ایسے وقت میں جبکہ پاکستانی قوم اپنے بزرگوں کی لازوال جدوجہد اور شہداء کی لاکھوں قربانیوں کے نتیجے میںحاصل کئے گئے ملک پاکستان کا انہترواں یوم آزادی تزک و احتشام سے منانے کی تیاریوں میں مصروف ہے ملک کی چوتھی اور سندھ کی دوسری بڑی سیاسی جماعت متحدہ قومی موومنٹ اپنے قائدِ تحریک الطاف حسین کی بظاہر ملک دشمنی سے لبریز تقاریر اور اپنی رابطہ کمیٹی کے بعض اراکین کی طرف سے بھارتی ہائی کمشن سمیت 55 ممالک کے سفارتخانوں کو لکھے گئے خط کے نتیجے میں پیدا ہونیوالی صورتحال کی زد میں ہے۔ اس افسوسناک روّئیے کی بنا پر ملک کی چاروں صوبائی اسمبلیوں میں الطاف حسین کیخلاف قراردادیں یکے بعد دیگرے منظور ہو چکی ہیں۔ سندھ اسمبلی نے بھی متحدہ کے اراکین کی طرف سے اپنے قائد کے حق میں نعروں اور احتجاج کے باوجود پاکستان تحریک انصاف، پاکستان مسلم لیگ نون اور پاکستان مسلم لیگ فنکشنل کے اراکین کی یہ مشترکہ قرارداد پیپلزپارٹی کی حمایت کے ساتھ کثرت رائے سے منظور کرتے ہوئے حکومت سے متحدہ کے قائد کیخلاف کارروائی کا مطالبہ کر دیا ہے۔ بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کی اسمبلیاں پہلے ہی ایسی قرارداد یں متحدہ کے قائد کیخلاف منظور کر چکی ہیں جن میں ایم کیو ایم کے قائد کی طرف سے بھارت کو مداخلت پر اکسانے اور کارکنوں کو نیٹو فورسز سے رابطہ کرنے کی ترغیب دینے کی مذمت کرتے ہوئے متحدہ قائد کیخلاف غداری کا مقدمہ چلانے کی ڈیما نڈکی گئی ہے۔ آزاد کشمیر کے وزیر اعظم چوہدری عبدالمجید نے متحدہ سے تعلق رکھنے والے وزراء کو کابینہ سے فارغ کردیا ہے اور متحدہ کے قائد کو انٹرپول کے ذریعے گرفتار کر کے پراسیکیوٹ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ آزاد جموں و کشمیر قانون ساز اسمبلی نے بھی الطاف حسین کیخلاف متفقہ قرارداد منظور کی ہے۔ ادھر ایم کیو ایم نے بھی پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئر مین سابق صدر آصف زرداری ا ور تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کیخلاف ایسی ہی قراردادیں اسمبلی سیکرٹریٹ میں جمع کروا دی ہیں۔ عین ممکن ہے کہ ان سطور کی اشاعت تک متحدہ کی ان قراردادوں پر نہ صرف ووٹنگ ہو چکی ہو بلکہ ہائوس میں اکثریت حاصل نہ ہونے کی بنا پر نامنظور ہو چکی ہوںگی۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ قبل ازیں متحدہ کیخلاف پنجاب اسمبلی میں بھارتی فنڈنگ اور بھارتی خفیہ ایجنسی را سے ٹریننگ لینے کے الزامات کے حوالے سے بی بی سی کی رپورٹ کی انکوائری کی قرارداد متفقہ طور پر منظور ہو چکی ہے جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ اعلیٰ سطحی کمیشن کے ذریعے الزامات درست ثابت ہونے کی صورت میں الطاف حسین اور ایم کیو ایم کیخلاف آئین کے آرٹیکل6 کے تحت غداری کا مقدمہ چلایا جائے مگر سوال یہ ہے کہ اس ساری صورتحال کا ذمہ دار کون ہے۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے کراچی میں جو کچھ ہو رہا ہے متحدہ نے کم وبیش اتنے ہی طویل عرصہ سے حاصل کراچی کی معتبری کے باوجود ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری اورلینڈ مافیا کا کیا تدارک کیا ہے۔ فوج کو تسلسل کے ساتھ مداخلت کی کون دعوت دے رہا تھا۔ اب اپریشن بلاتخصیص جاری ہے اور عوام کو سکون کی کچھ امید ہوئی ہے تو کیا ملک کے یہ حساس ادارے بھی عوام کو مایوس کر کے خاموش تماشائی بن کر بیٹھ جائیں؟ کیا مشتبہ یا جرائم پیشہ افراد کو محض اس لئے شامل تفتیش نہ کیا جائے کہ وہ کسی تگڑی سیاسی جماعت کے رکن ہیں اور انہیں ہاتھ ڈالنے پر قیادت ممکنہ طور پر کوئی بڑا ہنگامہ کھڑا کر سکتی ہے۔ اگر سیاسی کارکن جرائم میں ملوث ہونے کی بنا پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مطلوب ہوں مگر سیاسی قائدین انہیں قانون کے حوالے کرنے کی بجائے دشمن ممالک سے امداد کی بھیک مانگنے تک سے دریغ نہ کریں تو عوام اس پر فخر نہیں کر سکتے۔ یہی وہ کوتاہی ہے جو آئے روز ان کی حب الوطنی پر سوالیہ نشان کھڑا کر دیتی ہے۔ متحدہ کا اصل مسئلہ کیاہے اسکی تحقیقات بہرحال لازمی ہونی چاہئیں یہ عوام کا حق ہے تاہم اسکے قائد سمیت بعض اراکین کی غلطی سے پیدا ہونیوالی کسی بھی صورتحال میں متحدہ پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ محض ریموٹ کنٹرول ڈکٹیشن پر یقین رکھنے کی بجائے حقیقت پسندی، اصول اور انصاف کو مد نظر رکھتے ہوئے معاملہ کی تہہ تک پہنچنے میں نہ صرف قانون نافذ کرنیوالے اداروں سے تعاون کریں بلکہ جماعتی سطح پر بھی تحقیقات کو یقینی بنائیں تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی سامنے آسکے۔ انہیں اپنی صفوں میں موجود ممکنہ کالی بھیڑوں کا بلاجواز دفاع کرنے کی بجائے ان سے نجات حاصل کر کے اپنی جماعت کو قوم کے سامنے سرخرو کرنے کا عزم لے کر آگے بڑھنے میں فخر محسوس کرنا چاہئے۔ اسی طرح اگر مزید صوبے اور اضلاع بنانے کے مطالبے کو سر دست عوام میں پذیرائی حاصل نہیں یا لوکل گورنمنٹ قوانین کے حوالے سے من مرضی کا نظام ممکن نہیں تو معاملہ عوام پر چھوڑ دینا چاہئے، عوام جانے اور ان کا نظام جانے۔ اس میں ضد مناسب نہیں۔یہی جمہوریت کی روح ہے اور یہی قائداعظم کا درس بھی ہے۔ قائداعظم کا فرمان ہے ’’پاکستان کے طرز حکومت کو متعین کرنیوالا میں کون ہوتا ہوں، یہ کام پاکستان کے رہنے والوں اور مسلمانوں کا ہے مسلمانوںکے طرز حکومت کا فیصلہ 1300 سو سال پہلے قرآن کریم میں کر دیا گیا ہے،،۔آزادی کے مطلب کی وضاحت قائداعظم نے 26 مارچ 1948 کو ڈھاکہ یونیورسٹی میں خطاب کے دوران کچھ یوں کی’’آزادی کا مطلب بے لگام ہو جانا نہیںہے، آزادی کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ دوسرے لوگوں اور مملکت کے مفادات کو نظرانداز کر کے آپ جو چاہیںکر گزریں، آپ پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوئی ہے اور پہلے سے کہیں زیادہ اب یہ ضروری ہے کہ آپ ایک منظم اور منضبط قوم کی طرح کام کریں۔ اس وقت ہم سب کو چاہئیے کہ تعمیری جذبہ پیدا کریں‘‘۔ کاش قائد کے ان فرمودات کی روشنی میں ہم اپنے گریبان میں جھانک سکیں اور عاقبت نااندیشی کی بجائے ہمارے اندر یہ احساس ندامت بیدار ہو جائے کہ اڑسٹھ برس کا عرصہ بیت جانے کے باوجود ہم کہاں کھڑے ہیں۔