عینی شاہدین تحریک پاکستان کے خانوادے: خیالات اور یادیں

تحریک پاکستان ‘تاریخ ملتان‘ ایڈووکیٹ سپریم کورٹ اور مسلم لیگ کے لیے بے مثل وبے نظیر خدمات کو یک جا کردیکھا جائے تو یقیناً نور منزہ کے والد مرحوم چوہدری کرم الہی بدر کا سراپا سامنے آجائے گا۔ راولپنڈی‘ اسلام آباد‘ لاہور اور ملتان کی سماجی ‘سیاسی‘ ادبی ‘ معاشرتی‘ علمی  اور وکلاء تاریخ ان کے تذکرے کے بنا ادھوری سمجھی جاتی ہے۔ نور منزہ راولپنڈی کینٹ کے قدیم علاقے سہام میں رہائش پذیر ہیں انہوں نے بتایا کہ ان کے والد چوہدری کرم الہی بدر بھٹی یکم جنوری 1932ء کو مشرقی پنجاب کے شہر فیروز پورہ کے زمیندار گھرانے میں پیدا ہوئے
قیام پاکستان کے وقت خاندان کیساتھ ہجرت کرکے لاہور پہنچے جہاں انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی۔  والد مقبول بارگاہ تھے ایسی ہستیوں کا چراغ کبھی گل نہیں ہوا ،تاریخ کا مورخ قلم اٹھائے گا تو علم وحکمت کی دنیا میں ان کا نام سنہری حروف سے لکھے گا۔ انہوں نے نونہالوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کیلئے بے پناہ خدمات انجام دیں۔ لاہور میں ان کے ادارے ارجمند کالج اور نیشنل بیورو آف ایجوکیشن میں یتیم بچیوں کو مفت تعلیم دی جاتی تھی۔ ادبی تخلیقات میں تاریخ ملتان‘ برصغیر پاک وہند میں مسلمان قوم کی تاریخ ‘ ربوہ کیس‘ میزان عدل ان ذات اور شخصیت میں فقیری اور درویشی تھی وہ قائدانہ صلاحیتوں کے مالک تھے انہوں نے ولیوں سے کسب فیض کیا  اور مقام ولایت پر فائز ہوئے انہوںنے بچپن سے حضرت بابا مہر نظام الدین فیروز پوری ؒسے کسب فیض کیا انہوں نے پاکستان بننے کی تحریک میں حصہ لیا اور قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کیں ۔سیاست میں مسلم لیگ میں کام کیا آپ علم وعرفان کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر تھے وہ خود دار تھے کبھی ذاتی مفادات کے لئے دست سوال دراز نہ کیا انہوں نے 29 ستمبر 2006ء کو وفات پائی۔ نور منزہ نے بتایا کہ ان کے والد کا بڑا کارنامہ تاریخ ملتان مرتب کرنا تھا۔ یہ نادر اور تاریخی کتاب پانچ ہزار سال قبل مسیح سے دور حاضر تک کے حالات واقعات لئے ہوئے ہے تاریخ ملتان کا 
اولین ایڈیشن 1978ء جبکہ دوسرا ایڈیشن 2009 کو مارکیٹ کی نذر ہوا۔ نور منزہ نے تحریک پاکستان کے سرگرم رہنما اور اپنے والد گرامی کے بارے میں جو کچھ کیا آپ  بھی پڑھیں…میرے والد مرحوم کا شمار نامی گرامی وکلاء میں ہوتا تھا وہ صاحب بصیرت اور عاشق رسول تھے متاع دنیا سے بے نیاز ان کا براہ راست لنک خداوند کریم سے تھا جب میرے والد کو ریس کورس قبرستان میں دفن کیا جارہا تھا تو مجھے غیبی طاقت نے مسجدی نبوی ؐمیں پہنچا دیا جہاں جو انوار وتجلیات میںنے دیکھے ان کا اظہار لفظوں میں ممکن نہیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ ہر کامیاب مرد کے پیچھے عورت کا ہاتھ ہوتا ہے میرے والد کی نیک نامی‘ تکریم اور اعزاز واعجاز کے پس پردہ میری والدہ کا ہاتھ تھا والد صاحب خود کہا کرتے تھے کہ وہ اپنی بیگم (بوئی جی )کے عشق میں گرفتار ہو کر کامیابی کی منازل طے کرتے رہے 14 اگست 1947ء کو والد محترم کی عمر 15 برس تھی۔ ان کا خاندان ہجرت کرکے لاہور پہنچا ہم دو بھائی اور پانچ بہنیں ہیں۔  میںاپنے والد کی لاڈلی اور چہیتی تھی ان کی خواہش تھی کہ میں وکیل بنوں مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ والد مرحوم کی ساری تعلیمی ‘ تدریسی اور تحقیقی امور کی  میں نگران اور جانشین ہوں انشاء اللہ وہ وقت آئے گا جب پاکستان میں اور پاکستان کے  باہرچوہدری کرم الہی بدر بھٹی کے علمی وتحقیقی کارناموں کی مہکاریں پہنچیں گی۔ میرے والد کے دوست اور احباب میں اے کے بروہی ، جسٹس حمود الرحمان‘ جسٹس نسیم حسن شاہ‘ محمود علی قصوری‘ جی الانہ‘ ایم ایچ اصفحانی، جسٹس شوکت اور قدرت اللہ شہاب نمایاں تھے۔ شاہ ایران ایوبی دور میں جب ملکہ فرخ کے ساتھ دورہ پاکستان پر آئے تو لاہور کے عشائیہ میں میرے والد بھی مدعو تھے شاہ ایران اس عشائیہ میں چوہدری کرم الہی سے دیر تک باتیں کرتے رہے ۔میری خواہش ہے کہ میں اپنی یاداشیں مرتب کروں دراصل یہ یاداشتیں والد مرحوم کے واقعات وکارنامے ہی ہیں ۔خواہش ہے کہ ان کی ذاتی لائبریری کو وزارت اطلاعات حکومت پاکستان قومی 
ورثہ قرار دے تاکہ نئی نسل اکابرین پاکستان کے کارناموں سے گاہے بگاہے آگاہی حاصل کرتی رہے۔آج پاکستان گونا گوں مسائل میں گھرا ہے چاروں طرف بربادی کی تندوتیز آٰندھیاں چل رہی ہیں وطن دشمن عناصر سرگرم عمل ہیں۔ وہ قدم قدم پر مایوسی پھیلانے میں مصروف ہیں وہ یہاں افواہیں‘ افراتفری اور ابتری پھیلا کر اس فردوس بریں وطن عزیز کے درخشندہ چہرہ سے حسن اور شادابی نوچ لینے کے درپے ہیں۔ وہ اپنی شیطانی چالوں سے بھائی سے بھائی کو لڑانے میں مصروف ہیں ہماری سیاسی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کیلئے یہاں پنجابی‘ سندھی‘ اردو بولنے والے‘ بختون اور بلوچ کی تفریق پیدا کرنے میں کوشاں ہیں‘ کہیں صوبائی تعصب تو کہیں مذہبی فرقہ پسندی حالانکہ ہم سب گلشن پاکستان کے مختلف رنگ ونوع کے پھول ہیں۔ یہ صوبہ پرستی یہ گروہ بندی‘ یہ فرقہ بازی ہماری قومی زندگی کیلئے زہر قاتل ہے۔ ہمارے دشمن نئی نسل کو پاکستان سے بیزار اور اسلام سے گمراہ کررہے ہیں ان حالات میں ہمیں چاہیے کہ ہم سب مل کر وطن عزیز کو جراء پیشہ اور ضمیر فروش افراد سے پاک کردیں۔ آئیں ہم سب مل کر شب وروز پاکستان کیلئے پاکستان کے بارے میں سوچنا شروع کر دیں‘ اٹھتے بیٹھتے اپنی ملت اپنے وطن عزیز کے بارے میں غوروفکر کرنے کی عادت ڈالیں۔ اپنے دل ودماغ میں پاکستان کی محبت نقش کرلیں۔ ہر ہر لمحہ پاکستان کی حفاظت پاکستان کی تعمیر اور خوشحالی کیلئے سوچیں اپنے حلقہ میں پاکستان سے محبت‘ پاکستان کی عظمت اور آزادی کی برکتوں کا تذکرہ عام کریں خود پاکستان سے محبت کریں۔اپنے دوستوں‘ ملنے والوں کو پاکستان سے محبت کرنے کی دعوت دیں۔

ای پیپر دی نیشن