بلاشبہ بحریہ کسی بھی ریاست کی سمندری پالیسیوں اور حدود کا دفاع کرتی ہے۔ سمندر تجارتی لحاظ سے سب سے اہم اور موثر ذریعہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ سالوں میں سمندری تجارت نے عالمی معیثت میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ 21ویں صدی کے آغاز میں "بلیو اکنامی " جیسے نظریے نے دنیا کو یہ باور کرانے میں اہم کردار ادا کیا کہ سمندری تجارت نہ صرف ملکی معیثت بلکہ دفاع سمیت موسمیاتی تبدیلیوں پر بھی خوشگوار اثر ڈالتی ہے۔ بلیو اکنامی کے نظریے کے بعد دنیا نے بحری تجارت اور یہاں سے حاصل ہونے والے دیگر فوائد کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی شروع کر دی تھی۔ بحری قزاقوں کے حملوںاورسمندروں کی صفائی ستھرائی سمیت اپنی اپنی بحری حدود کی سیکیورٹی کے لیے دنیا کی تمام بحری افواج کو جدید طرز پر استوار کر نے کی خاطر ان کے بجٹ میں خاطر خواہ اضافہ کیا گیا اور ان کو جدید آلات سے لیس کیا گیا تا کہ بدلتے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے موثر منصوبہ بندی کی جا سکے۔ پی این ایس یرموک اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جس کا افتتاح رواں سال فروری میں رومانیہ میں منعقدہ ایک پر وقار تقریب میں کیا گیا۔ پی این ایس یرموک جدید آلات سے لیس جنگی جہاز ہے جو متعدد آپریشن کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یرموک اپنی طرز کا پہلا جہاز ہے ۔ یرموک اور تبوک نامی دو پیٹرول ویسلز کا معاہدہ 2017 میں وزارت دفاع اور انٹرنیشنل کمپنی ڈیمن کے درمیان طے پایا تھا جس کے مطابق ڈیمن کمپنی پاک بحریہ کے لیے دو ویسلز بنا کر دینے کی پابند ہے۔ اس بات کی قوی امید ہے کہ یرموک کے بعد تبوک بھی جلد از جلد پاک بحریہ کی کمانڈ میں آجائے گی۔ اسی حوالے سے رومانیہ کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مہمان خصوصی وائس چیف آف نیول سٹاف وائس ایڈمرل محمد فیاض گیلانی کا کہنا تھا کہ یرموک پاک بحریہ کی جنگی صلاحیتوں میں زبردست اضافہ کرے گی۔ یرموک کی پاک بحریہ کے کیمپ میں موجودگی سے بحیرہ عرب کی سیکیورٹی صورت حال میں مثبت تبدیلی آئے گی۔ بحیرہ عرب کی سیکیورٹی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے موثر پیٹرولنگ اور مضبوط بحری افواج کی موجودگی ناگزیر ہے۔ چین کے بیلٹ اینڈروڈ انیشیٹو کے بعد سمندروں میں دفاعی تنصیبات کا رحجان بڑھ گیا ہے۔ سی پیک کے تحت بننے والے گوادر پورٹ کے آپریشنل ہونے کے بعد بلوچستان معاشی و سیاسی حب بننے کی پوزیشن میں آجائے گا۔ جس کی وجہ سے پاک بحریہ کا جنگی طور پر مضبوط ہونا اور سفارتی طور پر فعال ہونا نہایت ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پی این ایس یرموک کے فلیٹ میں شامل ہونے کے بعد پاک بحریہ کی جانب سے رومانیہ اور ترکی سے اشتراک کیا گیا جس میں دونوں ممالک کے ساتھ برادرانہ تعلقات کو فروغ ملا۔ بلاشبہ پاک بحریہ خطے کی سیکیورٹی اور سیاسی ڈگمگاتی صورت حال کو سنبھالنے کی پوری صلاخیت رکھتی ہے جس کے لیے حکومت کی 'افریقہ پالیسی' کا دارادمدار پاک بحریہ تھی جس نے افریقی ممالک سے تعلقات بہتر بنانے کے لیے متعدد خیر سگالی کے دورے کیے۔ اس کے علاوہ اگر بلیو اکنامی کی بات کی جائے تو۔ بلیو اکنامی سے مراد سمندری راستے سے کی جانے والی تجارت اور اس سے متعلق فوائد ہیں۔ بنیادی طور پر بلیو اکنامی سمندروں اور دریاوں کے ذریعے بین الاقوامی تعلقات کو قائم رکھنے کے ساتھ ساتھ مختلف صنعتوں اور شعبوں کے لیے بھی فائدہ مند ہے۔ اس سب کو ممکن بنانے کے لیے پاک بحریہ کی استعداد کار میں اضافہ کرنے کی ضرورت ہے تا کہ مستقبل کے روایتی اور غیر روایتی خطرات کا تدارک کیا جا سکے۔ پی این ایس یرموک کی موجودگی سے نہ صرف پاکستان بلکہ خطے کی سیکیورٹی و سیاسی صورتحال میں بھی مثبت تبدیلی آئے گی۔ اس ضمن میں ملکی و معاشی صورتحال کو بہتر بنانے میں پاک بحریہ کی کاوشیں قابلِ تعریف ہیں۔ یرموک کے بحری بیڑے میں باقاعدہ شامل ہونے کی تقریب گزشتہ روز کراچی میں منعقد ہوئی جس سے خطاب کرتے ہوئے نیول چیف ایڈمرل ظفر محمود عباسی کا کہنا تھا کہ بحری بیڑے مین جدید کارویٹ کی شمولیت پاکستان کے سمندری مفادات کے تحفظ کے لیے پاک بحریہ کی طاقت کو بڑھانے میں نمایاں کردار ادا کرے گی۔ یہ جہاز پاک بحریہ کے ریجنل میری ٹائم سیکیورٹی پیٹرول کے اقدامات کے ذریعے خطے مییں پائیدار بحری توازن قائم کرنے میں اہم کردار ادا کرے گا۔ انہوں نے بھارتی مظالم کے خلاف کشمیریوں کی جدو جہد کی تعیر بھی کی۔ اس کے علاوہ کراچی شپ یارڈ میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کرونا کے خلاف جنگ لڑنے والے ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل سٹاف کی کوششوں کو بھی خراج تحسین پیش کیا۔ پی این ایس یرموک جدید سنسسرز اور ہتھیاروں پر مبنی سیلف پروٹیکشن اور ٹرمینل ڈیفنس سسٹم سے لیس جدید ترین جنگی جہاز ہے جو امن اور جنگ دونوں صورتوں میں بیک وقت کئی کردار ادا کرنے کی مکمل صلاحیت تکھتا ہے۔ بلاشبہ پی این ایس یرموک کی بحری بیڑے میں موجودگی سے پاک بحریہ کی جنگی صلاحیتوں میں خاطر خواہ اضافہ ہو گا۔ پی این ایس یرموک جیسے لاتعداد صلاحیتوں کے حامل جہاز کے بحری بیڑے میں شمولیت سے بحیرہ عرب کی سیکیورٹی استحکام میں بھی مدد ملے گی۔ یرموک کی موجودگی سے سمندری تجارت میں پیدا شدہ خلل اور دشمن سے برابری کی بنیاد پر بات چیت کرنے کی نئی راہیں بھی کھلیں گی۔ اس طاقت ور بحری جہاز کی موجودگی سمندروں میں پاک بحریہ کے پروفیشنلزم کا منہ بولتا ثبوت ہو گا۔