میں ایک عجیب بات کرنے لگا ہوں، ناراض ہونے کی ضرورت نہیں۔ یہ ہماری تاریخ کے حقائق ہیں جنہیں بدلا نہیں جا سکتا۔پاکستان بننے کی اصل وجہ یہ تھی کہ ہم جمہوریت کے خلاف تھے۔ جمہوریت کی مخالفت کی وجہ جائز تھی کہ اگر انگریز سرکار جا تے جاتے انتقال اقتدار کے لئے جمہوری اصول کو پیش نظر رکھتی تو لازمی طور پر ہندو کی اکثریت کی وجہ سے ہمیں مستقل اس کی غلامی میں زندگی بسر کرنا پڑتی۔ چنانچہ ہم نے ایک الگ وطن کامطالبہ کیا جو ہمیں مل گیا اور اس کا نام ہم نے پاکستان رکھا ۔
یہ پاکستان اکہتر میں ٹوٹ گیا۔ اس لئے ٹوٹ گیا کہ ایک بار پھر ہم نے جمہوری نظریئے کو ماننے سے انکار کر دیاا ور شیخ مجیب کو اکثریت ملنے کے باوجود اسے اقتدار منتقل نہ کیا۔
اکہتر کے بعد بار بار ہم مسائل کااس لئے شکار ہوئے کہ ہم نے کسی نہ کسی کی جعلی اکثریت قائم کرنے کے لئے ناجائز حربے اختیار کئے۔فوج کے پاس طاقت ہوتی ہے اس لئے کبھی وہ اقتدار پر قابض ہو جاتی ہے۔ کبھی کسی آئی جے آئی کی اکثریت بنانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ یہ سلسلہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتا۔ میں نہیں جانتا کہ ملک کی حقیقی اکثریت کو کب حکومت ملے گی۔ جب تک نہیں ملے گی۔ ہمارے مصائب کا سلسلہ ختم نہیں ہونے پائے گا۔ جب پاکستان بن رہا تھا تو گاندھی نے بھر پور مخالفت کی مگر پنڈت نہرو نے باپو کو سمجھایا کہ یہ ملک چند ماہ میں ناکام ہو جائے گا اور ہماری جھولی میں آن گرے گا،نہرو کی یہ خواہش پوری نہ ہوئی مگر اس کے چیلوںنے ہمیں ناکام کرنے کے لئے اندھا دھند ہتھکنڈے اختیار کر رکھے ہیں۔ پہلا ہتھکنڈہ پانی کا ہے۔ جیسے ہی پاکستان بنا تو بھارت نے ستلج اور راوی سے نکلنے والی ہماری نہریں بند کر دیں۔پھر ایوب خان کی مت ماری گئی اورا سنے بھارت سے سندھ طاس کے معاہدے پر دستخط کر دیئے جس کی وجہ سے ہم ستلج اور راوی کے پانی سے کلی طور پر محروم ہو گئے۔ ہمیں اس معاہدے کی وجہ سے تین دریا ملے ۔ ان میں چناب اور جہلم کا کنٹرول کشمیر سے ہو سکتا تھا۔ ہندو نے انگریز سے ساز باز کی اور مشرقی پنجاب کے علاقے ریڈ کلف ایوارڈ کی آڑ میں ہتھیا لئے۔ اس ایوارڈ کی رو سے بھارت کو کشمیر تک زمینی رسائی حاصل ہو گئی۔ اورا سنے کشمیر پر فوج کی طاقت سے قبضہ جما لیا۔ ہمارے گورنر جنرل قائد اعظم نے اپنے آرمی چیف سے کہا کہ بھارت کو کشمیر سے پسپا کرنے کے لئے حرکت میں آئیں ، اس نے یہ کہہ کر گورنر جنرل اور بانی پاکستان کا حکم ماننے سے انکار کر دیا کہ وہ ایسی فوج کو بھارتی فوج پر حملے کا حکم نہیں دے سکتا جس میں انگریز فوجی بھی شامل ہیں اوراس حملے کے نتیجے میں ان انگریز فوجیوں کی جان کو خطرہ ہو سکتا ہے۔ مگر بھارتی آرمی چیف نے پنڈت نہر و کے حکم کی سرتابی نہیں کی اور نہ یہ عذر پیش کیا کہ اس کے حملے کی وجہ سے پاکستان کے جوابی حملے میںدونوں طرف انگریز فوجیوں کی جان کو خطرہ لاحق ہو گا۔ یوں پاکستان ا ٓرمی چیف کی نافرمانی کی وجہ سے بھارتی فوج نے کشمیر کے بڑے حصے پر قبضہ جما لیا اور اس قبضے کو مستحکم کرنے کے لئے وہ پچھلے ستر برسوں میں اپنی فوج میں اضافہ ہی اضافہ کرتا چلا گیا۔بھارت کی نظر کشمیر کے زعفران کے کھیتوں پر نہ تھی بلکہ جہلم اور چناب کے پانیوں پر تھی جس کے بہاﺅ کو کنٹرول کرنے کے لئے اس نے کئی ایک ڈیم بنائے۔ پاکستان ان ڈیموں پر اعتراض کرنے کا حق رکھتا تھامگر افسوس اور بد قسمتی کی بات یہ ہے کہ ہمارے انڈس واٹر کمیشن کے سربراہ گہری میٹھی نیند کے مزے لیتے رہے۔ کبھی بھارت کے خلاف اپیل بھی کی تو اس کی پیروی نیم دلانہ طور پر کی گئی۔ جماعت علی شاہ ایسے لوگوںمیں شامل ہیں جنہوںنے بھارت کو پاکستان کی قسمت سے کھل کھیلنے کی اجازت دی۔ اب یہ صاحب کہاں ہیں۔ ڈھونڈو انہیں چراغ رخ زیبا لے کر۔
انڈس واٹر کمیشن کے ایک سابق سربراہ مرزا آصف بیگ کا کہنا ہے کہ ان کے ادارے کو حکومت پاکستان اتنافنڈ بھی نہیں دیتی کہ وہ روز مرہ کے اخراجات ہی برداشت کر سکیں۔چہ جائیکہ وہ بھارت کے خلاف بھاری فیسوں پر وکیل کر کے اپیل میں جا ئیں۔ اس موقف کی تحقیق ہونی چاہئے اور جس پارلیمنٹ نے اس کمیشن کو مالی طور پر بے دست و پا بنا ئے رکھا، اسے احتساب کا سامنا کرنا چاہئے۔آج ہم روتے ہیں کہ کیا پاکستان پانی کی بوند بوند کو ترسے گا، جواب ہے کہ جی ہاں! خدا نخواتہ ایساہی ہو گا۔ بھارت للکارتا ہے کہ بوندبوند کو ترسے گا پاکستان ، پیاسا مرے گا پاکستان ۔ قبرستان بنے گا پاکستان۔ اس حشر سے بچنے کے لئے چیف جسٹس آف پاکستان نے دو ڈیمز کی تعمیر کے لئے جو فنڈ قائم کیا ہے ، اس میں ایک ارب روپے اکٹھے ہو سکے ہیں، اس رفتار سے ایک ہزار ارب ڈالر کی رقم اکٹھی کرنے کے لیئے ایک صدی لگ سکتی ہے۔یہ ہے پاکستان کے امیر طبقے کا ردعمل جو پاکستان پر اقتدار تو قائم رکھنا چاہتا ہے مگر ا س پاکستان کی بقا کی اسے چنداں فکر لاحق نہیں ۔کس قدر ستم ظریفی ہے کہ جنوبی پنجاب کو پس ماندہ ا ور محروم علاقہ کہا جاتا ہے مگر یہاں کون ہے جس کے پاس دو دو جہاز نہیں ہیں، ایک بارتو ایک جاگیر دار نے اپنا جہاز امرتسر میں جا اتارا۔ اس لاڈلے کوپاکستان نے غلطی کہہ کر واپس لینے میں کامیابی حاصل کر لی۔ آج اس خانوادے کے ایک چشم و چراغ کا نام تخت لاہور کے نئے حاکم کی فہرت میں شامل ہے۔ محرومیوں اور نجی طیاروں سے لدے پھندے یہ جاگیر دار ، وڈیرے، صنعتکار، اور بزنس مین اور نسل درنسل حکمران اگر غافل ہیں توملک کی تقدیر کی طرف سے۔ انہیں اس کی پروا اس لئے نہیں کہ ان کے بچے بیرونی ممالک میں ہیں، ان کے پاس ڈبل شہریت ہے، اقامے ہیں، انکے فلیسٹس ملکوںملکوں پھیلے ہوئے ہیں اور کسی خطرے کی صورت میں یہ صرف ایک بریف کیس کے ساتھ پرواز کر جائیں گے اور یہاں رہ جائیں گے وہ بے بس عوام جن کے بارے میں نہرو نے کہا تھا کہ وہ بھارت کی غلامی پر مجبور ہو جائیں گے۔ اس انجام تک پہنچنے میں اگر کوئی رکاوٹ ہے تو وہ ہے پاک فوج جو ایٹمی اسلحے اور دور مار میزائلوں سے لیس ہے، مگر ہم اس فوج کو کٹ ٹو سائز کرنے کے درپے رپتے ہیں ، ہماری کوشش ہے کہ ایس ایس پی بہادر کی طرح بریگیڈیئر اور جنرل بھی ہماری حویلیوں کے طواف کریں۔ہم اس فوج کا ڈنگ نکالنا چاہتے ہیں تاکہ وہ بھارت کے لئے خطرہ نہ بن سکے ، ہمیں کوئی تشویش نہیں کہ اس سے تو بیس کروڑ عوام بھارت کے تلوے چاٹنے پر مجبور ہو جائیں گے۔
بھارت جس تیز رفتاری کے ساتھ کشمیر میں نئے ڈیمز بنا رہا ہے۔ وہ للکار رہا ہے کہ ہمت ہے تو روک کر دکھاﺅ ۔ روکنے کا ایک ہی طریقہ ہے جنگ ۔مجھے خطرہ ہے کہ ایک دن بر صغیر میں ا س مسئلے پر جنگ نہ چھڑ جائے ۔ دنیا کی بڑی بڑی جنگیں پانی کے مسئلے پر چھڑیں ۔ پانی انسان کی بنیادی ضرورت ہے اور پانی ہی تہذیبوں کا منبع اور مرکز رہا ہے۔ پاکستان کی بقا پانی کے بغیر ممکن نہیں مگر کیا ہم اس کے لئے سر دھڑ کی بازی لگانے کو تیار ہیں کیونکہ ہندو کو باتوں سے تو رام نہیں کیا جا سکتا ، وہ طاقت اور اسلحے کی زبان ہی سمجھتا ہے۔ اس کی جارحیت کا جنوں اس دن سے کچھ کچھ ٹھنڈا پڑ گیا ہے جب پاکستان نے ایٹمی اسلحہ تیار کر لیا ور اس کے دھماکے بھی کر دکھائے ۔ پھر اس ایٹمی اسلحے کے ڈیلوری سسٹم کو پروان چڑھایا اور ہرقسم کے میزائل بھی ایجاد کر لئے۔ آپ حیران ہوں گے کہ پاکستان میں ایک نئے جمہوری دور کے آغاز پر میں کتنے بڑے خطرے کی گھنٹی بجا رہا ہوں۔ مگر میںنے اپنے خدشات آپ کے سامنے رکھے ہیں، آپ کا طرز عمل بھی آ پ پر واضح کیا ہے کہ آپ کی مسلسل مجرمانہ خاموشی کا فائدہ ا ٹھا کر بھارت چند برسوں میں چناب اور جہلم کے پورے پانی پر قابض ہو جائے گا۔ پھر تیرا کیا بنے گا کالیا!
٭٭٭٭٭