محمودالر شید ایف آئی اے پیش ، قاسم سوری نہ پہنچے ، پشاور ہائی کورٹ نے اسد قیصر کیخلاف انکوائری کوادی 

Aug 12, 2022


پشاور+ لاہور (بیورو رپورٹ‘ نوائے وقت رپورٹ‘ نیوز رپورٹر) پشاور ہائیکورٹ نے سابق سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) میں طلبی کے خلاف درخواست پر مختصر فیصلہ جاری کر دیا۔ عدالت نے مختصر فیصلہ سناتے ہوئے ایف آئی اے کو آئندہ سماعت تک اسد قیصرکے خلاف انکوائری سے روک دیا۔ عدالت نے ایف آئی اے سے چند سوالات کے جواب بھی طلب کئے ہیں۔ عدالت کی جانب سے پوچھا گیا ہے کہ کیا الیکشن کمشن نے کارروائی کیلئے کوئی ہدایات جاری کی ہیں؟۔ کیا وفاقی حکومت نے ایف آئی اے کو اس کیس میں تحقیقات کا کہا ہے؟۔ کیا پولیٹیکل پارٹی آرڈر 2002ء ایف آئی اے کے دائرہ کار میں آتا ہے؟۔ عدالت نے کہا ہے کہ بتایا جائے کہ ایف آئی اے کا طلبی نوٹس بدنیتی اور سیاسی اثر و رسوخ پر مبنی تو نہیں؟۔ کیا ایف آئی اے کے پاس سپیکر کے خلاف کارروائی کا اختیار ہے یا نہیں؟۔  اس سے قبل پشاور ہائی کورٹ نے ممنوعہ فنڈنگ کیس میں وفاقی تحقیقاتی ادارے سے جواب طلب کیا ہے کہ کیا الیکشن کمشن نے ایف آئی اے یا حکومت کو کارروائی کا کہا تھا؟۔ پشاور ہائی کورٹ میں سابق سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی جانب سے ایف آئی اے انکوائری کے خلاف درخواست پر سماعت ہوئی۔ سماعت جسٹس شکیل احمد اور جسٹس کامران حیات نے کی۔ اسد قیصر اور ان کے وکیل بیرسٹر گوہر خان عدالت میں پیش ہوئے۔ بیرسٹر گوہر خان نے کہا کہ الیکشن کمشن کمیٹی نے تمام اکاؤنٹس کا ریکارڈ خود چیک کیا، پارٹی نے 13 اکاؤنٹس سے لاتعلقی ظاہر کی، اکبر ایس بابر پی ٹی آئی کا کارکن تھا اس نے الیکشن کمشن میں کیس دائر کیا، اس اکاؤنٹ میں سب سے پہلے پیسے خود اکبر ایس بابر نے جمع کیے تھے۔ بیرسٹر گوہر خان نے کہا کہ کوئی بھی اکاؤنٹ اسد قیصر کا ذاتی نہیں یہ پارٹی کے صوبائی چیپٹر کے اکاؤنٹس ہیں، الیکشن کمشن نے ایف آئی اے کو انکوائری کی کوئی ہدایت نہیں دی، ایف آئی اے کے پاس خود سے انکوائری کا کوئی اختیار نہیں، الیکشن کمشن نے نوٹس دیا ہے وہاں اپنا مقدمہ لڑیں گے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ الیکشن کمشن نے حکومت کو ہدایت دی اور حکومت اداروں کو ہدایت کرسکتی ہے، ایف آئی اے کے پاس اختیار ہے کہ وہ اکاؤنٹس کے بارے میں انکوائری کرے۔ اسد قیصر نے کہا کہ الیکشن کمشن نے حکومت کو کوئی ہدایت نہیں کی، ایڈیشنل اٹارنی جنرل وفاقی حکومت پر مزید بوجھ ڈال رہے ہیں۔ عدالت نے کہا کہ کیا الیکشن کمشن نے ایف آئی اے کو انکوائری کا حکم دیا ہے؟ کیا الیکشن کمشن نے وفاقی حکومت کو کارروائی کا حکم دیا ہے؟۔ عدالت نے سوالات پر ایف آئی اے سے 14 روز میں جواب طلب کرلیا۔ عدالت نے کہا کہ ایف آئی اے کے سامنے پیش ہونا ہے کہ نہیں، جلد تحریری حکم جاری کریں گے۔ سابق سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر ایف آئی اے کے دفتر میں جمعرات کے روز پیش نہیں ہوئے۔ ایف آئی اے ذرائع نے بتایا ہے کہ انکوائری کے سلسلے میں انہیں طلب کیا گیا تھا۔ گزشتہ روز سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے ایف آئی اے کے خلاف کیس کے سلسلے میں پشاور ہائیکورٹ سے رجوع کیا تھا۔ سابق ڈپٹی سپیکر قاسم سوری تاحال وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کے دفتر میں پیش نہ ہو سکے۔ قاسم سوری کا ایف آئی اے میں طلبی پر کہنا ہے کہ میں نے ہمیشہ آئین و قانون کا احترام کیا ہے۔ قاسم سوری نے کہا کہ مجھے ایف آئی اے کا نوٹس کل کوئٹہ کے گھر پر موصول ہوا تھا۔ کوئٹہ کیلئے فلائٹ دستیاب نہیں۔ ایف آئی اے کے سامنے پیش نہیں ہو سکا۔ واضح رہے کہ سابق ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کو آج ساڑھے 11 بجے ایف آئی اے کوئٹہ میں طلب کیا گیا تھا۔
لاہور (نیوز رپورٹر) تحریک انصاف کے رہنما محمودالرشید نے پی ٹی آئی ممنوعہ فنڈنگ کیس میں ایف آئی اے میں پیش ہوکر نوٹس کا جواب جمع کرا دیا ہے۔ ایف آئی اے کی مانیٹرنگ ٹیم نے محمود الرشید سے ممنوعہ فنڈنگ پر تفتیش کی۔ پی ٹی آئی کے رہنما محمود الرشید کا اس موقع پر کہنا تھا کہ 2008ء اور 2009ء  میں لاہور میں سستا تندور پروگرام شروع کیا تھا۔ اس کیلئے ہم نے ایک اکائونٹ کھولا جو پارٹی کے نام پر تھا۔ فنڈز 2008ء میں سستی روٹی سکیم کیلئے آئے تھے۔ تمام ریکارڈ موجود ہے۔ ایف آئی اے سوالنامہ دے جوابات دیں گے۔ پی ٹی آئی کے ممنوعہ فنڈنگ کیس میں محمود الرشید نے 40 منٹ تک تحقیقاتی افسران کو جواب دیئے۔ محمود الرشید پر الزام ہے کہ وہ پی ٹی آئی لاہور کا اکائونٹ آپریٹ کر رہے تھے جس میں دوکروڑ روپے فنڈز آئے۔  ایف آئی اے آفس سے باہر آنے کے بعد محمودالرشید نے میڈیا ٹاک کرتے ہوئے کہا کہ 2008/9ء میں پی ٹی آئی نے سستی روٹی سکیم شروع کی تھی جس کیلئے اندرون و بیرون ملک سے فنڈز آئے۔ ایف آئی اے سے سوالنامہ مانگا ہے۔ ملے گا تو تمام جوابات دیں گے۔ محمودالرشید نے کہا کہ کیسز کا سامنا کریں گے۔ ایف آئی اے جب بلائے گی‘ تحقیقات کیلئے پیش ہوں گے۔ غریب علاقوں‘ کچی آبادیوں میں سستا تندور دے کر پذیرائی ملی۔ چند دنوں بعد صوبائی حکومت اس پروگرام میں کود پڑی۔ لہٰذا جو تندور ہم نے کھولے تھے‘ انہیں بند کر دیا گیا۔

مزیدخبریں