بلٹ پروف شیشہ پتھر سے نہیں ٹوٹ سکتا، مجھے جانی نقصان پہنچانے کی کوشش تھی: مریم نواز

لاہور/ اسلام آباد ( نیوز رپورٹر/ وقائع نگار خصوصی) پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نوازشریف نے انکشاف کیا ہے کہ کسی الزام کے بغیر جاری ہونے والے نیب کے مبہم نوٹس کے ذریعے نیب دفتر بلانے کے پیچھے ایک منظم سازش تھی جس کا مقصد انہیں جانی نقصان پہنچانا تھا۔ جس گاڑی میں وہ سوار تھیں، اگربلٹ پروف نہ ہوتی تو ان کا جانی نقصان ہوجاتا، انہو ںنے قائدین اور پارٹی کارکنان کے ہمراہ نیب کی دہشتگردی کا سامنا کیا۔وہ منگل کوماڈل ٹاون لاہور میں پرہجوم پریس کانفرنس سے خطاب کررہی تھیں۔ اس موقع پر سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، مسلم لیگ (ن) پنجاب کے صدر رانا ثناء اللہ خاں، سینیٹر پرویز رشید، سابق گورنر محمد زبیر، مرکزی ترجمان مریم اورنگزیب سمیت پارٹی کے مرکزی وصوبائی رہنما اور پارٹی کارکنوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔مریم نوازشریف نے کہاکہ جس ریاستی، حکومتی خوف، جبر، دہشت گردی کا مظاہرہ ہوا، وہ اس جعلی اور سلیکٹڈ حکومت کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ پرامن نہتے کارکنان پر پتھر برسائے گئے، سپرے اور آنسو گیس برسایا گیا جس کی شدید مذمت کرتی ہوں۔ نہتے اور پرامن کارکنان کے سرپھاڑے گئے اور انہیں زخمی کیاگیا۔ میں تمام قائدین، کارکنان، سپورٹرز اور عوام کو سلام پیش کرتی ہوں جو ان کی حمایت میں سڑکوں پر باہرآئے اور جبر کا سامناکیا۔ کارکن میدان میں کھڑا رہا۔ کارکنان کو خراج تحسین پیش کرتی ہوں اور سلام پیش کرتی ہوں۔ گرفتار کارکنان کی قانونی معاونت پارٹی کرے گی۔ سکیورٹی گارڈز کا شکریہ ادا کرتی ہوں جو پتھراو اور شیلنگ کے باوجود میری حفاظت کا فرض بہادری سے ادا کرتے رہے۔ انہون نے کہاکہ جس گاڑی میں، میں سوار تھی، وہ نیب کے دفتر کے پاس پہنچی۔ مجھے معلوم نہیں تھا کہ دوسری طرف عوام کاسمندر ہے۔ اچانک شیلنگ شروع ہوگئی۔ آنسو گیس کے باعث میری گاڑی کے اردگرد موجود لوگ وہاں سے ہٹ گئے۔ اسی اثنائ￿ نیب کے دفتر کے سامنے لگی رکاوٹوں کے پیچھے سے بڑے بڑے پتھر پھینکے جانے لگے۔ جس سے میری بْلٹ پروف گاڑی کی ونڈ سکرین ٹوٹ گئی۔ ایک سے دوسرے سرے تک کریک آگیا۔ نجانے کہاں کہاں سے پتھر آئے۔ میرے گارڈز کے پاس کوئی آڑ نہیں تھی لیکن وہ پھر بھی اپنی جگہ جمے رہے۔ پتھر لگنے سے بلڈ پروف گاڑی کا شیشہ نہیں ٹوٹ سکتا‘ یہ منظم سازش کے تحت کیا گیا۔  مریم نوازشریف نے کہاکہ  جو کچھ دیکھ کر آرہی ہوں اور جن حالات سے گزر کر یہاں پہنچی ہوں، اس کے بعد میں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ مجھے بلانے کے پیچھے مجھے نقصان پہنچانا مقصود تھا۔ بہتر سال میں پاکستان میں یہ ہوتے نہیں دیکھا۔ پرویز رشید صاحب میرے ساتھ گاڑی میں تھے۔ جب شیشہ ٹوٹا تو انہوں نے کہاکہ شکر کرویہ بلٹ پروف گاڑی تھی، اگر یہ گاڑی بْلٹ پروف نہ ہوتی تو اینٹ نما تما م پتھر میرے سر پرلگتے۔ کیونکہ میں فرنٹ سیٹ پر بیٹھی تھی۔ اس کا میں کیا مطلب لوں؟ پیغام واضح ہے کہ اگر میں بْلٹ پروف گاڑی نہ ہوتی توشاید اس وقت کسی ہسپتال میں ہوتی۔ پتھر پولیس وردی میں ملبوس لوگ پھینک رہے تھے۔ یہ معلوم نہیں کہ یہ لوگ واقعی پولیس کے تھے کیونکہ پنجاب پولیس عموما ایسا نہیں کرتی۔ مریم نواز شریف نے کہاکہ میں نے اپنے موبائل سے اس کی وڈیو بنالی۔ ثبوت کے طورپر اسی وقت اسے ٹویٹ کردیا۔ غیرسرکاری طورپر نیب نے مجھ سے کہنا شروع کیا کہ آپ واپس چلی جائیں۔ پیغامات آنے لگے۔ میں نے کہاکہ میں تو واپس نہیں جاوں گی۔ نیب کے دروازے کے باہر کھڑی رہی۔ کال اپ نوٹس میں تمام جواب میرے پاس ہیں۔ میں تو جواب دے کر جاوں گی۔ لیکن انہوں نے کہاکہ بی بی آپ واپس جائیں۔ جس پر رانا ثناء اللہ نے نیب والوں سے کہاکہ آپ لکھ کر دیں، یہ نہ ہو بعد میں آپ کہیں کہ مریم نواز پیش نہیں ہوئیں۔  نوازشریف، مجھے، رانا ثناء اللہ، حمزہ شہباز، شاہد خاقان عباسی سمیت پوری پارٹی اور اس کے قائدین اور دیگر افراد نیب گردی کا نشانہ بنے ہیں۔ سپریم کورٹ کے فیصلہ اور انتقامی کارروائیوں کے بعد نیب خود ایک مطلوب ادارہ بن چکا ہے، نیب نے خود جواب دینا ہے، پاکستان کے عوام اور خزانے سے سیاسی انجینئرنگ پر خرچ ہونے والے پیسے کا حساب دینا ہے۔ سیاسی جماعتوں کی جوڑ توڑ کیوں کی گئی؟ اس کا جواب دینا ہے نیب کا گھناونا کردار قوم کے سامنے آچکا ہے۔ انہوں نے کہاکہ یہ مجھ پر پہلا مقدمہ تو ہے نہیں، اس سے پہلے دوسرا مقدمہ قائم کیاگیا۔ یہ تیسرا مقدمہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ پہلا مقدمہ میرے خلاف اچھا تھا تو پھر دوسرا اور تیسرا مقدمہ بنانے کی ضرورت کیوں پڑی؟ تیسرے مقدمے کا بھی وہی انجام ہوگا جو اس سے پہلے مقدموں کا بھی ہوگا۔ انہوں نے کہاکہ حالیہ سامنے آنے والے ’سرویز‘ سے نوازشریف اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کاکردار پہلے سے کہیں بڑھ گیا ہے۔ حکمران بری طرح گھبرا گئے ہیں۔ ہر حربہ استعمال کرکے انہوں نے دیکھ لیا لیکن مسلم لیگ (ن) کو ختم نہیں کیاجاسکا۔ ان کے اپنے سرویز کے مطابق مسلم لیگ (ن) سویپ کررہی ہے۔ انہوں نے کہاکہ عمران خان کو اقتدار میں آنے کا بہت شوق تھا۔ پے درپے ناکامیوں اور نااہلیوں کے بعد اب انہیں جانے کا خوف ہے۔ یہ اتنے ظلم کرچکے ہیں کہ اب اپنے انجام سے انہیں خوف آتا ہے۔ پاناما سے جو کہانی شروع ہوئی تھی، اقامہ اور باقی چیزوں سے ہوتی ہوئی سب ختم ہوگئیں۔ مسلم لیگ (ن) نے بہت برداشت کرلیا۔آپ اپنی فکر کریں۔ چھ مہینے کی مہلت ختم ہوجائے گی پھر کیا ہوگا؟ وارننگ ملی ہے چھ ماہ کی۔ مہلتوں پر چلتی حکومت خوف میں مبتلا ہے۔ عمران خان نے خود کہا کہ چھ ماہ ہمیں ملے ہیں، اس کے بعد معاملات کہیں چلے جائیں گے۔ کہاں چلے جائیں گے؟ یہ مجھے معلوم نہیں۔ انہوں نے کہاکہ عمران خان اب کہتے ہیں کہ ہم نے کشتیاں جلا دی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عمران خان نے اتنے ظلم زیادتیاں کرلی ہیں کہ ان کے پاس کوئی اور راستہ نہیں رہا کہ بس اقتدار سے ہی چپکے رہیں۔ آپ کی ترجیحات کی فہرست میں پہلے، دوسرے، تیسرے، چوتھے نمبر پر صرف نوازشریف ہے۔ آپ کی کابینہ، خفیہ میٹنگز ساری نوازشریف سے شروع ہوکر نوازشریف پر ختم ہوتی ہیں۔ نوازشریف چہل قدمی کرلے تو آپ حسد میں مبتلا ہوجاتے ہیں، کافی پی لیں تو آپ کو مسئلہ ہوجاتا ہے، جہاز پرسیڑھیاں چڑھ کر جائیں تو آپ کومسئلہ ہوجاتا ہے۔ ان کی صحت پر سیاست کرتے ہوئے آپ کو شرم آنی چاہئے۔ نوازشریف کے دور میں آٹا، دال، چینی، چاول، بجلی، گیس کی کیا قیمت تھی؟ آج ان کی کیا قیمت ہے؟ نوازشریف کے دور میں جی ڈی پی 5.8 تھی جو آج تاریخ میں پہلی بار منفی میں چلی گئی ہے۔ شرم کی بات تو یہ ہے۔ اس سے پتہ چل جاتا ہے کہ کون کرپٹ ہے۔ آپ خود ہی کہتے تھے کہ مہنگائی ہوتی ہے تو وزیراعظم چور ہوتا ہے۔ بہتر سال میں کسی منتخب وزیراعظم یا آمر کے دور میں بھارت کو جرات نہ ہوئی کہ کشمیر کی خصوصی ریاستی حیثیت کو ختم کرسکے۔ یہ سیاہ دھبہ بھی آپ کے منہ پر لگا ہے۔ امریکی ثالثی کہاں گئی؟ پرچیوں کے بغیر بیانوں کا کیا ہوا؟ کشمیر بھارت کی جھولی میں جاگرا آپ چپ چاپ کھڑے رہے۔ کیا یہ کہیں گے کہ میں فون کرتا تھا اور مودی فون نہیں اٹھاتا تھا؟ انہوں نے کہاکہ نقشے پر لکیریں مارنے، شاہراہ کا نام بدلنے سے کشمیر نہیں مل جائے گا۔ نوازشریف نے جوہری دھماکے کرنا تھے۔ کیا وہ بارہ منٹ کی خاموشی اختیار کرلیتے؟ بنی گالہ کا نام بدل کر اس کا نام چاغی رکھ لیتے؟ مریم نوازشریف نے کہاکہ نوازشریف کے منصوبوں پر چھ چھ تختیاں بدلیں ہمیں زندہ لیڈرز چاہئیں، لیڈروں کی لاشیں نہیں چاہئیں۔ نوازشریف پاکستان کے عوام، پارٹی رہنماوں اور کارکنان کی چالیس سال کی ان کی صورت ایک سرمایہ کاری ہے۔ کبھی ہم نے بول کر ان کو بے نقاب کیا، کبھی خاموش رہ کر انہیں بے نقاب کیا ہے۔ ہم نے خاموش رہ کر اور بھی زیادہ انہیں بے نقاب کیا ہے۔ نوازشریف اور میری خاموشی اتنی گونج رہی ہے کہ انہوں نے کانوں پر ہاتھ رکھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ پتھر میں بھی میں لے کر آئی، اپنے کارکنان کو پولیس کی وردیاں بھی میں نے پہنائیں، پھر ان کو پتھر برسانے کا بھی میں نے کہا اور یہ سب میں نے گاڑی میں بیٹھے بیٹھے کردکھایا۔ اس پر صرف یہ ہی کہاجاسکتا ہے کہ واہ۔ شاباش۔  پہلے بھی سب پیش ہوتے رہے ہیں اور ایک گملا بھی نہیں ٹوٹا۔ ہمارے کارکن پرامن تھے۔ میں تنہاء ہی نیب دفتر پیشی کے لئے آئی تھی۔ مجھے اتنے بڑے ہجوم کی  توقع نہ تھی۔ یہ گھبرا گئے اور اپنے آپ پر خود کش حملہ کردیا۔ ہمارا کارکن تحریک انصاف کی طرح نہیں۔ یہ پی ٹی آئی کے کارکن نہیں۔ پنجاب پاکستان مسلم لیگ (ن) کا قلع ہے، لاہور اس کا گڑھ ہے۔ ظلم دیکھ کر کارکن کوغصہ آتا ہے۔ کارکنان اپنے قائد نوازشریف ان کی بیٹی اپنی بہن کے ساتھ یک جہتی کا اظہار کرنے آئے تھے۔ مریم نوازشریف نے کہاکہ اے پی سی پر نوازشریف کی واضح ہدایت ہے کہ اے پی سی کے فورم کو بھرپورطریقے سے استعمال کیاجائے۔ مولانا فضل الرحمن سے مکمل تعاون کیاجائے۔ان کی نگرانی اور قیادت میں معاملات آگے بڑھائے جائیں۔ اپوزیشن کے اتفاق رائے سے فیصلے کئے جائیں۔ اس میں کوئی ابہام نہیں۔ مولانا کے تحفظات ہیں تو مسلم لیگ (ن) انہیں دور کرے گی۔ مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر نے کہاکہ مسلم لیگ (ن) میں کوئی الگ کیمپ نہیں۔  بیانیہ قائم ہے، اسی کی قیمت ادا کررہے ہیں۔  میاں نوازشریف خاموش نہیں، انہوں نے اپنے حصے کا کام کردیا۔ ملکی تاریخ میں کسی نے اتنی قربانی نہیں دی جتنی نوازشریف نے خود قربانی دی ہے۔ میاں نوازشریف نے ظلم اپنے سینے پر سہا ہے۔ سارے زخم اپنے سینے پر لئے ہیں۔ منصف خود بول اٹھا کہ اس کو بلیک میل کرکے نوازشریف کے خلاف فیصلہ لیاگیا۔ یہ بھی حیران کن ہے کہ جج کو نکال دیتے ہیں لیکن اس کا فیصلہ وہیں کا وہیں رہتا ہے۔ 

ای پیپر دی نیشن