آج سے کوئی بیس برس پہلے کا واقعہ ہے ایک شام میں اپنے آفس سے گھر پہنچا تو امی نے بتایا ’’ بھلوال سے تمہارے دوست طاہر کا فون تھا وہ رات کو دوبارہ فون کرئے گا‘‘۔یہ اطلاع میرے لئے کسی خوشگوار حیرت سے کم نہیں تھی اپنے تئیں میں اس دوست کوایک عرصہ پہلے ہمیشہ کے لئے کھو چکا تھا۔ طاہر اور میں دسویںجماعت تک ایک ساتھ پڑھتے رہے ہیں ۔بچپن میں میرے جتنے بھی دوست تھے ان سب سے زیادہ شیطان یہی گول مٹول طاہر تھا جسے ہم سب دوست لاڈ پیا ریا چڑانے کے لئے ’’مدرو گُٹکا‘‘ کہتے تھے۔ طاہر کا یہ نام سکول کے’’ خواص و عام‘‘ میں اس قدر مقبول تھا کہ ہر کوئی اُسے زیادہ تر اسی نام سے پکارتا تھا ۔مزے کی بات یہ ہے کہ وہ اسے ’’مائنڈ‘‘ بھی نہیں کرتا تھا۔ وہ خود بھی اپنے اس ’’خطاب‘‘سے اس قدر مانوس ہوچکا تھا کہ جب تک اسے ’’مدرو گُٹکا‘‘ کہہ کر مخاطب نہ کیا جاتا وہ متوجہ ہی نہیں ہوتا تھا۔ آج مجھے یہ سوچ کر حیرانی ہوتی ہے کہ یہ خود کو اپنی فیملی میںکیسے ’’ایڈجسٹ‘‘ کرتا ہوگا جب وہ اسے طاہر کہہ کر پکارتے ہونگے۔طاہر کے بڑے پن کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اپنی اس ’’چھیڑ‘‘ کو وہ صرف اُس وقت ’’مائنڈ‘‘ کرتا تھا جب کوئی اُس کا یہ نام بطورِ خاص اُسے چڑانے کے لئے لیتا تھا۔باوجود اس کے کہ’’ مدرو گُٹکا‘‘ مجھ سے ایک جماعت سنئیر تھا میری اور اس کی بڑی گُوڑی یاری تھی جو پورے سکول میں ’’ ٹِچ بٹنوں‘‘کے نام سے معروف تھی۔ ہماری دوستی کااصل سبب ہمارا لاابالی پن،شوخیاں، شرارتیں اور پڑھائی میں عدم دلچسپی تھی جس کی وجہ سے استادوں سے آئے روزہماری خاصی تواضع بھی ہوتی تھی ۔ ہمارے مشترکہ مشاغل میں ہم جماعت لڑکوں کے اُلٹے سیدھے نام رکھنا، سکول سے بھاگ کر سینما میں فلمیں دیکھنا، کرکٹ کھیلناِ، کینو کے باغ سے چوری کینو توڑنا، تپتی دوپہرمیںسائیکل پر آوارہ گردی کرنااورنہر میں نہانا وغیرہ شامل تھا۔ مختصر یہ کہ وہ اُلٹے سیدھے کام یا شغل جو اکثربچے اپنے کالج دور میں کرتے ہیں ہم نے اپنے سکول دور میں ہی کر لئے تھے۔طاہر کا تعلق شیخوں کی ایک ایسی فیملی سے تھا جن کا شہر میں کپڑے کا بڑا تگڑا کاروبار تھا اس لئے میٹرک کے بعد انہوں نے اسے مزید آگے پڑھانے کی بجائے اپنی کپڑے کی دکان پر بٹھا دیا۔اس دوران اُس کے دو موٹے تازے بڑے بھائی خاص طور پر اس کی کڑی نگرانی کرتے تھے تاکہ وہ اپنی شرارتوں کے برعکس بھرپور سنجیدگی سے کاروبار میں دلچسپی لے ۔مگر اس کڑی نگرانی کے باوجود جب بھی موقع ملتا اس کے بھائیوں کی غیر حاضری میں ہم دونوں دوست دکان میں گاہکوںکی موجودگی کی پرواہ کیے بغیر خوب گپ شپ اور شوخیاں کرتے ۔ جس کی شکایت اس کے بھائیوں تک پہنچ گئی جس پر نہ صرف اس کی اچھی خاصی ٹُھکائی ہوئی بلکہ اس کے بعد انہوں نے اسے اصلاح کی غرض سے کچھ عرصہ کے لئے ایک مخصوص دینی جماعت کے سپرد بھی کردیاجس کے بعدچھ سات ماہ تک طاہر مجھے دکان پر نظر نہیں آیا ۔ پھر ایک دن وہ مجھے دوبارہ اپنی دکان پر دکھائی دیا مگریہ وہ طاہر ہرگز نہیں تھا جو میرا جگری یار تھا۔ میرے سامنے ایک ہنستے مسکراتے،شوخ ،شرارتی اور زندگی سے بھرپور کلین شیو لڑکے کی بجائے سر پر سفید عمامہ رکھے اور ٹخنوں سے اونچی شلوار باندھے ایک لمبی گھنی داڑھی کے ساتھ سنجیدہ چہرے والا کوئی اجنبی شخص تھا۔ سچی بات ہے اپنے دوست کو اس روپ میں دیکھ کرمجھے لگا جیسے میرا ایک زندہ دل دوست ہمیشہ ہمیشہ کے لئے مجھ سے چھن گیا ہے۔ اس کے کچھ عرصہ بعد ہم لاہور شفٹ ہوگئے جس کے دس گیارہ برس بعد طاہر نے مجھ سے فون پر دوبارہ رابطہ کیا تھا جس کی مجھے بے حد خوشی تھی ۔اُس کی آواز میں وہی پرانی شوخی،شرارت اور والہانہ پن تھا جو اس کے مزاج کا حصہ تھا ۔ اگلے روز میں بڑی بے چینی سے اس کے بتائے ہوئے ایڈریس پراُسے ملنے پہنچا تو ایک طرف جہاں اتنے عرصہ بعد اپنے دوست کو ملنے کی خوشی تھی وہاں اُسے دوبارہ کلین شیو دیکھ کر قدرے حیرت اور تاسف بھی ہوا ۔حال احوال سے فارغ ہوئے تو میں نے اسکے بدلے ہوئے حلیے کے حوالے سے پوچھا’’یا شیخ یہ کیا ماجرا ہے؟‘‘اس نے ہنستے ہوئے کہا’’ ٹارزن کی واپسی‘‘ میں نے کہا ’’میں سمجھا نہیں‘‘ کہنے لگا ’’یار اتنے اتاولے کیوں ہو رہے ہو پہلے یہ بتائو کیا پیو گے‘‘ میں نے کہا ’’چائے یا کولڈ ڈرنک جو بھی آسانی سے مل جائے‘‘ اس نے ایک شوخی سے کہا ’’ لگتا ہے بچہ ابھی تک بڑا نہیں ہوا‘‘ ۔