پاکستان کو14اگست 1947ءکو قائداعظم محمد علی جناحؒ اور شہید ملت نوابزادہ لیاقت علی خان ؒ اور برصغیر ہندو پاک کے لاکھوں مسلمانوں کی قربانی اور انتھک محنت کے باعث آزادی ملی۔ دوسری جنگ عظیم نے برطانوی راج کو کمزور کر دیا تھا جس کے باوعث وہ ہندوستان کو آزادی دینے پہ رضا مند ہوگئے۔ قائداعظمؒ اور ان کے رفقاءکو بخوبی اندازہ تھا کہ برطانیہ کے ہندوستان سے انخلاءکے بعد ہندو حکمران بن جائیں گے اور مسلمان انگریزوں کے بجائے ہندﺅوں کی غلامی کے شکنجے میں جکڑ جائیں گے۔ اسی وجہ سے مسلم لیگ نے مسلمانوں کے لئے الگ وطن کا مطالبہ کیا جو بالآخر 14اگست 1947ءکو پورا ہوا۔ افسوس کہ برصغیر پاک وہند کے مسلمانوں کی آزمائش کا سلسلہ ختم نہیں ہوا۔ ریڈکلف کمیشن نے بھارت اور پاکستان کے درمیان سرحد کی لکیر کھینچنے میں بے ایمانیاں کیں۔ گردا سپور جو پہلے پاکستان کے حصے میں آنا تھا آخری لمحے میں بھارت کو دے دیاگیا جسکے نتیجے میں بھارت کو کشمیر تک جانے کازمینی راستہ مل گیا۔ 27 اکتوبر1947ءکو بھارت نے کشمیر پہ غاصبانہ قبضہ کرلیا اور پہلی کشمیر جنگ چھڑ گئی۔ ہندوستان کے مالی اور دفاعی اثاثوں کا بٹوارہ 64 اور34 فیصد کے تناسب سے بھارت اور پاکستان میں تقسیم ہونا تھا لیکن بھارت نے پاکستان کا جائز حصہ اسے دینے سے انکار کردیا۔ جس سے نوزائیدہ ملک کی آزمائشوں میں اضافہ ہوگیا۔14 اگست سے قبل ہی ہندوستان میں ہندومسلم فسادات شروع ہوگئے۔ ہندو اور سکھ بلواﺅں نے مسلمانوں کو چن چن کر قتل کرشروع کیا۔ مسلمانوں کے قافلے جو پاکستان اور آزادی کی جانب رواں ہوئے انہیں ہندو اور سکھ لٹیروں نے لوٹ لیا۔ مردوں کو قتل کیا گیا جبکہ عورتوں کے ساتھ زیادتی ۔ یہ لٹے پٹے قافلے جب پاکستان پہنچے تو انہیں بسانے کے لئے آزاد پاکستان کی حکومت کے پاس وسائل نہ تھے۔تقسیم ہند کی ہولنا کی کچھ کم ہوئیں تو شاعروں اور ادیبوں نے اپنے قلم اٹھائے اور جذبات و احساسات کو نظم اور نثر کے سانچے میں ڈھالا۔ فیض احمد فیض کی معرکة الآراءنظم ”صبح آزادی“ نے جیسے کہ ہمیں جھنجھوڑا کر رکھ دیا!
یہ داغ داغ اجالا، یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا ، یہ وہ سحر تو نہیں
یہ وہ سحر تو نہیں جسکی آرزو لے کر
چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں
فلک کے دشمن میں تاروں کی آخری منزل
کہیں تو ہوگا شب سست موج کا ساحل
پاکستان کی آزمائشوں میں کمی نہ ہوئی۔1965ءمیں بھارت کی فوجوں نے پاکستان پہ حملہ کردیا۔ ہماری بہادر افواج نے دلیری سے مقابلہ کرتے ہوئے سینکڑوں جانوں کی قربانی دے کرپاکستان کو بچالیا۔1971ءمیں بھارت کی سازشوں سے ہمارا مشرقی بازو ہم سے علیحدہ ہوگیا۔پاکستان کے72برس میں سے نصف مدت فوج نے منتخب حکومت کاتختہ الٹ کر اقتدار اپنے ہاتھ میں لے لیا جس کے باعث جمہوریت کو پنپنے کا موقع نہ ملا۔
گزشتہ دس برسوں سے جمہوری حکومتیںاقتدار میں ہیں لیکن ان رہنماﺅں نے بجائے ترقیاتی منصوبے لگانے کے سرکاری خزانے کو لوٹنے کا سلسلہ جاری رکھا اور اپنی تجوریاں بھرتے رہے۔1989ءمیں سوویت یونین نے افغانستان پہ قبضہ کرلیا اور اغلب تھا کہ سرخ فوج پاکستان کو بھی روندتی ہوئی پیٹر دی گریٹ کے خواب کو پورا کرنے کی خاطر بحیرہ ہند تک پہنچ جاتی۔ پاکستان نے امریکہ کی مدد سے سوویت یونین کاراستہ روکااور ایک طویل گوریلا جنگ کے بعد سرخ فوجRed Armyکوپسپائی پہ مجبور کردیالیکن پاکستان کو اسکی بھاری قیمت چکانی پڑی۔ امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے CIA اسلامی امت سے رضا کاروں کو جہاد کی خاطر پاکستان لے آئی ۔ افغان سرحد کے قریب دینی مدرسوں میں جہاد کی ترغیب دینے کے علاوہ ان مجاہدین کو گوریلا جنگ کی تربیت دی جاتی پھر اسلحے سے لیس کرکے سوویت یونین کی سرخ فوج کا مقابلہ کرنے کی خاطر افغانستان روانہ کردیا جاتا۔ سوویت یونین کی پسپائی کے بعد امریکہ اور سی آئی اے واپس ہوئے۔ کچھ غیر ملکی مجاہدین اپنے وطن سیدھا رے اور کچھ نے یہیں ٹھکانہ بنالیا۔جذبہءجہاد سے سرشار ان مجاہدین کو نئے اہداف کی تلاش تھی اسی ضمن میں9/11کے حملے ہوئے۔جوابی کاروائی میں امریکہ اور اسکے حلیفوں نے افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔پاکستان کوبادل نخواستہ امریکہ کا ایک مرتبہ پھر حلیف بننا پڑا جسکا ہمیں بھاری خمیازہ بھگتنا پڑا۔ ابتدائی کامیابی کے بعد امریکی فوجوں کوطالبان گوریلوں کے ہاتھوں بھاری اٹھانا پڑا۔2015ءدسمبر میں بیشتر امریکی اورنیٹو فوجوں کا انخلاءہوگیا لیکن مغرب نے اپنی نا کامیوں کا ذمہ دار پاکستان کوٹھہرایا کہ پاکستان دہشت گردی میں ملوث افغان طالبان کی پشت پناہی کررہا ہے اور انہیں محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرنے کے علاوہ ہتھیاروں سے لیس کررہا ہے۔ گو اس میں صداقت نہیں لیکن تحریک طالبان پاکستان وجود میں آئی جس نے پاکستان میں دہشت گردحملوں کا آغاز کیا۔ گزشتہ 11برسوں میں پاکستان کے70,000 سے زائد شہری ،فوجی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ارکان شہید ہوئے اور کروڑوں کا نقصان ہوا۔ ناقض منصوبہ بندی کے باعث ملک میں کوئی نیاڈیم نہیںبنانہ ہی پانی کو ذخیرہ کرنے کے انتظامات کئے گئے جسکی وجہ سے بجلی کی کمی اور پانی کی قلت کا بحران پیدا ہوگیا ہے۔ناخواندگی ،بے روزگاری، بیماری جیسے مسائل نے عوام کو پریشان کررکھا ہے۔سونے پہ سہاگہ یہ کہ گزشتہ حکمرانوں نے آئی ایم ایف ،عالمی بینک اور دوسرے اداروں سے کروڑوں کے قرضے حاصل کئے۔ترقیاتی منصوبوں پہ سرمایہ کاری کرنے کے بجائے یہ بھاری رقوم خردبرد کرکے کرپشن کی نذر ہوگئی ۔پاکستان یہ عالمی قرضے واپس کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ دوسری جانب پاکستان کا دائمی دشمن بھارت اسے مزیدغیر مستحکم کرنے کی سازش میں ملوث ہے۔ ایک جانب لائن آف کنٹرول پہ جنگ بندی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے۔ روزانہ گولہ باری کی جاتی ہے جسکے نتیجے میں عام شہری شہید ہورہے ہیں تو دوسری جانب بھارت بلوچستان اور فاٹا میں دہشت گردوں کو منظم کراکے بغاوت پہ اکسا رہا ہے۔پاکستان کے روائتی دوست اور حلیف چین نے پاکستان کو ترقیاتی منصوبوں کی مدد سے اپنی معاشی مشکلات دور کرنے کی خاطر چین۔ پاکستان اقتصادی راہداری کا منصوبہ شروع کیا اور مالی امداد بھی دینے کا وعدہ کررکھا ہے۔پاکستان ایک ایٹمی قوت بن چکا ہے جس کے باعث بھارت کو پاکستان کے خلاف کھلی جارحیت اختیار کرنے سے قبل سوچنا پڑے گا۔ یہ امرالگ باعث تشویش ہے کہ مغرب کو پاکستان کی ایٹمی قوت ایک آنکھ نہیں بھاتی اور وہ طرح طرح کے حیلے بہانے سے پاکستان کو اسکے ایٹمی اثاثوں سے محروم کرنا چاہتا ہے۔فیض احمد فیض اپنی نظم ”صبح آزادی“ کے آخری بند میں ہم پاکستانیوں کو امید کی کرن دکھاتے ہوئے کہتے ہیں۔
ابھی چراغ سررہ کوکچھ خبر ہی نہیں
ابھی گرانی شب میں کمی نہیں آئی
نجات دیدہ ودل کی گھڑی نہیں آئی
چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی
25 جولائی 2018ءکو عام انتخابات میں عوام نے پاکستان تحریک انصاف کے حق میں اپنا ووٹ ڈال کر ایک ایسی حکومت کی داغ بیل رکھی ہے جو ملک سے بدعنوانی کے لئے سرگرداں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ راشی اور چوررہنماﺅں کو پارلیمان میں جگہ نہیں ملی۔ عمران خان نے وعدہ کیا ہے کہ ملک سے ناخواندگی غربت اور افلاس کو ختم کیا جائےگا۔ نوجوانوں کو روز گارفراہم کیا جائے گا پانی اور بجلی کی کمی کے بحران کودور کیا جائے گا۔ یہ سب امید افزاءباتیںہیں ،سعودی گزیٹSaudi Gazette اخبار کے مدیر اعلیٰ خالدالمعینہ نے ایک مضمون میں انکشاف کیا ہے کہ پاکستان دنیا کے ان11ملکوں میں شامل ہے جو اکیسویں صدی کی سب سے بڑی معیشت بن کرابھریں گے۔گزشتہ پانچ برسوں میں پاکستان میں خواندگی کی شرح میں250فیصد اضافہ ہوا ہے۔ یورپی بزنس ایڈمنسٹر یشن کے 125ممالک کے سروے کے نتائج کے مطابق پاکستان کے عوام کا دنیا کے سب سے عقلمندلوگوں کی فہرست میں چوتھا نمبر ہے۔کیمبرج یونیورسٹی کے Oاور A لیول کے امتحانات میں گزشتہ کئی برسوں سے پاکستانی طالب علم اول پوزیشن حاصل کررہے ہیں۔ دنیا میں سائنس دانوں اور انجینئروں پہ مشتمل ساتواں سب سے بڑا گروپ پاکستان کا ہے اتنی ساری کامیابیوں کے ساتھ اگر اب تک فقدان تھا تو وہ لیڈر شپ کا تھا۔ امید ہے کہ عمران خان پاکستان کو اسکی حقیقی صلاحیت پرلے جائیں گے۔