امرتسر کا محلہ شریف پورہ:
دوپہر کا وقت’ گورکھوں اور مرہٹوں نے پاکستان کے قیام کا اعلان ہوتے ہی ہر طرف قتل و غارت شروع کر دی تھی۔ شریف پورہ سے ملحق گلیوں میں بربریت کے کئی ہولناک مناظر برپا تھے۔ مسلمانوں کے گھروں کو لوٹا جا رہا تھا اور اُن پر بہیمانہ طریقے سے تشدد اور قتل عام کا سلسلہ جاری تھا۔ تاریخِ انسانی کی سب سے بڑی خون کی ہولی کھیلی جا رہی تھی۔ ہندوستان خصوصاً امرتسر میں رہنے والے مسلمان ’’پاکستان‘‘ کیلئے اپنے خون کا نذرانہ پیش کر رہے تھے۔شریف پورہ میں ایک ایسا مسلمان گھرانہ بھی تھا جو اپنے ہی گھر میں قید ہو کر رہ گیا تھا۔ انہیں یہ تو پتہ تھا کہ باہر کیا ہو رہا ہے لیکن یہ نہیں پتہ تھا کہ کس قدر ہو رہا ہے اور سفاکی کے کتنے باب رقم کئے جا رہے ہیں۔ خونی درندے بے خوف مسلمان عورتوں اور بچیوںکی عصمت دری بھی کر رہے تھے۔ ایسے میں ایک چودہ، پندرہ سالہ نوجوان ریاض باہر سے دوڑتا ہوا اپنے گھر میں داخل ہوااور اپنی والدہ سے کہنے لگا کہ ابھی کچھ ضروری سامان سمیٹں اور بھاگ چلیں۔ یہاں سے تیسری گلی میں گورکھے اور مرہٹے گھس آئے ہیں اور کھلے عام مسلمانوں کا قتل عام کر رہے ہیں۔ یہ سنتے ہی اس گھر میں افراتفری مچ گئی۔ والدہ صرف چند جوڑے کپڑے اٹھا سکی۔ باقی سامان سے بھرا ہوا گھر چھوڑ کر یہ سب لوگ ریاض کی معیت میں امرتسر ریلوے اسٹیشن کی طرف روانہ ہو گئے۔ اور کسی طرح بلوائیوں سے چھپتے چھپاتے امرتسر ریلوے اسٹیشن پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔ جہاں سینکڑوں گھرانے لاہور جانے والی ٹرین کے منتظر تھے۔ اگرچہ یہاں کافی لوگ تھے لیکن ایک ہُو اور خوف کا عالم دکھائی دیتا تھا۔ سات بوگیوں پر مشتمل لاہور جانیوالی ٹرین پلیٹ فارم پر آکر رُکی تو ہندوستان سے ہجرت کرنیوالے مسلمانوں کا ریوڑ اس میں کود گیا۔کسی کو جگہ نہیں مل رہی تھی اور کسی سے ٹرین میں چڑھا نہیں جا رہا تھا۔ ضعیف افراد اور بچوں کا تو برا ہی حال تھا۔ انہیں گھر کے جوان سہارا دے رہے تھے اور سہارا دیکر ٹرین میں سوار کرا رہے تھے۔ لوگ اتنے زیادہ تھے کہ ٹرین کے سب ڈبے بھر گئے۔ حتی کہ باقی ماندہ لوگوں کو ٹرین کی چھت پر سوار ہونا پڑا ۔ وہ سب اپنا گھر بار ہندوستان میں چھوڑ کر وجود میں آنے والی نئی مملکت پاکستان کیلئے روانہ ہو رہے تھے ۔ اب پاکستان ہی ان کی منزل اور مسکن تھا۔یہ ٹرین خراماں خراماں اپنے مسافروں کو لیکر چلی اور راستے میں کئی مقام ایسے بھی آئے کہ سکھ اور ہندو بلوائیوں نے اسے زبردستی روک لیا اور قتل عام کی کوشش کی لیکن ٹرین میں سوار حفا ظتی دستوں نے ہجرت کرنیوالے مسافروں کو قتلِ عام سے بچا لیا۔ امرتسر سے لاہور تک صرف آدھے گھنٹہ کا سفر تھا جو ٹرین نے 10گھنٹوں میں طے کیا۔ یہ لٹے پٹے لوگ لاہور پہنچے تو یہاں پہنچتے ہی سجدہ ریز ہو گئے۔ زندہ سلامت بچ جانے پر خدا کا شکر بجا لائے۔ پھر ان مہاجروں کو لاہور ریلوے اسٹیشن سے والٹن پر واقع ایک وسیع و عریض رفیوجی کیمپ میں پہنچا دیا گیا۔ جس پر اُن کی سانس میں سانس آئی۔ یہاں رہنے اور کھانے پینے کا کوئی معقول بندوبست نہیں تھا۔ نہ بجلی، نہ پانی۔ زندگی کی دیگر ضروری سہولیتں بھی ناپید۔ لیکن ’’پاکستان‘‘ کی خوشی میں ہندوستان سے آنے والے یہ سینکڑوں مہاجر سب کچھ سہہ گئے۔ سب کا ایک ہی نعرہ تھا۔ ’’پاکستان کا مطلب کیا ’’لاالہ الا اللہ‘‘۔
رمضان کی 27ویں اور سن عیسوی14اگست 1947 کی تاریخ تھی۔ جب پاکستان اپنا وجود پا چکا تھا۔ پاکستان کن قربانیوں سے حاصل کیا گیا۔ شریف پورہ کے ایک خاندان کی اس داستان سے آپ کو اندازہ ہو گیا ہو گا۔ کہنا یہ ہے علامہ اقبالؒ نے جس پاکستان کا خواب دیکھا اور جس خواب کی تعبیر قائداعظم محمد علی جناح ؒنے پوری کر دکھائی۔ کیا ہم ان بزرگوں اور بانیانِ پاکستان کے بتائے ہوئے ان راستوں پر چل رہے ہیں جو انہوں نے ارشاد فرما ئے تھے۔ کیا ہم نے اُن فرمودات کو پورا کرنے کی تھوڑی سی بھی سعی کی۔
آج پاکستان میں جو ہو رہا ہے۔ جمہوریت کا جو حال ہے اُس پر ہمارے قائدین کی روح ضرور تڑپتی ہو گی۔ہم نے اپنے اعمال سے پاکستان کو ایک نہیں رہنے دیا۔ بلکہ اس میں طبقاتی جنگ چھیڑ دی۔ مختلف محکموں اور عدالتوں میں آج انصاف کا جو حال ہے اُس کا سوچ کر ہی شرمندگی ہونے لگتی ہے۔ ہم ایک ذہین اور عظیم قوم تھے۔ لیکن ہمارے کارنامے ایسے ہیں کہ ہم نہ عظیم قوم رہے ہیں اور اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ذہانت بھی ہم سے چھن گئی ہے۔ ہم نے کئی شعبوں میں ضرور ترقی کی۔ لیکن رواداری اور مساوات کا وہ سارا سبق بھول گئے جو ہماری میراث تھا۔ جب ایک پاکستان تھا تو ہم صرف پاکستانی تھے اور جب ون یونٹ کی تقسیم ہوئی۔
امرتسر سے لاہور تک
Aug 12, 2021