’’سانحہ کوئٹہ‘‘

8 اگست کو کوئٹہ میں ہونیوالے دہشت گردی کے سانحہ نے پاکستان کو دہلا کے رکھ دیا ہے۔ کوئٹہ ہائیکورٹ بار کے صدر بلال انور کاسی کو گھر سے عدالت جاتے ہوئے نشانہ بنایا گیا جو ہسپتال پہنچنے تک جاں بحق ہو چکے تھے۔ انکی موت کی خبر سنتے ہی عدالتوں میں ایک ہلچل سی مچ گئی اور زیادہ سے زیادہ وکلا ہسپتال کی طرف دوڑے۔ ایمرجنسی سے انکی لاش وصول کرنے کیلئے جمع تھے کہ ایک بہت بڑا دھماکہ ہو گیا جس میں 97 افراد بشمول 61 وکلا، 1 ڈاکٹر، 3 سکیورٹی اہلکار، دو چینلز کے کیمرہ مین اور 30 دیگر شہری شہید ہو گئے۔ 125 زخمیوں کو کوئٹہ و کراچی کے مختلف ہسپتالوں میں پہنچا دیا گیا۔ وزیراعظم، آرمی چیف و دیگر اکابرین موقع پر پہنچ گئے۔ سانحہ کی تفصیلات اخباروں میں آچکی ہیں۔ صرف چند پہلوؤں کو زیر بحث لانے کی ضرورت ہے۔ یہ سانحہ کسطرح اور کیوں ہوا؟ اس وقوعہ پر ردعمل کیسا تھا؟ ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے؟ اور اسطرح کے سانحات کو روکنے کیلئے ہمیں من حیث القوم کیا کرنا چاہیے؟
1۔ یہ سانحہ کسطرح اور کیوں ہوا؟ دھماکہ ایک نہایت عمدہ پلاننگ سے خالصتاً وکلاء پرکیا گیا۔ ٹارگٹ کلنگ کیلئے بار کے صدر کا انتخاب کیا گیا تاکہ زیادہ سے زیادہ وکلاء اکٹھے ہوں۔ جگہ ایسی چنی گئی جہاں پر سکیورٹی نہ ہونے کے برابر تھی اور ایمرجنسی کے سامنے تین طرف کی بلڈنگز تھوڑی سی جگہ میں زیادہ لوگوں پر مشتمل بڑا ہدف مہیا کر سکتی تھیں۔ دہشت گرد خالی ہاتھ یہاں پھرتے رہے ہونگے اور شاید خودکش بمبار پہلے ہی کسی روپ میں ہسپتال کے اندر پہنچایا جا چکا ہو گا۔ دہشت گردوں کو کسی مرحلے پر بھی کوئی رکاوٹ پیش نہ آئی کیونکہ نہ تو عدالتوں میں کوئی سکیورٹی ہوتی ہے اور نہ ہی ہسپتالوں میں۔
یہ سانحہ کیوں رونما ہوا؟ تو اسکی سب سے بڑی وجہ بھارت کی فرسٹریشن ہے۔ امریکی انخلاء کے وقت بھارت کو امریکہ نے چار کامیابیوں کا عندیہ دیا تھا جس میں اسے منہ کی کھانی پڑی (i) اسے امریکی سڑیٹیجک پارٹنر بن کر چین کو محدود کرنا تھا مگر ہم نے چین کو بحیرہ عرب میں اسکے دروازے تک پہنچا دیا۔ (ii) اسے علاقے کا سکیورٹی کوارڈینیٹر بننا تھا مگر پہلے تو معاملات چار ملکی کانفرنس یعنی امریکہ، چین، پاکستان اور افغانستان کے ہاتھ میں چلے گئے یعنی اسکا نام بھی نہ رہا اور اب چین، پاکستان افغانستان، تاجکستان کے فوجی سربراہوں نے دہشت گردی کے خلاف جو سمجھوتہ کیا ہے وہ اس پر مہر کی طرح ثبت ہے۔ (iii) اسے ساڑھے تین لاکھ کی افغان نیشنل آرمی تیار کرنی تھی جو بظاہر تو وہاں امریکی فوج کی جگہ امن سنبھالتی مگر دراصل بھارت اس آڑ میں ہمارے لئے دونوں طرف دشمنی کا سامان کر رہا تھا۔ اس میں بھی وہ ناکام رہا۔ (iv) اسے واہگہ ترخم کے راستے سنٹرل ایشیا تک تجارت بڑھانی تھی جو دراصل ہمیں Strategic Disadvantage پر ڈالنا تھا مگر ہم نے لِفٹ ہی نہیں کروائی۔
اس پر مستزاد چین اور روس کے درمیان مئی میں ہونیوالے 30 معاہدے ہیں جن کی رو سے ہمیں بالواسطہ مضبوطی ملتی ہے۔ ایران، ترکی اور افغانستان کو بھی بالآخر اسی بلاک میں شامل ہونا ہے۔ درحقیقت انڈیا اس ریجن میں تنہا ہوگیا ہے۔ تاہم ان کے پاس Mischief Capacity اب بھی ہے جسکا منہ توڑ جواب دینے کیلئے ہمیں ہر دم تیار رہنا ہوگا۔ ’را‘ کی چالیں یکے بعد دیگرے ناکام کی جا چکی ہیں اور اب اسکے ٹوٹے پھوٹے سیل اور سہولت کاروں پر ہاتھ ڈالنے کیلئے کومبنگ اپریشن کیا جائیگا۔
2۔ اس وقوعہ پر ردِ عمل میں تین چیزیں واضح کردیں۔ (i) قوم دہشت گردی کے خلاف متحد ہے اور ہر جگہ ایک جیسا درد محسوس کرتی ہے۔ (ii) کسی وقوعہ سے نمٹنے کی فارورڈ پلاننگ نہیں ہوتی جن میں ہسپتالوں کو کسی ایمرجنسی کے قابل بنانا بھی شامل ہے۔ (iii) کچھ لوگ ایسے موقعوں پر بھی قوم کو گمراہ کرنیوالی سیاست اور ایجنسیوں کے خلاف زہر افشانی سے باز نہیں آتے جن میں سر فہرست حکومت کے اتحادی ہیں۔
3۔ اس سانحہ کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے؟ سکیورٹی کی پہلی ذمہ داری صوبائی حکومت کی ہوتی ہے جو اپنے تمام وسائل اور شعبے بروئے کار لا کر اپنا نیٹ ورک مضبوط بنیادوں پر تیار رکھتی ہے۔ انکی مددکیلئے فوج، ایف سی و دیگر وفاقی ایجنسیاں مستعد رہتی ہیں۔ اس سانحے میں ہسپتال اور عدالت کی بیرونی یا سپیشل برانچ کے ذریعے اندرونی سکیورٹی کا کوئی نیٹ ورک نہیں تھا۔ پھر پبلک کے اندر کا انفارمیشن سسٹم مفلوج نظر آتا ہے جو شائد کوئٹہ اور اس کے شمال میں اچکزئی صاحب کی چھتری تلے پلنے والے لاتعداد افغانیوں کی وجہ سے ہے۔ فضل الرحمٰن نے صوبائی ذمہ داریاں پھلانگتے ہوئے ایجنسیوں پر انگلی اٹھائی ہے جبکہ اچکزئی صاحب نے تو وزیراعظم کو مشورہ دے ڈالا ہے کہ وہ انٹیلی جنس کے سربراہوں کو ہٹا دیں، یعنی اپنی جانثار فورسز کی حوصلہ شکنی اور دشمن کی حوصلہ افزائی فرمائیں۔ بہرحال تحقیقات ہونی چاہئیں تاکہ ذمہ داروں کا تعین کیا جا سکے۔ میرے نزدیک تو ہم سب ہی کچھ نہ کچھ ذمہ دار ہیں اور جب اسکا حقیقی احساس کرینگے تو معاملات بہتر ہونے شروع ہو جائیں گے۔ ایجنسیوں پر تنقید کرنیوالوں کو صرف یہ یاد رکھنے کا مشورہ دینا چاہوں گا کہ پچھلے 15 سال سے دنیا کی سب خطرناک ایجنسیوں کا فوکس اس خطے پر اور ’را‘ کی امداد میں رہا مگر ان سب کے مقابلے میں ہماری ایجنسیاں نمایاں طور پر سرخرو ہوئیں۔ یہ تاریخی حقیقت ہے۔
4۔ ہمیں من حیث القوم کیا کرنا چاہیے، جس سے دہشت گردی کے واقعات پر قابو پایا جا سکے؟ ہم ہر واقعے پر غم و غصّے کا اظہار، مذّمت، لواحقین و متاثرین کی اشک شوئی، عزائم کا اعادہ، کچھ سیاسی بیانات اور کچھ گھسے پٹے اقدام اٹھانے کے بعد اگلے واقعے تک ڈھیلے پڑ جاتے ہیں اور اسطرح لاشیں اٹھاتے جا رہے ہیں۔ مجھے اگلے 5/7 سال وطن عزیز میں ترقی اور دہشت گردی ساتھ ساتھ چلتے نظر آرہے ہیں۔ لہٰذا ہمیں دیگر مصلحتوں سے بے نیاز ہو کر کچھ پکیّ اور دیرپا اقدام اٹھانے ہیں۔
ا۔ نیشنل ایکشن پلان میں فورسز کی کارروائی اور سول حکومتوں کا فالو اپ دونوں کو ہمر کاب چلنا تھا۔ فورسز نے تو کام کیا مگر فالواپ کیوں نہ ہوا؟ ذمہ داروں کیخلاف قومی پالیسی کو سبوتاژ کرنے کے جرم میں سخت کارروائی کی جائے۔ دوسرا اس پر عمل درآمد جلد اور یقینی بنایا جائے۔
ب۔ صوبائی حکومتوں کو اپنے دفاتر، ہسپتال، سکولز، پلازے وغیرہ کی سکیورٹی میں خود فریبی کو دور کر کے حقیقی طور پر محفوظ بنانا چاہیے۔
ج۔ پبلک انٹیلی جنس نیٹ ورک کا قیام ناگزیر ہو چکا ہے۔ بلدیاتی نمائندوں، شہری دفاع کے عملہ، سکیورٹی گارڈز اور دیہات میں بڑوں سے امداد لینی چاہیے۔
د۔ پبلک کو آرگنائز کیا جائے کہ وہ گلیوں میں کسی مجرم کا رہنا یا گھومنا نا ممکن بنا دیں۔ اس سے بچوں کے اغوا جیسے جرائم پر بھی قابو پانے میں مدد ملے گی۔
ہ۔ اس کمپرو مائزڈ سوسائٹی کے لیڈر کچھ عرصہ کیلئے کمپرومائز کے ذریعے انصاف کا قتل بند کر دیں تو دوسرے قتل بھی رک جائیں گے۔
ہر سانحے پر قوم میں یکجہتی نظر آتی ہے غمگساری بھی امڈ کر آتی ہے مگر جب تک اسکے پیچھے مزید شہادتیں روکنے کا عمل نہیں ہو گا یہ المیے وقوع پذیر ہوتے رہینگے۔

کرنل (ر) زیڈ ۔آئی۔فرخ....نئے راستے

ای پیپر دی نیشن