ڈائریکٹرجنرل پلاک ڈاکٹر صغرا صدف صاحبہ ایک باکمال شخصیت ہیں۔ جب سے وہ پلاک کی ڈائریکٹر بنی ہیں‘ ہر ہفتے میں وہ پنجابی موسیقی‘ پنجابی ادب‘ پنجابی کتب کی رونمائی کیساتھ ساتھ پنجابی کے صوفی شعراءاور دور حاضر کے پنجابی ادیبوں اور شاعروں کے ساتھ ایک تسلسل سے تقریبات کا اہتمام کر رہی ہیں۔ چند روز قبل پلاک کے زیراہتمام مرحوم نامی گرامی شاعر‘ ادیب‘ مترجم اور براڈ کاسٹر صوفی تبسم کی ایک سو انیسویں سالگرہ کی ایک شاندار تقریب منعقد کی۔ اس خاص تقریب میں صوفی تبسم مرحوم کی پوتی ڈاکٹر صوفیہ تبسم بھی مہمان خصوصی کے طورپر شریک تھیں۔ سٹیج پر ایک ضخیم کتاب بعنوان ”کلیات صوفی تبسم“ بھی اپنا جلوہ دکھا رہی تھی۔اجلاس کی ابتدائی تقریب میں تنویر صاحب نے صوفی تبسم مرحوم کی یادیں تازہ کرتے ہوئے بتایا کہ صوفی تبسم صاحب ہمارے قومی ہیرو تھے۔ انہوں نے تحریک آزادی میں سرگرم حصہ لیا اور جب پاکستان آزاد ہوا تو وہ بھارت سے ہجرت کرکے لاہور آئے اور کرشن نگر (اب اسلام پورہ) میں رہائش اختیار کر لی۔ صوفی تبسم کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ ان کی ملاقاتیں علامہ اقبال سے بھی ہوتی رہیں۔ صوفی تبسم کو فارسی زبان پر زبردست عبور حاصل تھا۔ علامہ اقبال جب فارسی میں شاعری کرتے تھے تو کچھ فارسی الفاظ کے معنی کی تصدیق صوفی تبسم صاحب سے کیا کرتے تھے۔ صوفی تبسم صاحب علامہ اقبال کے اعزاز میں ہونے والی محافل میں بھی شریک ہوا کرتے تھے۔ تنویر صاحب نے یہ انکشاف بھی کیا کہ بڑے بڑے مشہور پبلشرز نے صوفی تبسم کی کتب شائع کیں‘ لیکن کسی نے بھی صوفی تبسم کو معاوضہ نہیں دیا۔ لاہور میں الحمراءہال بنانے والوں میں صوفی تبسم شامل تھے‘ لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ تینوں ہالوں میں سے ایک بھی صوفی تبسم کے نام کے ساتھ منسوب نہیں ہے۔ میں نے صوفی تبسم کے لکھے ہوئے بہت سے مضمون جمع کئے ہی اور یہ سب مضمون محترمہ ڈاکٹر صغرا صدف کے سپرد کر دیئے ہیں۔ میرے پاس صوفی تبسم کی بہت سی تصاویر بھی ہیں۔ میں درخواست گزار ہوں کہ ڈاکٹرصغرا صدف صاحبہ مذکورہ مضامین اور تصاویر کو کتابی صورت میں شائع کر دیں۔ صوفی تبسم انگریزی‘ اردو اور پنجابی زبان کے شاعر بھی تھے۔ 1965ءکی جنگ میں ان کے لکھے ہوئے ترانے بہت مقبول ہوئے اور آج تک مقبول ہیں۔ ان ترانوں میںسے دو ترانے تو کمال کے ہیں۔ وہ یہ ہیں۔ ”میریا ڈھول سپاہیا‘ تینوں رب دیاں رکھاں“ اور دوسرا ترانہ یہ ہے۔ ”اے پتر ہٹاں تے نئیں وکدے۔“ بلکہ ملکہ ترنم نور جہاں نے ایک محفل میں انکشاف کیا کہ ”میریا ڈھول سپاہیا‘ تینوں رب دیاں رکھاں“ کی ریکارڈنگ کے وقت صوفی تبسم صاحب خود بھی رو رہے تھے اور میں بھی رو رہی تھی۔
اس کے بعد صوفی تبسم مرحوم کی پوتی فوزیہ تبسم جو سٹیج پر تشریف فرما تھیں‘ ان کو اظہارخیال کیلئے بلایا گیا تو انہوں نے بتایا کہ میرے دادا شاعر اور ادیب تو تھے مگر وہ اعلیٰ پائے کے درویش بھی تھے۔ وہ ہمہ گیر شخصیت کے مالک تھے۔ ان کے دوران گفتگو الفاظ خوشبو بھرے ہوتے تھے اور نظروں میں پیار بھرا ہوتا تھا۔ یہ خصوصیات میری فطرت میں بھی شامل ہیں کیونکہ ہماری تربیت خود صوفی تبسم نے کی تھی۔ انہوں نے ہمیں جو درس دیئے‘ وہ آج بھی ہماری فطرت میں شامل ہیں۔ چند اسباق یہ ہیں۔ اچھا انسان وہ ہے جس کا اخلاق اور علم اعلیٰ درجے کا ہو۔ دولت کی اس کے مقابلے میں کوئی اہمیت نہیں۔ پھر انہوںنے دوسرا درس یہ دیا کہ کتاب کی کیا اہمیت ہے اور اس کی حفاظت کیسے کی جا سکتی ہے۔ پھر ایک دن اچانک موت کے لمبے سفر پر چلے گئے۔ ان کی وفات کے بعد میرے اندر ادبی جراثیم پرورش پانے لگے اور میں ادب کی دنیا میں داخل ہو گئی۔ اس طرح اپنے دادا کی ادبی وراثت کو فروغ دینے لگی۔ انہوں نے چلتے چلتے یہ بھی انکشاف کیا کہ صوفی تبسم گورنمنٹ کالج لاہور میں شعبہ اردو کے سربراہ بھی رہے اور وہیں سے ریٹائر ہوئے۔ ان کے نامور شاگردوں میں سعادت حسن منٹو‘ قدرت اللہ شہاب‘ جسٹس(ر) نسیم حسن شاہ‘ اشفاق احمد‘ بانو قدسیہ اور فیض احمد فیض جیسے ادیب اور شاعر شامل تھے۔ ان تمام نامور لوگوں نے ادبی فیض اپنے استاد صوفی تبسم ہی سے حاصل کیا تھا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد صوفی تبسم کرشن نگر سے سکونت ترک کرکے سمن آباد میں آگئے اور نئے گھر میں ادبی محافل کا انعقاد بھی کرنے لگے۔ مرحوم لیل و نہار میگزین کے ایڈیٹر بھی تھے۔ مینار پاکستان کمیٹی کے مستقل رکن بھی تھے۔ انہیں بہت سے قومی اعزازات سے نوازا گیا جن میں پرائیڈ آف پرفارمنس بھی شامل ہے۔ انہوں نے بچوں کیلئے بہت سی نظمیںتخلیق کیں۔ ٹوٹ بٹوٹ ان کی وہ نظم ہے جو آج بھی بہت مقبول ہے۔ محترمہ پروین سجل نے یہ حیران کن بات سنائی کہ جب میں نے سکول جانا شروع کیا تو ایک نظم روزانہ اپنے استاد کو سناتی تھی۔ یہ نظم ٹوٹ بٹوٹ تھی۔ سلمیٰ اعوان صاحبہ نے بھی بتایاکہ میں نے اس تقریب میںآنا تھا کہ اچانک اپنے بچپن میں چلی گئی۔ مجھے اپنے تصورات میں اپنے گھر کی چھت نظر آنے لگی اور پھر اچانک میری زبان پر صوفی تبسم کی نظم ٹوٹ بٹوٹ آگئی۔ اس کے بعد میں اپنی گڑیوں کا پٹارا کھولتی اور تبسم کی نظم ”ثریا کی گڑیا“ پڑھنے لگتی تھی۔ بعدازاں ریڈیو پاکستان کے دفتر میں میری صوفی تبسم سے ملاقات ہونے لگی۔ کشور ناہید نے اپنی ایک کتاب میں صوفی تبسم کی ایک ایسی تصویر لفاظی کے ذریعے بنائی جسے پڑھ کر صوفی تبسم زندہ دکھائی دینے لگتے ہیں۔
بعدازاں آغاشاہی‘کرامت بخاری‘طارق شہزاد‘ صوبائی وزیرقانون ضیاءحیدر رضوی‘ وزیر انفارمیشن اینڈ کلچر احمد وقاص اور ڈاکٹر صغرا صدف نے پنجابی میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ میں محترمہ فوزیہ تبسم کو خراج تحسین پیش کرتی ہیں جو اپنے دادا کا نام ابھی تک سربلند کئے ہوئے ہیں۔صوفی تبسم نے بہت بڑے بڑے ادبی اور سماجی کام کئے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ صوفی مرحوم ہمہ جہت شخصیت تھے۔ صوفی صاحب کے لکھے ہوئے اور نورجہاں کے گائے ہوئے ترانے آج بھی پاکستانی افواج کا پرچم سربلند کئے ہوئے ہیں۔ صوفی تبسم صاحب سے اس خاکسار کی ملاقات بھی ریڈیو سٹیشن لاہور میںہوئی تھی۔ میں پنجابی پروگرام کے مشہور صداکار نظام دین سے ملنے گیا تھا۔ اس ملاقات میں صوفی تبسم بھی پہلے سے موجود تھے۔ لہٰذا مجھے بھی ان سے ہم کلام ہونے کی سعادت نصیب ہوئی تھی۔ آج مجھے صوفی تبسم کی وہ غزل یاد آرہی ہے جو فریدہ خانم نے اپنی خوبصورت آواز میںگا کر زندہ جاوید کر دی ہے ....
وہ مجھ سے ہوئے ہم کلام اللہ اللہ
کہاں میں‘ کہاں یہ مقام اللہ اللہ