سورج کو کون روک سکتا ہے

قائد جمہوریت میاں محمد نواز شریف کی لاہور آمد تک کا وقفہ ”برف کے پگھلنے اور پو کے پھٹنے کا “ وقفہ ہے اس کے بعد سورج کو روکنے والا کون ہو سکتا ہے؟
مجھے چوہدری سردار محمد سابق آئی جی پنجاب یاد آتے ہیں وہ کہا کرتے تھے میاں محمد نواز شریف بہت زیادہ مخلص،محب وطن اور محنتی آدمی ہیں ان کی سنجیدگی میں بھی وضع داری اور دیانت جھلکتی ہے وہ دشمنی میں بھی ”حد“ کراس نہیں کرتے اور سیاست کو بھی شائستگی کا لبادہ پہناتے ہیں۔ وہ عام انسانوں کی طرح خوش ہوتے ہیں تو بچوں کی طرح ناراض بھی ہو جاتے ہیں۔ ان کا ظاہر و باطن ایک ہے وہ جھوٹ نہیں بول سکتے۔ البتہ کچھ چھپانا مقصود ہو تو چپ سادھ لیتے ہیں جس سے بعض اوقات غلط فہمیاں بھی جنم لے لیتی ہیں....میں 80 اور 90 کی دہائی میں محمد نواز شریف اور شہباز شریف کے ہمراہ رہا۔ والد گرامی امین بٹ سے ان کا گہرا تعلق تھا شریف برادران ان سے اور میں نے نواز شریف برادران سے سیاست سیکھی۔ میں جانتا ہوں کہ نواز شریف ایک سچے آدمی ہیں بہت ذہین ہیں مگر ان کی ذہانت میں تکبر نہیں ہے۔ انگریزی اُردو روانی کے ساتھ بول لیتے ہیں قرآن خوانی کا شوق رکھتے ہیں لیکن زبان دانی کا رعب ڈالنا نہیں چاہتے وہ الفاظ سے زیادہ عمل کے انسان ہیں۔ ان کے عمل لاہور پہنچنے کے بعد شروع ہوگا پھر پتہ چلے گا کہ سورج کی روشنی میں حقائق کی اصل صورت کیا ہے۔
محمد نواز شریف منجھے ہوئے سیاست دان ہیں کیا تینوں دفعہ جبکہ وہ عوامی محبوبیت کے ساتھ وزیراعظم کے عہد تک پہنچے۔ اپنا وقت ”وزارتِ عظمیٰ“ پورا نہ کر سکتے تھے؟ حالانکہ وہ اگر چاہتے تو ایسا ممکن تھا لیکن اس ممکن کو ممکن بنانے کے لئے انہیں قربانی دیتی پڑتی تھی، اصولوں کی، عوام سے کی گئی کمیٹمنٹ کی، اٹھائے گئے حلف کے الفاظ کی اور سب سے بڑھ کر اپنے اندر کے انسان کی ، جو نہ جھک سکتا ہے اور نہ ہی کمپرومائز کر سکتا ہے۔ نواز شریف کے پہلے دور اقتدار کو دیکھ لیں وہ غلام اسحاق کے ساتھ مل کر اپنا ”دور حکمرانی“ پورا کر سکتے تھے۔ حالات اور وقت ان کے ساتھ تھا۔ ان کے پاس اکثریت تھی پیپلز پارٹی اندرونی توڑ پھوڑ کا شکار تھی اپوزیشن کمزور تھی وہ من مانی کر سکتے تھے لیکن ان کو ان کا مشن پورا نہ کرنے دیا گیا۔ عوام کی بھلائی، ترقی اور خوشحالی کا خواب جو انہوں نے دیکھا تھا اس پر کسی قسم کا کوئی سمجھوتہ انہیں قبول نہ تھا۔ پاکستان کو اصل اسلامی جمہوریہ پاکستان بنانے کے اقدامات کو مقتدرہ اداروں کے افراد نے اپنے خلاف سمجھا اور بغاوت گردانا لیکن محمد نواز شریف ڈٹ گئے ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے ان قوتوں کا ساتھ دیا نواز شریف نے اپنے نظریہ اور سیاست پر سمجھوتہ نہ کیا۔ اقتدار قربان کردیا۔
بے نظیر کے دوسرے دور اقتدار میں بھی نواز شریف کے ساتھ ہم کھڑے تھے ہم نے مل کر تحریک نجات کو کامیاب بنایا تن من دھن قربان کیا لیکن سر نہ جھکایا۔ محمد شہباز شریف، حمزہ شہباز یہاں تک کہ میاں محمد نواز شریف بھی آزمائش کے اس دور میں سربلند ٹھہرے۔ محمد نواز شریف اس وقت بھی پورے عزم کے ساتھ، ہمت اور جواں مردی کے ساتھ اپنے نظریہ اور موقف پر قائم رہے۔ دوسرا دورِ حکومت بھی محمد نواز شریف کے لئے انتہائی سہل ہو سکتا تھا۔ دو تہائی اکثریت اور کرپشن زدہ اپوزیشن ....میاں محمد نواز شریف نے ترقی ، خوشحالی اور عوامی سیاست کا آغاز کیا۔ تیزی سے سر بلند ہوتے پاکستان کو ایٹمی قوت بنایا.... ایٹمی دھماکے کرنا ان کا جُرم ٹھہرا حالانکہ وہ واجبائی کو مینار پاکستان کے سائے تلے لے آئے تھے ۔ واجبائی کا مینار پاکستان آنا اس نظریے اور سیاست کی فتح تھی جو دو قومی نظریہ کی بنیاد پر قائم ہوا۔ محمد علی جناح سے کیا گیا اختلاف اقرار میں بدل گیا اور تسلیم کر لیا گیا کہ نظریہ اور اس کے تحت قائم ہونے والی مملکت کی حقیقت کو قبول کر لیاگیا ہے۔ یہ بہت بڑی اور تاریخی فتح تھی۔ ملک ایٹمی قوت بن چکا تھا اور لووڈشیڈنگ کا عفریت بھی بوتل میں بند ہو چکا تھا ہم انڈیا کو بجلی فروخت کرنے کی باتیں کر رہے تھے پاکستان کی معیشت تیزی کے ساتھ رواں دواں تھا۔ مقتدرہ حلقوں سے اسے اپنے لئے خطرہ سمجھا اور مسلم لیگ ن کی حکومت ختم کر دی گئی۔
2013 کے بعد محمد نواز شریف ایک بار پھر اپنے نظریے، حوصلہ اور ویژن کے ساتھ برسر اقتدار آئے 99 سے 13 تک انہوں نے ہر مشکل اور مصیبت کا خندہ پیشانی کے ساتھ مقابلہ کیا۔ منتخب وزیراعظم کو قید و بند کی صعوبتیں اُٹھانی پڑیں اور طویل جلاوطنی کا عرصہ انہوں نے انتہائی صبر حوصلہ اور سیاسی جدوجہد کرکے گزارا۔ 2013 میں وزیراعظم منتخب ہو کر انہوں نے اصولی موقف پر قائم رہتے ہوئے سول ملٹری تعلقات کو موثر بنایا۔ بیوروکریسی اور مقتدرہ حلقوں کے ساتھ مفاہمت پیدا کرنے کی کوشش کی لیکن پہلے دھرنے کی سیاست ہوتی رہی بعد میں پاناما سے صرف ”اقامہ“ نکلا اور منتخب وزیراعظم کو نااہل قرار دے کر گھر بھیج دیا گیا۔محمد نواز شریف اب تک صبر اور تحمل کے ساتھ بیٹھے ہیں انہیں اپنی سیاست سے زیادہ ریاست کی فکر ہے وہ ساری گیم سے آشنا ہیں ان کا ٹارگٹ یہ ہے مکہ کسی طرح تیزی سے ترقی کرتا ہوا یہ ملک دوبارہ پستی کی طرف واپس نہ چلا جا ئے۔ انہوں نے تو مفاہمت کی انتہا کر دی ہے وہ گزشتہ دنوں اپنی گفتگو میں کہہ چکے ہیں کہ اگر انہیں بحال بھی کردیا گیا تو وہ دوبارہ وزیراعظم بننے کے خواہش مند نہیں اب تو ان قوتوں کی تسکین ہو جانی چائیے جو ان کی شخصیت کے درپے ہیں اب تو انہوں نے اپنی ذات کی بھی نفی کردی ہے۔ اگر اب بھی سورج کی روشنی کو روکا گیا تو پھر وطن عزیز کا بہت نقصان ہوگا پھر کسی کے لئے کچھ نہ بچے گا۔
زمین کی ہریالی اور زندگی سورج کی روشنی کی مرہون منت ہے پوپھٹنے سے پہلے کا وقفہ ختم ہونے والا ہے۔ سورچ لاہور سے نکلے گا اور زمین حرارت پکڑے گی۔ اس وقفہ کو وقفہ ہی سمجھنا چائیے یہ نہیں ہو سکتا کہ اسلام کے نام پر 27 رمضان المبارک کو وجود میں آنے والی دھرتی رات کے اندھیری میں ڈوبی رہے۔

ای پیپر دی نیشن