اسلام آباد(وقائع نگار)اسلام آبادہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ کی عدالت نے وفاقی دارالحکومت کے چڑیا گھر میں جانوروں کی ہلاکت کیس میں وزیر مملکت موسمیاتی تبدیلی زرتاج گل،وزیراعظم کے معاون خصوصی ملک امین اسلم، سیکرٹری موسمیاتی تبدیلی ناہید درانی اوراسلام آباد وائلڈلائف مینجمنٹ بورڈ کے ممبران کو توہین عدالت کے شوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا۔گذشتہ روز سماعت کے دوران چیف جسٹس نے استفسارکیاکہ رپورٹ کیا ہے اور ایف آئی آر کا کیا بنا؟ جس پر ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہاکہ سیکرٹری خود انکوائری کررہی ہے،چیف جسٹس نے کہاکہ سیکرٹری کیسے اپنے خلاف انکوائری کرے گی،سیکرٹری صاحبہ یہ صرف جانوروں کا قتل نہیں ہے،پچھلے سال کتنے زرافہ چڑیاگھر لائی گئی اور کہاں ہیں وہ،یہ کیس ایک مثال ہوگا،جانوروں پر انسانوں کے ظلم کی داستان ہے یہ، چیف جسٹس نے سیکرٹری سے کہاکہ آپکی وزارت کو جانوروں کا لانا بھی بند کرنا چاہیے،آپ نے ہی اپنی وزارت کو بتانا ہے، کہ قدرت کی پیداوار ہے،عدالت کو اچھا نہیں لگتا کہ بار بار آپ کو یہاں بلائیں،جو اچھا ہوتا ہے ہر ایک کریڈٹ لینا چاہتا ہے،جب باہر سے تعریف انا شروع ہوجائے تو سب چڑیاگھر جاتے ہیں،جب بات زمہ داری کی آتی ہے تو کوئی بھی زمہ داری کو تیار نہیں،آپکی تو وزارت اس معاملے کو حل نہیں کرنا چاہتی،اللہ تعالیٰ نے اپنے کائنات کی تحفظ کے لیے ہی انسان کو بنایا ہے، سیکرٹری موسمیاتی تبدیلی نے کہاکہ میں واقعے کی تمام ذمہ داری قبول کرتی ہوں کابینہ ارکان کا کوئی تعلق نہیں،جس پر چیف جسٹس نے کہاکہ کابینہ نے وائلڈ لائف بورڈ کی منظوری دی تھی زمہ دار بھی وہ ہیں،جب کریڈٹ لینے کی باری تھی تو سب چڑیا گھر کا دورہ کر رہے تھے،جب کچھ غلط ہوا تو سب نے کہا ہمارا تعلق ہی نہیں ہے،انٹرنیشنل کنونشنز انسانیت اور جانوروں کے تحفظ کے لیے ہیں،کیا آپ کو معلوم ہے کہ 40 زرافے امپورٹ ہوئے اور وہ سارے کے سارے مر گئے، جانوروں کی امپورٹ پر پابندی ہونی چاہئے، چیف جسٹس نے کہاکہ لوگوں نے گھروں میں شیر تک رکھے ہیں، یہ جانور شو کرنے کے لیے نہیں ہے،عدالت کی طرف سے شوکاز نوٹسز پرڈپٹی اٹارنی جنرل کی شوکاز نوٹس جاری نہ کرنے کی استدعاکی جسے عدالت نے مسترد کردیا، درخواست گزار وکیل نے کہاکہ کچھ وجوہات کی بنا پر میں اپنا وکالت نامہ واپس لے رہا ہوں، عدالت نے ڈپٹی اٹارنی جنرل سے وائلڈ لائف منجمنٹ بورڈ کے تمام ممبران کے نام عدالت کو دینے کی ہدایت کی اس موقع پر سیکرٹری ماحولیاتی تبدیلی نے کہاکہ واقعے سے متعلق ہم پچھلے چھ دنوں سے مسلسل انکوائری کررہے ہیں،عدالتی احکامات کے تناظر میں ہماری انکوائری جاری ہے،ہم عدالت کو تحریری جواب جمع کرنا چاہتے ہیں،پچھلے ایک سال میں 50 فیصد جانور چڑیاگھر میں موجود نہیں،اگر ہم وزارت قانون کے آرڈر نہ مانے تو عدالت کوئی احکامات جاری کرے،چیف جسٹس نے کہاکہ شروع سے ہی یہ عدالت دیکھ رہی کہ یہاں پر سیاست بہت ہیں،منتخب نمائندہ کسی بھی بورڈ میں شامل ہوسکتے ہیں،قانون میں منتخب نمائندے کو کسی بھی بورڈ سے باہر رکھنے کا نہیں کہا گیا،آپ ضرور انکوائری کرے مگر عدالتی احکامات کی خلاف ورزی کی گئی،آپ تو بدقسمتی سے وزیراعظم کو بھی اس معاملے میں لانا چاہ رہے ہیں، چیف جسٹس نے کہاکہ کیا آپ کے کہنے پر 2015 اٹھاؤں اور وزیراعظم کو اس معاملے کا ذمہ دار قرار دے دوں؟وزیراعظم کو تو معلوم بھی نہیں ہو گا کہ اس معاملے میں کیا ہوا،کیا آپ چاہتی ہیں کہ یہ عدالت وزیراعظم کو شوکاز نوٹس جاری کرے،اس معاملے پر تو وزیراعظم کو یہ پتہ ہی نہیں کہ ہو کیا رہا ہے، عدالت وائلڈ لائف منجمنٹ بورڈ کے ممبران شوکاز نوٹس جاری کرے گی،وائلڈ لائف منجمنٹ بورڈ کے ممبران کو تحریری جواب جمع کرانے دیں،سیکرٹری موسمیاتی تبدیلی نیکہاکہ وزارت قانون نے رائے دی کہ کابینہ کا کوئی رکن اسلام آباد وائلڈ لائف بورڈ مینجمنٹ کا ممبر نہیں ہو سکتا،چیف جسٹس نے کہاکہ وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ کا نوٹی فکیشن کیا گیا جس کی کابینہ نے منظوری دی،کابینہ کی منظوری کے بعد نوٹیفکیشن کے عدالتی فیصلے کا بھی حصہ بنایا گیا، توہین عدالت کا شوکاز نوٹس جاری کر رہے ہیں، بورڈ ممبر جو کہنا چاہتے ہیں وہ تحریری جواب میں بتائیں،عدالت نے مذکورہ بالا اقدامات کے ساتھ سماعت27 اگست تک ملتوی کردی۔