کوئٹہ سانحہ کے بعد ایک مرتبہ پھر سے تمام سیاستدان یہ کہتے نظر آرہے ہیں کہ عسکری قیادت کے ساتھ ملکر یہ اعلان کریں کہ ضرب عضب اور نیشنل ایکشن پلان مکمل کریں گے مگر حادثات تو ماضی میں ہوتے رہے ہیں اور ایسے ایسے حادثات ہوتے رہے ہیں کہ ان کے بعد تو تسلسل کے ساتھ نیشنل ایکشن پلان مکمل کرنے کی ضرورت تھی اور اس کیلئے نہ کسی نئے اعلان کی ضرورت تھی اور نہ ہی اس بات کی ضرورت تھی کہ دشمن ہمیں نیا سبق سکھاتے اور اس کے بعد ہم سب پھر سے اس بات کی ضرورت محسوس کرنے لگیں کہ ہمیں کیا کرنا تھا اور درمیان میں ہم کیا کام چھوڑ دیتے ہیں اور اب نئے سرے سے کیا کرنا ہوگا۔اس قسم کے واقعات سیاست چمکانے کیلئے تو ہوتے نہیں ہیں لہذا انہیں سیاست کے اتار چڑھاؤ سے علیحدہ ہوکر مسلسل دیکھنا پڑتا ہے اور مل جل کر وقتی نعرہ بازی کی قومی سلامتی کے امور میں گنجائش نہیں ہوتی۔ کل ہی پختونخواہ عوامی ملی پارٹی کے محمود خان اچکزئی نے قومی اسمبلی میں کہا کہ آئندہ فاتحہ خوانی کیلئے نہیں آؤں گا اور یہ ایوان تعزیت کیلئے نہیں ہے دراصل یہ ایوان نہ تو محض رونے دھونے کیلئے ہے اور نہ ہی کسی ڈرامہ بازی کیلئے ہے کہ کوئی بڑا سانحہ ہو اور دشمن اپنے ارادوں میں کامیاب ہو جائے توپھر اکٹھا ہوا جائے۔ وزیراعظم نوازشریف کے اسمبلی آنے کو انگلیاں پر گنا جاتا ہے جبکہ کوئٹہ سانحہ کے بعد عمران خان کے بارے میں بھی خواہش کی جارہی ہے کہ وہ اسمبلی میں آتے ویسے تو عوام کے ان کے منتخب نمائندوں کو اقتدار کی کرسیوں اور ذاتی زندگی کیلئے ’’پروٹوکول‘‘ اور دیگر اللوںتللوں کیلئے منتخب نہیں کیا جاتا بلکہ انہیں ووٹ دے کر اسمبلی میں پہنچایا جاتاہے تاکہ عوام اور ملک کے اہم معاملات بھی طے کریں۔ کل وزیراعظم نوازشریف کے خورشید شاہ کو منا کر واپس لانے کو ’’تاریخی واقعہ‘‘ قرار دیا جارہا ہے اور اس واقعہ کو اگر کوئٹہ سانحہ سے بڑھ کر سمجھا جانے لگے تو اس سے زیادہ ستم ظریفی اور کیا ہوسکتی ہے۔ ان معاملات میں میڈیا کی بھی ذمہ داریاں بہت اہم ہیں کیونکہ سیاستدانوں کی آپس کی بیان بازیاں یا پھر ملنے بچھڑے اور روٹھنے منانے کے سارے سلسلے کوئٹہ کے گلی محلوں میں بچھی ہوئی صف ماتم اور پھر شہیدوں کے اہل خانہ کے دلوں پر غم کے پہاڑوں کے سامنے کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔
ملک وقوم کے اندر یہ اتحاد ہر لمحہ ہر پل اور ہروقت ضرورت ہے کیونکہ نہ تو یہ حادثات نئے ہیں اور نہ کوئی ایسا دشمن اچانک سامنے آیا ہے کہ جس کے بارے میں ہم نہیں جانتے اور اب غوروفکر کرنے کی ضرورت آپڑی ہے۔
محترم نوازشریف نے یہ کہا ہے کہ فوج اور ہم ایک ہیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ فوج‘ حکومت اور عوام سب کو ایک ہونا چاہیے مگر اس یکجہتی کیلئے درمیان کے عرصہ میں بھی کوئی دوری محسوس نہیں ہونا چاہیے اور یہ تبھی ہوگا کہ قومی سلامتی کے امور پر مبنی پالیسیوں کو تسلسل کے ساتھ چلایا جائے مگر افسوس کہ حادثہ گزر جاتا ہے اور جن پر قیامت گزرتی ہے ان کے دکھوں کا مداوار چیک تقسیم کرنے کی حد تک سوچا جاتا ہے مگر یہ نہیں سوچا جاتا کہ کتنا بڑا جانی نقصان ہو چکا ہے۔ آج کوئٹہ میں تمام سینئرز وکلاء شہید ہوچکے ہیں۔ کوئی بھی فرد جس نے ڈاکٹر‘ انجینئر یا وکیل بنتا ہے تو اس کے پیچھے ایک کہانی ہوتی ہے نہ جانے کتنے غریب ماں باپ محدود وسائل سے اولاد کو یہاں تک پہنچاتے ہیں اور پھر افرادی قوت اس ملک کی قوت ہے لہذا اب کوئٹہ میں ہی اتنے وکیلوں کی نئی کھیپ کا آنا اتنا آسان نہیں ہے کیونکہ وہاں کی عوام کسی بڑے مقام پر بڑی جدوجہد کے بعد پہنچتی ہے۔ لہذا تمام سیاسی جماعتوں‘ سیاسی لیڈروں‘ افواج اور عوام کو اپنی سیاسی اور نظریاتی ذمہ داریاں پوری کرنا ہونگی۔ کوئٹہ کا سانحہ ’’جشن آزادی‘‘ کے قریب رونما ہوا ہے اور بلوچستان میں آزادی کے جشن منانے کے جذبے کو بھی نقصان پہنچایا گیا ہے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ ماتم کی فضاؤں میں بھی پاکستانی پرچم لہرائے جائیں گے۔ مگران تمام حالات پر سوچنا ضروری ہے کہ ہم لوگ کس راستے پر چل رہے ہیں۔ عمران خان کا دھرنا تعطل کا شکار ہوا اس پر بھی چہ میگوئیاں ہورہی ہیں۔ تحریک انصاف والے سوچ میں پڑے ہوئے ہیں کہ ہر مرتبہ ایسا کیوں ہوتا ہے سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس بات سے یہ بات ذہن میں آتی ہے کہ کیا دشمن قوتیں ہمارے ملک کے سیاسی منظر نامے پر بھی محیط ہو چکی ہیں؟ اور اس قسم کی سوچ ہوتی ہے جو ملک میں منفی انداز فکر کو پھیلاتی ہے اور اس قسم کے سانحات گزر جانے کے بعد بظاہر سب کچھ ویسا چلنے لگتا ہے مگر سوچ اور فکر کا ایک اور رخ انسانی سوچ کے نہاں خانوں میں پلتا بڑھتا رہتا ہے۔ مگر ہمارے ہاں حکمرانوں اور سیاستدانوں میں کوئی بھی شخص فلسفی یا سکالر نہیں ہے جو اتنی گہرائی تک باتوں کی تہہ تک پہنچے اور اسی لیے ہمیں اسمبلی کے اندر بھی وہ مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں جو بہت دلکش اور دل کو چھولینے والے نہیں ہوتے جبکہ ہر ایسے واقعہ کے بعد سیاسی پارٹیاں اپنی اپنی ’’سکورنگ‘‘ بڑھانے کے بارے میں بھی پیچھے نہیں ہٹتیں اور یہ انداز ہر باشعور پڑھے لکھے شخص کو تکلیف میں مبتلا کرتے ہیں اور انہی باتوں کی وجہ سے عوام دلبرداشتہ ہو کر کنفیوژ دکھائی دیتے ہیں جبکہ ملک ایسی جگہ پر پہنچ چکا ہے کہ جہاں سے معاملات سنبھالے نہ گئے تو پھر ’’اللہ توکل‘‘ آگے بڑھنے والا سلسلہ بھی خطرے میں پڑ جائے گا لہذا ’’ضرب عضب‘‘ اور نیشنل ایکشن پلان کو آگے بڑھانے کیلئے طے شدہ پالیسی پر ایک تسلسل کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے اور پس… اس یوم آزادی پر پوری قوم کوئٹہ سانحہ کے شہداء اور ان کے خاندانوں کے دکھ میں شامل ہے۔ مجھے اس کیمرہ مین کو بھی خراج عقیدت پیش کرنا ہے جو کلمہ شہادت پڑھتے ہوئے اس ملک اور قوم کیلئے جان کا نذرانہ پیش کر چکا ہے۔ اپنا خیال رکھئے گا۔