرمین پی سی بی اور ٹیکس معاف کر کے نوازنے کے الزامات بھی لگائے گئے ہیں جو بے بنیاد ہیں۔الیکشن کمیشن کا ہنگامی اجلاس ہوا جس میں عمران خان کے الزامات پر غور کیا گیا۔ جسٹس (ر) کیانی اور الیکشن کمیشن پنجاب کے دو افسروں پر الزامات کے امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ جسٹس (ر) ریاض کیانی نے کہا کہ عمران خان کے مجھ پر لگائے گئے الزامات بے بنیاد ہیں۔ انتخابات میں دھاندلی سے متعلق عمران خان نے سفید جھوٹ بولا۔ عمران خان کے الزامات پر لائحہ عمل تیار کر رہا ہوں۔ نیشنل پارٹی کے سینئر نائب صدر سینیٹر حاصل بزنجو نے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی طرف سے پریس کانفرنس میں سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی طرف سے ٹیلی فون پر کی گئی سفارش پر ان کے بیٹے ارسلان افتخار کو بلوچستان سرمایہ کاری بورڈ کا وائس چیئرمین بنانے کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ نہ تو اس حوالے سے میری کبھی عمران خان سے کوئی بات ہوئی ہے، نہ ہی میری افتخار چودھری سے ان کی بحالی کے بعد کوئی ملاقات یا فون پر بات ہوئی۔ الیکشن کمیشن کے سینئر افسروں نے کہا ہے کہ نجی پرنٹنگ پریس میں بیلٹ پیپر شائع کر کے تقسیم کرنے کا الزام عائد کر کے پنجاب میں الیکشن کو مشکوک بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔اس بات کا اشہار الیکشن کمیشن کے ایڈیشنل سیکریٹری شیر افگن، پنجاب کے صوبائی الیکشن کمشنر محبوب انور اور سندھ کے صوبائی الیکشن کمشنر طارق قادری نے کراچی میں ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں کیا۔ ان افسروں کا کہنا تھا کہ یہ محض اتفاق ہے کہ وہ کراچی میں موجود ہیں انھوں نے ذاتی نوعیت کے الزامات کا جواب دینا ضروری سمجھا تاکہ حقیقت سامنے لائی جا سکے۔ ایڈیشنل سیکریٹری شیر افگن نے کہا کہ عمران خان کا یہ الزام غلط ہے کہ سیکرٹری الیکشن کمیشن اشتیاق احمد کو حکومت نے دو بار توسیع دی ہے۔ایک بار انھیں توسیع گذشتہ حکومت نے دی تھی اور عام انتخابات کے بعد جب سپریم کورٹ نے چاروں صوبوں میں بلدیاتی انتخابات کرانے کا حکم جاری کیا تو سیکریٹری الیکشن کمیشن اور پنجاب کے صوبائی الیکشن کمشنر محبوب انور کو توسیع دی گئی۔ بلدیاتی انتخابات کے لیے سینیئر افسروں کی ضرورت ہے کیونکہ بلدیاتی انتخابات عام انتخابات سے بڑا چیلنج ہوتے چونکہ پنجاب ایک بڑا صوبہ ہے اس لیے وہاں بھی سینئر افسروں کی ضرورت تھی۔سندھ کے صوبائی الیکشن کمشنر طارق قادری نے عمران خان کے اس الزام کو مسترد کیا کہ انھوں نے عمران سے ملاقات کر کے یہ کہا تھا کہ پنجاب میں میچ فکس ہوگیا ہے ان کا تبادلہ سندھ کیا جا رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ انہوں نے مسلم لیگ ن کے امیدوار پرویز ملک سے ملاقات نہیں کی تھی تاہم یہ درست ہے کہ انتظامی امور کے حوالے سے سیاستدانوں سے ملاقاتیں ہوتی رہی ہیں۔ انھوں نے واضح کیا کہ ان کی پنجاب میں تعیناتی عارضی بنیادوں پر تھی جس کے بعد ان کا سندھ تبادلہ کیا گیا جو معمول کے مطابق تھا۔پنجاب کے صوبائی الیکشن کمشنر انور محبوب کا کہنا تھا کہ ان کی پنجاب میں 2011 سے تعیناتی تھی لیکن بعد میں انھیں ایک سرکاری کام کے لیے کراچی تعینات کیا گیا لیکن اس لیٹر پر یہ تحریر تھا کہ یہ مشق پوری ہونے کے بعد انھیں واپس پنجاب تعینات کر دیا جائے گا۔انور محبوب نے واضح کیا کہ ان کی پنجاب کے چیف سیکریٹری اور ایڈیشنل سیکریٹری سے کوئی بات نہیں ہوئی۔ انھوں نے کہا یہ الزام غلط ہے کہ بیلٹ پیپر نجی پریس میں شائع کرائے گئے، پنجاب بڑا صوبہ ہے اس لیے لاہور کے علاوہ اسلام آباد میں بھی سکیورٹی پرنٹنگ پریس سے بھی بیلٹ پیپر کی چھپائی کی گئی۔ انور محبوب نے واضح کیا کہ جسٹس ریاض کیانی نے انھیں کبھی کسی غلط کا کہا اور نہ انھوں نے کیا ہے اور نہ ہی کبھی کریں گے۔شیر افگن کا کہنا تھا کہ وہ بطور سرکاری ملازم قومی ذمے داری ادارے کرتے ہیں وہ کسی سی سے بھی ٹکراؤ نہیں چاہتے یہ الزامات ذاتی نوعیت کے ہیں اس لیے انھوں نے اس کی وضاحت کرنا ضروری سمجھا۔ الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کے الزامات کا جوا ب دینے کے لئے عمران خان کی پریس کانفرنس کی ریکارنگ منگوالی ہے۔