کراچی (وقائع نگار + ایجنسیاں + نوائے وقت رپورٹ) چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا ہے کہ سکیورٹی گارڈز کے روپ میں ’’را‘‘" اور’’طالبان‘‘ کے ایجنٹ ہو سکتے ہیں، سکریننگ ضروری ہے۔ پولیس کی ذمہ داری ہے کہ وہ سکیورٹی گارڈز کی بھرتی پر نظر رکھے۔ یہ وہی لوگ ہیں جو جعلی شناختی کارڈ بنوا کر بھرتی ہوتے ہیں۔ صرف کاغذوں میں حفاظتی انتظامات کئے گئے۔ ان معاملات پر کسی قسم کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔ سکیورٹی انتظامات بہتر ہوتے تو کوئٹہ میں اتنا نقصان نہ ہوتا۔ کراچی بد امنی کیس کے فیصلے پر مکمل عملدرآمد چاہتے ہیں لیکن اداروں نے ذمہ داری ادا نہیں کی اس لئے ہمیں معاملے کو دیکھنا پڑا۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں قائم لارجر بنچ نے کراچی بدامنی کیس کی سماعت کی۔ حکومت سندھ کی جانب سے سپریم کورٹ میں تین رپورٹیں پیش کی گئیں۔ حکومت سندھ نے امن و امان کے قیام کے لیے کئے گئے اقدامات سے متعلق 5 سالہ کارکردگی کی رپورٹ اور سی سی ٹی وی کیمروں کے کیس میں نظرثانی کی درخواست جمع کرائی۔ امن و امان سے متعلق رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پولیس اور رینجرز نے ستمبر 2013 سے اب تک 17 ہزار سے زائد آپریشنز کیے، جن میں 80 ہزار ملزموں کو گرفتار کیا گیا، گرفتار ملزموں میں ٹارگٹ کلنگ اور قتل کے 15 سو سے زائد ملزم شامل ہیں جب کہ غیر قانونی اسلحہ کے جرم میں1500 سے زائد اور دھماکا خیز مواد رکھنے پر 450 ملزم گرفتار کئے گئے۔ پولیس کو سیاسی عناصر سے پاک کرنے کے لیے موثراقدمات کیے گئے ہیں، خلاف ضابطہ ترقی پانے والوں اور ڈیپوٹیشن پر آئے افسروں کو واپس بھیجا گیا، سنگین نوعیت کے105کیس فوجی عدالتوں کو بھیجے جاچکے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ سندھ میں 10 لاکھ سے زائد افغان باشندے موجود ہیں جن پر کڑی نظر رکھی جارہی ہے۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے شہر میں سی سی ٹی وی کیمروں سے متعلق استفسار کیا تو چیف سیکریٹری سندھ نے بتایا کہ نئے کیمروں کے لیے 10ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، 10ہزار نئے کیمروں کے ٹینڈرز پر وقت لگے گا، اس وقت تک 8ہزار پرانے کیمروں کی مرمت پر رقم خرچ کرنیکی اجازت دی جائے۔ چیف سیکرٹری سندھ کے موقف پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کراچی بد امنی کیس کے فیصلے پر مکمل عملدرآمد چاہتے ہیں، اداروں نے ذمہ داری ادا نہیں کی، اس لیے ہمیں معاملے کو دیکھنا پڑا، مسئلہ رقم مختص کرنے کا نہیں بلکہ رقم صحیح جگہ خرچ بھی ہونی چاہیے۔ نئے ٹھیکوں میں غیر شفافیت برداشت نہیں کریں گے۔ چیف جسٹس آف پاکستان انور ظہیر جمالی نے آئی جی سندھ کو ہدایت کی کہ سانحہ کوئٹہ کے بعد وسپتالوں اور دیگر مقامات کی سیکیورٹی کے لئے خصوصی انتظامات کئے جائیں، سکیورٹی انتظامات بہتر ہوتے تو کوئٹہ میں اتنا نقصان نہ ہوتا، ایسا نہ ہو کہ پھر کوئی بڑا سانحہ ہو اور پھر ہم سر جوڑ کر بیٹھ جائیں۔ ہسپتالوں کے سکیورٹی گارڈز کی کوئی سکریننگ نہیں ہوتی۔ آئی جی سندھ کا کہنا تھا ہسپتالوں میں سکیورٹی گارڈز کی ٹریننگ کا معاملہ دیکھ رہے ہیں۔ دہشت گردوں کا آسان ہدف ہسپتال ہیں عوام کو آگاہی کیلئے مہم چلائی جائے۔ بی بی سی کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ ان سکیورٹی کمپنیوں کے گارڈز بنک ڈکیتیوں سمیت دیگر سنگین جرائم میں ملوث نکلتے ہیں۔ ان کمپنیوں میں گارڈز کی بھرتی کے لئے سکریننگ کو یقینی بنائی جائے ان کی بھی تربیت ہونی چاہئے۔ یہاں اندھوں کو بھی لائسنس مل جاتا ہے ایسا نہیں ہونا چاہئے۔ کسی بڑے سانحہ سے پہلے مناسب اقدامات کئے جائیں۔ علاوہ ازیں چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے نجی ہسپتال میں سانحہ کوئٹہ میں زخمی ہونے والے وکلاء کی عیادت کی۔ انہوں نے کہا کہ سانحہ کوئٹہ پاکستانی قوم کے حوصلے کو پست کرنے کی سازش ہے لیکن زخمی وکلاء کے حوصلے کو دیکھ کر لگتا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف ہمارے حوصلے مزید پختہ ہوئے ہیں۔
پھربڑاسانحہ نہ ہوجائے سکیورٹی گارڈز کے روپ میں ’’را‘‘ اورطالبان کے ایجنٹ ہو سکتے ہیں
Aug 12, 2016