نیشن اور وقت نیوز نے قصور کے بدقسمت گائوں گنڈا سنگھ والا کے بدنصیب بچوں کے ساتھ ہونے والی درندگی کی رپورٹ شائع کی جس کے ویڈیو ثبوت ادارے کے پاس موجود ہیں۔ اس رپورٹ نے پورے ملک کو دہشت زدہ کردیا۔ خیبر سے کیماڑی تک عوام نوحہ کناں ہیں۔ رپورٹ کے مطابق انسان نما درندوں کا ایک گینگ کئی سالوں سے معصوم بچوں کو جنسی ہوس کا نشانہ بنا کر ویڈیو تیار کرکے بچوں کے والدین کو بلیک میل کرتا رہا۔ اب تک 280بچوں کو جنسی ہوس کا نشانہ بنایا جاچکا ہے۔ پاکستان کا ریاستی نظام چوںکہ کرپٹ ہوچکا ہے اس لیے ضلعی اور پولیس کے آفیسر رشوت لے کر آنکھیں بند کرلیتے ہیں اور جرائم پرورش پاتے رہتے ہیں۔ قصور میں تعینات ہونیوالے انتظامیہ اور پولیس افسروں میں سے کئی ایک کو یہ توفیق نہ ہوئی کہ وہ مجرموں کو بے نقاب کرتا۔ انکا کڑا احتساب ہونا چاہیئے۔ تاریخ کے اس شرمناک بڑے سکینڈل نے ایک بار پھر ثابت کیا کہ پاکستان کی ریاست اور حکومت دونوں انحطاط پذیر ہیں۔ قصور کے سیاستدان، علمائ، اساتذہ، سرکاری آفیسر، این جی اوز، سماجی کارکن کوئی معصوم بچوں کی مدد کیلئے سامنے نہ آیا۔ وحشی اور سفاک مجرم کھلے عام دیدہ دلیری کے ساتھ متاثرہ بچوں کے والدین کو بلیک میل کرکے ان کو لوٹتے رہے، سی ڈیز اندرون ملک اور بیرون ملک فروخت کرتے رہے ۔اس سانحہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ مجرم پاکستان کی سوسائیٹی پر قابض ہوچکے ہیں۔ ریاستی نظام تو کرپشن کی لپیٹ میں آچکا ہے۔ ہمارا سماجی نظام بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے جسے بچانے کیلئے قانون کی حکمرانی کی ضرورت ہے۔ افسوس کسی جج نے ابھی تک اس سانحہ کا نوٹس نہیں لیا۔ جب کوئی اندوہناک واقعہ سامنے آتا ہے وزیراعظم اور وزیراعلیٰ ’’نوٹس‘‘ لے لیتے ہیں۔ جوڈیشل کمیشن بنتے ہیں، جے آئی ٹی تشکیل پاتی ہے اور پھر اسکے بعد بااثر مجرمان دھونس، سفارش اور رشوت سے قانون کی گرفت سے بچ نکلتے ہیں۔ جب تک ایس ایچ اور کو متعلقہ علاقے کا ذمے دار نہیں ٹھہرایا جائیگا اس کا محاسبہ نہیں کیا جائیگا شرمناک واقعات ہوتے رہیں گے۔ کسی اور ملک میں اس نوعیت کا شرمناک واقعہ ہوتا تو صوبے کا وزیراعلیٰ ذمے داری قبول کرتے ہوئے استعفیٰ دے دیتا مگر پنجاب کے وزیراعلیٰ تشویشناک بیماری کے باوجود منصب چھوڑنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ باری تعالیٰ انہیں صحت کاملہ عطا فرمائے۔ قصور سکینڈل میں ملوث مجرمان جو اعتراف جرم بھی کررہے ہیں انہیں انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں پیش کرکے کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ اگر مجرموں کو سرعام پھانسیاں دینے کا سلسلہ شروع کردیا جائے تو جرائم پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ ریاست اور سماج کو بچانے کا واحد طریقہ قانون کی شفاف اور مساوی حکمرانی ہے۔ جب سوسائٹی بے حس، غیر منظم اور کمزور ہوتو معاشرتی برائیاں تیزی سے پھیلتی ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ پوری قوم اس سماجی مسئلے پر متفق ہے۔
آصف علی زرداری کا ایجنڈا لوٹ مار کا تھا جس کے شواہد رفتہ رفتہ سامنے آرہے ہیں۔ انکے دور میں ریاستی ادارے زوال پذیر ہوتے گئے مگر انہوں نے مصلحت اور مفاہمت کے تحت اپنی آنکھیں بند رکھیں اور طاقتور افراد بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے رہے۔ عوامی نیشنل پارٹی کو پہلی بار ریلوے کی وزارت ملی تھی اسکے لیڈر اسفند یار ولی اور وزیر ریلوے غلام احمد بلور نظریاتی روایات قائم نہ کرسکے۔ انکے دور میں ریلوے انجنوں ، ریلوے اراضی کے سکینڈل سامنے آئے۔ ڈیزل کیلئے پیسے نہ ہونے کی وجہ سے گاڑیاں راستے میں رکتی رہیں۔ کئی روٹ بند کردئیے گئے۔ گاڑیاں وقت پر نہ پہنچتیں۔ یہاں تک کہ ریلوے ملازمین کی تنخواہوں کیلئے بھی پیسے نہ ہوتے اور وزیراعظم یوسف رضا گیلانی بدانتظامی اور کرپشن کا نوٹس لینے کی بجائے صدر پاکستان اور چیئرمین پی پی پی کے ایک اشارے پر ریلوے کو خصوصی گرانٹ دے دیتے۔ خدا کا شکر ہے موجودہ وزیراعظم میاں نواز شریف کرپشن کے مسئلے پر بڑے حساس ہیں۔ انکی سرپرستی میں خواجہ محمد رفیق شہید کے فرزند ارجمند خواجہ سعد رفیق نے اپنے عزم، لگن اور محنت سے معجزہ کردکھایا ہے۔ 2014-15ء میں ریلوے کی سالانہ آمدنی 32ارب تک جاپہنچی ہے جو ریلوے کی تاریخ کا نیا ریکارڈ ہے۔ 2012-13ء میں ریلوے کی آمدنی اٹھارہ ارب روپے تھی۔ یہ معجزہ کیسے رونما ہوا اسکی تفصیل خود خواجہ سعد رفیق نے ریلوے ہیڈ کواٹر لاہور کی ایک پریس بریفنگ میں بتائی جس میں لاہور کے کم و بیش سب سینئر کالم نویس، اینکر پرسن اور رپورٹر شریک ہوئے۔ اس کانفرنس کا اہتمام حال ہی میں پراٹڈ آف پرفارمنس کاتمغہ حاصل کرنیوالے سینئر صحافی اور ڈی جی پی آر ریلوے رئوف طاہر نے کیا تھا۔ ریلوے کی وزارت کے مشیر انجم پرویز اور گریڈ 22 کے چیف ایگزیکٹو آفیسر جاوید انور موجود تھے۔ وزیر ریلوے نے پر اعتماد لہجے میں بتایا کہ انہوں نے ریلوے کی شکست خوردہ ذہنیت کو پر عزم سوچ میں تبدیل کیا۔ قائداعظم کے تصور حکومت اور ریاست کی روشنی میں سفارش، اقرباپروری اور رشوت ستانی کو کنٹرول کیا۔ سیاسی مداخلت ختم کرکے دیانتدار، اہل اور محنتی افسروں کا انتخاب کیا۔ مانیٹرنگ اور سزا جزا کے نظام کو مؤثر بنایا۔ ہر سطح پر مشاورتی نظام قائم کیا اور اختیارات کو نچلی سطح تک تقسیم کیا۔ احتساب کے مؤثر نظام کی وجہ سے ریلوے کے 25افسر معطل کیے ۔ خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ ریلوے کے کرایے کم کرنے سے ریونیو میں اضافہ ہوا ہے۔ بے شک خواجہ سعد رفیق کی پرعزم قیادت میں پاکستان ریلوے کی بنیاد سحر رکھ دی گئی ہے۔ انہوں نے اس انگریزی محاورے کی سچائی ثابت کردی ہے۔ Where there is a will there is a way ترجمہ: عزم ہو تو راستے کھلتے جاتے ہیں۔
ریلوے میں دو سالوں کے دوران مسافروں میں ایک کروڑ تین لاکھ اضافہ ہوا ہے۔ گرین لائن ٹرین نے کامیابیوں کے نئے ریکارڈ قائم کیے ہیں۔ ریل گاڑیوں کی تعداد میں قابل ذکر اضافہ ہوا ہے۔ ریلوے سکولوں کی حالت بہتر بنانے پر خصوصی توجہ دی جارہی ہے۔ شدید سیاسی اختلاف کے باوجود کراچی میں ایک سکول تحریک انصاف کے ایم این اے ڈاکٹر عارف علوی کی فلاحی تنظیم کے سپرد کردیا۔ اس نوعیت کے فیصلے نیشنلسٹ سیاستدان ہی کرسکتا ہے جو عوامی خدمت میں لازوال یقین رکھتا ہو۔ خواجہ سعد رفیق نے دکھ اور کرب کے ساتھ بتایا کہ عدالتیں دوسرے فریق کو سنے بغیر سٹے آرڈر جاری کردیتی ہیں جس کی وجہ سے ترقی اور بحالی میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔ ریلوے کا کامیاب تجربہ اس خیال کی نفی کرتا ہے کہ ریاستی نظام ناکارہ اور فرسودہ ہوچکا ہے لہذا اس نظام میں کچھ نہیں ہوسکتا۔ خواجہ سعد رفیق نے ثابت کیا کہ اگر نیت نیک ہو تو اہلیت اور محنت کا مظاہرہ کرکے موجودہ نظام کے اندر ہی گڈ گورنینس کا مثالی ماڈل پیش کیا جاسکتا ہے۔ ریاست کو ایسے محب الوطن سپوتوں کی ضرورت ہے جو نیک نیت اور اہل ہوں اور عوامی خدمت میں یقین کامل رکھتے ہوں۔ خواجہ سعد رفیق حکومت کے واحد وزیر ہیں جو ہر سال اپنی کارکردگی صحافیوں کی عدالت میں پیش کرتے ہیں۔ وہ اگر صحافیوں اور سول سوسائیٹی کے نمائندوں کو ’’شنیدہ کے بود ماند دیدہ‘‘ کے اصول کے تحت ریلوے کا سفر کراسکیں تو صحافی اپنی آنکھوں سے ریلوے کی کارکردگی دیکھ کر پورے اعتماد کے ساتھ اسے عوام تک پہنچا سکیں گے۔ جنرل(ر) حمید گل نے فون پر شجاع نواز کی اس بات کی تردید کی کہ 1988ء میں آئی ایس آئی نے مخدوم امین فہیم کو وزیراعظم بنانے کی پیشکش کی تھی۔ جنرل صاحب نے گفتگو کے دوران کہا کہ تاریخ میں پہلی بار عوام کا عزم اور فوج کی طاقت مشترک ہوئے ہیں۔ یہ اشتراک پاکستان کیلئے نیک فال ثابت ہوسکتا ہے۔
تاریخی انکشاف: صدر آصف علی زرداری نے نیویارک میں سی آئی کے ڈائریکٹر مائیک ہیڈن سے ملاقات کی۔ امریکی حکومت ڈرون حملوں سے دہشت گردوں کی ہلاکت کے ساتھ بے گناہ افراد کی ہلاکتوں سے پریشان تھی۔ آصف علی زرداری نے یہ کہہ کر سی آئی اے ڈائریکٹر کو حیران کردیا۔ "Collateral damage worries you americans. It does not worry me" ترجمہ: ’’بے گناہ افراد کی ہلاکت سے اضافی نقصان تم امریکنوں کو پریشان کرتا ہے مجھے پریشان نہیں کرتا‘‘۔[باب وڈ:Obama's Warsصفحہ 26]