کرنٹ لگنے سے ہلاکت ہوئی تو مقدمہ سی ای او ، کے الیکٹرک حکام پر ہوگا: چیف جسٹس

کراچی (سٹاف رپورٹر) سپریم کورٹ نے غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ پر حکم نامہ جاری کر دیا۔ کرنٹ لگنے کے واقعات کا مقدمہ سی ای او کے الیکٹرک سمیت تمام حکام کیخلاف درج ہوگا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ کو لوڈ شیڈنگ کیلئے نہیں لایا گیا تھا، ہم کچھ نہیں جانتے، ہم لوڈ شیڈنگ برداشت نہیں کریں گے۔ چیف جسٹس نے کے الیکٹرک لائسنس کی معطلی کا عندیہ دے دیا۔ چیئرمین نیپرا سے کہا بتایا جائے اس کا متبادل کیا ہے۔ توصیف فاروقی نے کہا ہمیں قانون نے کے الیکٹرک کے لائسنس کی تجدید نہ کرنے کا اختیار دے دیا ہے، صورت حال دیکھ کر عدالت کو آگاہ کیا جائے گا۔ کے الیکٹرک کو 200 ملین تک کا جرمانہ بھی کرسکتے ہیں۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ کراچی والوں کی بجلی بند کرنے پر جتنا جرمانہ لگتا ہے لگائیں، کرنٹ سے مرنے والوں کے تمام مقدمات میں سی ای او کے الیکٹرک کا نام شامل اور ای سی ایل میں ڈالا جائے۔ کے الیکٹرک کے وکیل نے لوڈشیڈنگ کی وجہ بجلی چوری کو قرار دیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اب تک بجلی چوروں کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی، کراچی میں ایک منٹ بھی بجلی بند نہیں ہوگی، ہوگی تو آپ کے گھروں اور دفاتر کی ہوگی۔ سی ای او کے الیکٹرک نے کہا دس سال میں ڈھائی ملین ڈالر کی انویسٹمنٹ کی ہے، ادارہ نقصان میں جا رہا ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے نقصان میں جا رہا ہے تو جائیں آپ یہاں سے، لوڈشیڈنگ برداشت نہیں کی جائے گی۔ مونس علوی نے میڈیا سے گفتگو میں کہا عدالتی فیصلے پر عمل ہوگا۔ عدالت نے سماعت 13 اگست تک ملتوی کرتے ہوئے کے الیکٹرک سے تفصیلی جواب طلب کر لیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کے الیکٹرک کو مشکلات ختم کرنے کے لیے بلایا تھا لیکن کے الیکٹرک نے مشکلات میں 100 فیصد اضافہ کیا۔ یہ سب سے سستا اور ناقص مٹیریل استعمال کر رہے ہیں جبکہ سارا منافع باہر لے کر جارہے ہیں، سٹیٹ بینک کو کہیں گے کہ ان کو منافع باہر لیکر جانے نہ دیں۔ اسی دوران چیف جسٹس نے سی ای او کے الیکٹرک سے مکالمہ کیا کہ 2023 میں لوڈ شیڈنگ ختم ہوجائے گی، آپ کو یہ بیان دیتے ہوئے شرم نہیں آئی؟۔ جس پر سی ای او کے الیکٹرک نے کچھ کہنے کی کوشش کی تو چیف جسٹس نے کہا کہ کسی تقریر کی اجازت نہیں دی جائے گی، آپ اپنا کام کریں، ہم نے جتنا اعتبار کرنا تھا کر چکے۔ دوران سماعت شہر قائد میں کرنٹ لگنے سے ہونے والی ہلاکتوں کے معاملے پر عدالت نے کہا کہ جتنی بھی ہلاکتیں ہوئیں سب میں سی ای او کے الیکٹرک کا نام شامل کیا جائے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سی ای او کے الیکٹرک کا نام ای سی ایل میں ڈالا جائے اور کے الیکٹرک کا تفصیلی آڈٹ کروایا جائے، کے الیکٹرک نے کتنی تار لگائے ہر قسم کا مکمل حساب لیا جائے۔ کے الیکٹرک نے کراچی میں کچھ بھی نہیں کیا، پورے کراچی میں ارتھ وائر کاٹ دی ہیں، ان کے خلاف قتل کے کیس بنائیں، ساری انتظامہ کے خلاف مقدمہ دائر کریں، جہاں جہاں غفلت ہے مقدمات درج کیے جائیں۔ کسی بھی علاقے میں ایک منٹ بھی بجلی بند کریں تو نیپرا فوری نوٹس لیں۔گزشتہ رات میں کراچی آیا، شارع فیصل کی پوری لائٹس بند تھیں، علاقے میں پورا اندھیرا تھا، لوگ گھروں سے باہر بیٹھے تھے۔ چیف جسٹس نے سی ای او کے الیکٹرک مونس علوی کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ آپ لوگ صرف باتیں کرتے ہیں، کام نہیں کرنا، تمام وصولیاں کراچی والوں سے کرلی گئی ہیں، کے الیکٹرک کا مکمل آڈٹ ہونا چاہیے تاکہ پتا چلے کہ کیا کمایا اور کیا حاصل کیا۔ کے الیکٹرک کی انتظامیہ بہت خراب ہے، یہ لوگوں کو اشتعال دلا رہے ہیں۔ اس پر چیئرمین نیپرا نے موقف اپنایا کہ جب بھی ان کے خلاف کارروائی کرتے ہیں تو یہ عدالت سے حکم امتناعی لے لیتے ہیں، ان پر ڈیڑھ کروڑ15 ملین کا جرمانہ کیا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ملین نہیں بلین (اربوں)کا جرمانہ کریں یہ لوگ تو ٹریلین (کھربوں) کما رہے ہیں۔ جس پر چیئرمین نیپرا نے کہا کہ ہم کوئی متبادل لانے کی کوشش کرتے ہیں تو یہ حکم امتناعی لے لیتے ہیں، اس پر چیف جسٹس نے یہ کہا کہ ہم تمام حکم امتناع ختم کردیتے ہیں۔ ساتھ ہی عدالت نے یہ بھی پوچھا کہ ابھی جو 21 لوگ مرگئے اس کا ذمہ دار کون ہے؟ جس پر وکیل کے الیکٹرک نے کہا کہ لوگ گھروں کے اندر مرے ہیں، اس پر چیف جسٹس ریمارکس دیے کہ یہ تمام وضاحتیں غلط ہیں، بجلی کیا سڑکوں پر چلتی ہے۔ پاکستانی لوگوں کو کچرا لوگ کہتے ہیں، جیسے آپ کے مالکان آپ سے برتائو کرتے ہیں آپ بھی کراچی والوں کو غلاموں کی طرح ٹریٹ کرتے ہیں۔عدالت نے کے الیکٹرک کی جانب سے سرمایہ کاری کے دعوے پر کہا کہ جتنی آپ نے سرمایہ کاری کی ہے اس سے زیادہ نقصان کیا ہے، پتا ہے جب بجلی بند ہوتی ہے تو چھوٹے گھروں میں کیا حال ہوتا ہے؟ عورتیں دہائی دیتی ہیں ان کا احساس ہے آپ کو؟ اس پر سی ای او نے کہا کہ کراچی سے جتنا پیسا کماتے ہیں لگا دیتے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کے الیکٹرک والے پوری دنیا میں ڈیفالٹر ہیں، لندن میں آپ کے ساتھ کیا ہوا؟ وہاں تو آپ لوگوں کو گرفتار کیا گیا اور گردن سے دبوچ کر پیسے لیے گئے۔ انہو ںنے تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ اچھی طرح بات سن لیں کراچی کی بجلی بند نہیں کریں گے، بجلی بند کرنی ہے تو اپنے دفتر کی کریں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ بجلی کی کمپنی چلانی ہے تو ٹھیک سے چلائیں۔اس پر کے الیکٹرک کے عہدیدار نے جواب دیا کہ میں خود کراچی کا ہوں یہیں پیدا ہوا ہوں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ (یہاں پیدا ہوئے ہیں) اور کراچی والوں کی زندگیوں کو تباہ کر رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ میں نے بھارت کے کیسز کی سٹڈی کی ہے وہاں بورڈ ایسی کمپنیز کو ٹیک اوور کرلیتا ہے، انہوں نے سارا انفراسٹرکچر تبدیل کردیا ہے، وفاق بھی ان کو بجلی دیتا ہے خود بھی پیدا کرتے ہیں۔ یہاں سے پیسہ کما کر پوری دنیا میں سرمایہ کاری کرتے ہیں، جس پر سی ای او کے الیکٹرک نے کچھ بات کرنے کی کوشش کی تو عدالت نے انہیں روک دیا اور کہا کہ یہاں تقریر مت کریں۔یہ لوگوں کی جان نکال کر عدالتوں سے حکم امتناعی لے لیتے ہیں، حکومت میں ان کی لابی چلتی ہوگی لیکن عدالت میں ان کی کوئی لابی نہیں چلے گی۔بعدازاں عدالت میں کے الیکٹرک کے سی او نے یہ بتایا کہ 2010 میں لائن لاسز 42 فیصد تھے جو کم ہوکر 26 فیصد رہ گئے ہیں۔عدالت نے چیئرمین نیپرا کو یہ ہدایت کی کہ کے الیکٹرک کو مکمل طور پر مانیٹر کریں، چیف جسٹس نے کہا کہ ہم بجلی بنانے کے دوسرے طریقوں پر کام کیوں نہیں کرتے؟، گاؤں، دیہات میں لوگوں نے سولر پلیٹیں لگا لی ہیں، لوگ کہاں سے کہاں پہنچ گئے ہیں، سمندر زمین کی گرمی سے بجلی پیدا ہوتی ہے لیکن یہاں بجلی نہ ہونے سے ہماری صنعت بیٹھ گئی ہے۔سماعت میں چیف جسٹس نے کہا کہ بجلی بند کرنے کے بارے میں آپ کیا کہیں گے، آپ کو اس لیے نہیں لایا گیا کہ آپ یہاں لوڈ شیڈنگ کریں، آپ کو جتنی بجلی درکار ہے آپ خریدیں۔جس کے جواب میں سی ای او نے کہا کہ ہم لوڈشیڈنگ نہیں کرتے، سپلائی کے اندر شارٹ فال ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کراچی تجارتی شہر ہے یہاں پر تو لوڈ شیڈنگ بالکل بھی نہیں ہونی چاہیے۔اگر کوئی پیسے نہیں دیتا تو آپ صرف اس کے گھر کی بجلی بند کریں، آپ کو یہ اختیار نہیں کہ آپ کالونی کی بجلی بند کردیں۔ہم اوپر ہوائی جہاز سے دیکھتے ہیں تو پورا شہر اندھیرے میں ڈوبا ہوتا ہے، جہاں میں رہتا ہوں وہاں روزانہ 5 گھنٹے بجلی جاتی ہے، اس پر سی ای او نے کہا کہ میں ابھی چیک کرواتا ہوں، جس پر کمرہ عدالت میں قہقہے گونج اٹھے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ آپ شارٹ فال کور کرنے کیلئے بجلی پیدا کریں۔ لوگوں کے پاس بجلی ہے نہ پانی، عجیب حال ہے، جب گھر میں سکون نہیں ہوگا تو کیسے لوگ خود کو قرنطینہ کریں گے۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...