پوٹھوہار کا مقتل 

قتل ہونے والے خاندان کے نوجوانوں نے بتایا کہ خاندانی دشمنی کا سلسلہ اگرچہ بہت پرانا ہے لیکن خواتین پر اسلحہ اٹھانے کا یہ پہلا واقعہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پہلے صرف مردوں کو ہی نشانہ بنایاجاتا تھا لیکن اب اس میں خواتین اور بچوں کا عنصر بھی شامل ہوگیا ہے۔ بعض نے یہاں تک دعویٰ کیا کہ قتل ہونے والے بچوں میں معذور بھی تھے۔ اب یہ خدشہ ظاہر کیاجارہا ہے کہ بدلے کے طورپر دوسری طرف بھی بچوں اور عورتوں کا قتل ہونے کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔ اب عورتیں اور بچے بھی محفوظ نہیں رہے۔ 
اندازہ کریں کہ قاتل رب نواز اشتہاری تھا۔ عبوری ضمانتیں کرائیں۔ جس وقت یہ واردات اس نے اپنے بیٹے اور دیگر کے ہمراہ انجام دی، اس وقت مقتول خاندان کے افراد کی اکثریت اپنی ضمانتوں کے لئے کچہریوں میں بھٹک رہی تھی۔ علاقے میں عوام کی ’’جان ومال اور عزت وآبرو‘‘ کے محافظ ’’سی پی او‘‘ کا دعویٰ ہے کہ مرکزی ملزم دانش اور اکرام کے علاوہ مرکزی ملزم رب نواز کے بھائی اشرف اور بھتیجے عاقب کو بھی گرفتار کرلیاگیا ہے۔ دانش نے اعتراف کرلیا ہے کہ اس نے اپنی والدہ کے قتل کا بدلہ لینے کے لئے یہ قتل کئے ہیں۔ پندرہ نامزد اور دس نامعلوم افراد کے خلاف ایف آئی آر درج ہے جس میں مرکزی ملزم رب نواز مفرور ہے۔ 
ہمارے ’’اخباریوں‘‘ کی روایتی ’’محررانہ رپورٹنگ‘‘ کے مطابق ’’ا طلاع ملتے ہی سی پی او محمد احسن یونس پولیس کی بھاری نفری کے ہمراہ علا قے میں پہنچ گئے۔‘‘ جس پر اس دل چھلنی کردینے والے واقعہ کے باوجود بے اختیار ہنسی چھوٹ گئی۔ پولیس کے ’’حکام بالا‘‘ کو ’’اعتمادمیں نہ لینے‘‘ اور ’’بھاری نفری کے ہمراہ موقع پر پہنچ گئے‘‘، واردات کے بعد ’’علاقے کو گھیرے میں لے لیا‘‘، ’’علاقے بھر میں سرچ آپریشن شروع‘‘ اقسام کی خبروں کا پوسٹ مارٹم جنت آشیانی پیارے سید والا تبار عباس اطہر فرمایا کرتے تھے۔ وہ پولیس، جرائم اور انصاف کے قتل عام کے وہ ماہر سرجن تھے جن کے نشتر وردیوں میں ملبوس ’قاتلوں‘ کو نہایت اذیت دیتے رہے۔ اپنی آخری سانس تک ان کا قلم پولیس گردی کے خلاف تلوار بنا رہا۔ 
’’ازاقسام بالا‘‘ کارروائیاں دراصل آج کے ’’سی۔ایس۔ایس‘‘ کا ’’جنازہ‘‘ سمجھیں۔ تعلیم اور کردار کا جو حشر اس وقت ہوچکا ہے ، وہ کبھی کبھار اخبارات میں شائع ہونے والے سی ایس ایس کے پرچوں میں دئیے جانے والے جوابات سے خوب لگایاجاسکتا ہے۔پولیس نے عوام کو یہ ’’فرما‘‘ کر مطمئن کردیا کہ ’’120 اشتہاری ملزمان کی فہرست مرتب کرلی گئی ہے۔‘‘ترجمان راولپنڈی پولیس نے ’’فرمایا‘‘ کہ ’’ابتدائی تحقیقات کے مطابق فائرنگ کا واقعہ امتیاز گروپ اور رب نواز گروپ کے درمیان پیش آیا اور تنازع کی وجہ چند روز قبل میال گائو ں میں رب نواز گروپ سے تعلق رکھنے والی خاتون کا قتل اور دونوں گروپوں کے مابین زمین کے معاملے پر دیرینہ دشمنی ہے۔‘‘
واقعے کے بعد ’’سی پی او راولپنڈی احسن یونس نے ایلیٹ کمانڈوز کو موقع پر روانہ کیا اور سینیئر افسران کے ہمراہ خود بھی موقع پر پہنچے۔‘‘ اس اطلاع میں یہ وضاحت نہیں تھی کہ ہمارے عظیم ’’سی پی او صاحب کمانڈوز سے پہلے موقع پر پہنچ گئے تھے یا پھر پہلے روانہ کردہ ایلیٹ کمانڈوزکے بعد۔‘‘ پولیس ترجمان نے یہ ’’فرما کرہمیں مزید اطمینان‘‘ دلایا کہ ’’علاقے کا محاصرہ کر کے ملزمان کی تلاش کے لیے سرچ آپریشن کیا جارہا ہے۔‘‘
ہمیشہ کی طرح وزیر اعلیٰ سردار عثمان بزدار صاحب نے بھی واقعہ کا نوٹس لے لیا۔ انہوں نے ’’سی پی او راولپنڈی ’صاحب‘ کو ’’خود‘‘ موقع پر پہنچنے کی ہدایت ’فرمائی۔‘‘ یہی عنایت کیا کم تھی کہ جناب ’آئی جی پنجاب صاحب‘ نے بھی ’کرم نوازی فرمائی‘ اور واقعے کا ایک اور نوٹس لیا۔
’ایس۔ایچ۔او‘ بھتہ جمع کریں اور ’اگرائی‘ پر مامور ہوں، ’’حکام بالا‘‘ سے قلم کار تک سب کو ’’اعتماد‘‘ میں لیاجاتا ہو، ظالم کی ’جیب‘ سوٹیوں، ہتھوڑوں، زبانوں اور قلم سے زیادہ مضبوط ہو توسبق ایک ہی ہے کہ معاشرے کا ’’آئیڈیل‘‘ قاتل، قبضہ مافیا، رسہ گیر، منشیات فروش اور شربت فروش ہیں۔ بے نظیر سے لے کر ’مجھے کیوں نکالا فیم‘ تک سب معاشرے کے سیاہ کرداروں کے ڈیروں سے فیض یاب ہوتے ہوں تو معاشرے کا اصل قتل یہ ہے۔ اصل قاتل مفرور اور اشتہاری نہیں بلکہ ایسے کردار ہیں جن کی وجہ سے ظلم زندہ رہتا ہے۔ نیلور میں بھی اسی نوع کا واقعہ ہونے پر میں کچھ کہوں گا تو یہ ’’قومی مفاد‘‘ کو خطرے میں ڈال دے گا۔ عقل مند کے لئے اشارہ کافی ہوتا ہے۔ ایسے حالات میں لوگ کہیں کہ طالبان کا نظام ٹھیک ہے تو یہ انتہاء پسندی ہوگی؟؟؟ (ختم شد)

ای پیپر دی نیشن