کراچی(کامرس ڈیسک) یہ پاکستان کے مفاد میں ہے کہ وہ افغانستان میں قیام امن کے لئے دیگر علاقائی ممالک جیسے چین، ایران اور افغانستان کے قریبی شمالی ہمسایہ ممالک کو بھی شامل کرے۔ اس سلسلے میں امریکہ، روس، چین اور پاکستان مشتمل ممالک کا ’’ٹرائیکا پلس‘‘ کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے۔ان خیالات کا اظہار کہنہ مشق سیاستدان اور پاکستان کے سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری نے امریکی ایورڈ یافتہ میگزین سائوتھ ایشیاء کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو کے دوران کیا۔انٹرویو کے دوران خورشید محمود قصوری نے افغانستان سے امریکی سیکورٹی فورسز کے انخلاء اور خطے بالخصوص پاکستان پر اس کے اثرات پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلاء کے نتائج سے پاکستان اور ایران جو افغانستان کے ہمسایہ ممالک ہیں، براہ راست متاثر ہوں گے۔پاکستان کے حوالے سے امریکی پالیسی میں تبدیلی کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ امریکہ کو افغانستان میں اپنی ناکامی کا ملبہ کسی پر ڈالنے کی ضرورت تھی اور پاکستان اس کے لئے آسان ہدف تھا۔انہوں نے کہا کہ افغان بحالی کے لئے امریکہ کی طرف سے تعینات کردہ خصوصی انسپکٹر جنرل کی رپورٹس سے یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ افغانستان میں امریکی فنڈز میں بڑے پیمانے پر کرپشن کی گئی اور فنڈز کا غلط استعمال کیا گیا۔ تاہم یہ حقائق امریکی عوام کیلئے قابل قبول نہیں تھے لہذا ان حقائق کو مخفی رکھتے ہوئے یہ تاثر اجاگر کیا گیا کہ پاکستان کی طرف سے عدم تعاون افغانستان میں امریکی ناکامی کا سبب بنا۔افغانستان میں پاکستان کے مفادات کو ٹھیس پہنچانے کی مد میں بھارت کے مذموم کردار کے بارے میں ایک سوال ک جواب میں خورشید قصوری نے کہا کہ بھارت افغانستان کی درپردہ اور اعلانیہ مدد کرتا آ رہا ہے، سن نوے کی دہائی تک تو بھارت غیر ملکی امداد وصول کرتا رہا اور یہ وہ ملک نہیں ہے جو دیگر ممالک کو امداد فراہمی کے لئے جانا جاتا ہو۔ تاہم بھارت افغانستان کو تمام قسم کی اماد اور معاونت فراہم کرتا آ رہا ہے اور بھارت یہ امداد اور معاونت پاکستان مخالف عناصر بشمول تحریک طالبان کی مدد کے لئے استعمال کر چکا ہے۔
خورشید قصوری