چودھری نثار نے بڑے جذبے سے اور بہت کھل کر قومی اسمبلی میں بات کی اس میں بظاہر تو ایسی بات نہ تھی کہ خورشید شاہ اور شاہ محمود قریشی اپوزیشن کو لے کر واک آ¶ٹ کرتے۔ اپوزیشن کئی جماعتوں پر مشتمل ہے۔ ضروری تو نہیں کہ وہ خورشید شاہ کی ہر بات مانیں۔ مجھے تو لگتا ہے کہ قائم علی شاہ اور خورشید شاہ ایک ہی مٹی سے بنے ہوئے ہیں۔ اب ”صدر“ زرداری کی نوازشات بہت ہو گئی ہیں۔ جمہوریت ٹھیک ہے مگر فیصلہ تعداد پر ہوتا ہے۔ استعداد پر نہیں ؟ قائم علی شاہ کے بعد خورشید شاہ کیلئے بھی فیصلہ کریں؟
بڑی خوب بات چودھری نثار نے کی کہ ملکی ایجنسیوں پر بولنے والے کاش بھارتی ایجنسی ”را“ کے خلاف بھی بیان دیتے۔ وہ بیان دے بھی دیتے تو کیا ہو جاتا۔ چودھری صاحب تو سمجھتے ہیں کہ ان کی ذمہ داری ”را“ کے خلاف بیان دے کے پوری ہو گئی ہے۔ وہ کوئٹہ کے ایک شہید کی بیٹی کے سوال کا جواب دیں۔ لوگ پاکستان میں دھماکے کیوں کرتے ہیں؟
”را“ کے خلاف کچھ کرو بھی۔ کوئٹہ میں پونے دو سو آدمی مار دیئے گئے۔ شاہ محمود قریشی کہتے ہیں کہ اب تک دہشت گردی میں ساٹھ ہزار پاکستانی مارے گئے ہیں مگر عالمی سطح پر ہمارا م¶قف نہیں مانا جاتا۔ جب قریشی صاحب پیپلز پارٹی کے وزیر خارجہ تھے تو عالمی سطح پر کون سی بات پاکستان کی تسلیم کر لی گئی تھی؟
سارے سیاستدان جب اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو کچھ اور ہوتے ہیں مگر اپنی پوزیشن بنائے رکھتے ہیں جب اقتدار میں آتے ہیں تو کچھ اور ہو جاتے ہیں۔ جب خورشید شاہ وزیر شذیر تھے تو انہوں نے کیا کر لیا تھا؟ تب فرینڈلی اپوزیشن نے بھی واک آ¶ٹ کئے تھے۔ اب تو موسٹ فرینڈلی اپوزیشن ہے۔ بلاول بھٹو زرداری تو عمران خان کے پیچھے لگے ہوئے ہیں۔
شاید پارلیمانی تاریخ میں یہ ایک منفرد اور شاندار واقعہ ہوا کہ ناراض اپوزیشن کو وزیراعظم خود منا کے لائے۔ نوازشریف بظاہر بہت دھیمے سُردوں میں بہنے والی ندی کی طرح ہیں مگر ان کے دل میں طوفان اٹھتے ہیں۔ ان میں حاکمانہ مزاجی بظاہر نہیں ہے مگر وہ بات کو یاد رکھتے ہیں۔
اپوزیشن کو منانے کیلئے نوازشریف کا خود باہر جانا چودھری صاحب کیلئے لمحہ¿ فکریہ ضرور ہے۔
کہتے ہیں اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ اور شاہ محمود قریشی کی تقریر پی ٹی وی پر دکھائی نہ گئی جبکہ ایوان میں صرف پی ٹی وی کے لئے اجازت ہے۔ باقی ٹی وی چینل پی ٹی وی کے محتاج ہیں۔ چیئرمین پی ٹی وی سے گذارش ہے کہ وہ انکوائری کروائیں۔
بنگلہ دیش میں 1971ءکو پاکستان کی حمایت کرنے والے جماعت اسلامی کے رہنما سخاوت حسین کو سزائے موت کا حکم سنایا گیا ہے۔ صرف جماعت کے سراج الحق، لیاقت بلوچ اور حافظ ادریس نے مذمت کی تو کیا تب پاکستان کے حامی صرف جماعت اسلامی کے آدمی تھے۔ میدان میں یہی لوگ تھے۔ بنگلہ دیش کو اسلام اور مسلمانوں سے کیوں اتنی پرخاش ہے۔ بھارت حملہ نہ کرتا تو کبھی بنگلہ دیش نہ بنتا۔ مشرقی پاکستانی زیادہ پاکستانی تھے اور ہیں۔ حسینہ واجد کو زوال ہوگا۔ ان کے والد کو جنہوں نے قتل کیا اُن میں ”را“ کے ایجنٹ بھی تھے۔ اپنے باپ کے قاتلوں سے تو وہ بدلہ لے نہیں سکتی۔
پاکستان اتنا ہی کمزور ہے کہ حسینہ واجد کا ظلم و ستم سے دل نہیں بھرتا۔ ایک دلیر اور غیور وزیرداخلہ چودھری نثار ہیں جنہوں نے بنگلہ دیش میں پاکستان کی حمایت کے نام پر قتل و غارت کے لئے بیان دیا۔ وزیراعظم نوازشریف اس حوالے سے کھل کر بولیں اور چودھری نثار وزیرخارجہ ہونے کا ثبوت بھی دیا ہے۔ وہ کچھ ایسا کریں کہ حسینہ واجد کو لگ پتہ جائے۔ عالمی سطح پر سفارتی آداب کے حوالے سے مہم چلائی جائے۔ اتنی بے بسی اور بے حسی اچھی نہیں ۔ 1971ءمیں تو مشرقی پاکستان تھا تو اپنے وطن کی حمایت کونسا جرم ہے۔
سخاوت حسین بنگلہ دیش کی اسمبلی کے رکن پارلیمنٹ بھی تھے۔ اس سے پہلے بھی جن لوگوں کو تختہ¿ دار پر لٹکایا گیا وہ بھی رکن پارلیمنٹ تھے تو ان سب لوگوں کو بھی پھانسی پر لٹکا کر رسوائی کے ہار گلے میں ڈالو جنہوں نے ان مخلص اور وطن دوست رہنماﺅں کو ووٹ دئیے تھے۔ حسینہ واجد کو کچھ احساس کرنا چاہئے۔ بھارت کی خوشنودی کے لئے وہ ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہی ہیں۔ یہی پہاڑ بھارت والے اس پر گرائیں گے بھارت بنگلہ دیش کو اپنی ایک طفیلی ریاست سمجھتا ہے۔ اس کا مستقبل پاکستان کے ساتھ اچھے روابط میں ہے۔ بھارت کا مقابلہ پاکستان کررہا ہے ورنہ وہ سب ہمسایہ ریاستوں کو اپنی ملازم ریاستیں سمجھتا ہے۔ پاکستان نے اسلامک سمٹ میں بنگلہ دیش کو بڑی عزت دی تھی۔ کیا حسینہ واجد عزت کا مفہوم سمجھتی ہیں۔ کیا وہ بھارت کی ایک نوکر ریاست بنگلہ دیش کو بنانا چاہتی ہیں۔ بھارت کو اتنی ہمدردی ہے تو وہ بھارتی بنگال کو بنگلہ دیش میں شامل کیوں نہیں کردیتا تاکہ یہ ایک مکمل ریاست بن سکے!
پاکستان اسمبلی میں انفرادیت اور بنگلہ دیش میں مظالم
Aug 12, 2016