کسی سیانے نے کیا خوب کہا ہے کہ ''دوستی کا رشتہ چاول کی مانند ہے جتنا پرانا ہو اتنا ہی ذیادہ لذیذ ہوتا ہے''۔ دوستی وہ انمول تحفہ ہے جو ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتا اور جس کو یہ تحفہ نصیب ہوتا ہے وہ دنیا کا سب سے خوش قسمت انسان ہوتا ہے۔ دوستی ایسا ناطہ ہے جسے زندگی کے نقوش سے باآسانی مٹایا نہیں جا سکتا کیونکہ یہ ایسا احساس ہے جس میں خوشی غمی کی آمیزش شامل ہوتی ہے۔ جہاں کھٹی میٹھی لڑائیوں سے محبت بڑھتی ہے، چھین کر کھانے سے بھوک مٹتی ہے، مدد کرنے سے دلی مسرت میسر آتی ہے۔ بہترین دوست وہ ہیں جو ہمیں اس دنیا کی تاریک اور بدصورت حقیقتوں سے بہادروں کی طرح نبرد آزما ہونا سکھائیں۔ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے اصولوں سے روشناس کروائیں، ہمارے رویے کو بہتر بنانے کی غرض سے پر خلوص ہو کر نصیحت کرنے کی اہلیت رکھتے ہوں۔ کچھ لوگ دوست نہیں بلکہ ''رابطے'' تلاش کرتے ہیں، اور مصیبت کی گھڑی میں، وہ تنہا ہوتے ہیں۔ شیخ سعدی کا بے لوث دوست کے بارے میں ایک قول ہے کہ''زبانی دوست سے زبانی ہمدردی جتا کر رخصت لے لو۔ روٹی والے دوست کو روٹی کھلا کر بھیج دو۔ سچے دوست کو اپنے ہاتھوں میں رکھو، اس کیلئے جان بھی قربان کرنی پڑے تو گریز نہ کرو۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو موت کے بعد بھی آپکی خواہشوں کو عملی جامہ پہناتے ہیں۔''قارئین آج دوستی کا لفظ موجود تو ہے مگر چاشنی بہت کم ہے کیونکہ وقت گزارنے کے بہت سے ذرائع آس پاس موجود ہیں۔ وہ بھی کیا دن تھے جب جھگڑے کے بعد اگلی صبح تمام رنجشیں بھلا کر دوستیاں کر لیتے تھے، گلی کی نکر پر ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر مسکرا دیتے اور کہتے ''چل کوئی بات نہیں''۔سچ بات ہے کہ ٹیکنالوجی نے دوستی کا مفہوم تبدیل کرکے رکھ دیا ہے۔ اب '' آف لائن ، آن لائن '' کے چکروں میں کھو گئے ہیں۔ انسان چونکہ معاشرتی حیوان ہے اس لئے مخص انٹرنیٹ پر دکھ اس طرح سے نہیں بانٹے جاسکتے جیسا کہ روبرو ملاقات کی صورت میں کم ہوتے تھے۔ کسی کو کوئی الم پہنچتا تو شام کو دوستوں کی ایک بیٹھک ہوا کرتی تھی جس میں سارے تفکرات بھلا دئیے جاتے اور پریشان حال کو کندھے پر ایک تھپکی دی جاتی تھی یہ ایسی جادوئی تھپکی ہوتی تھی جو حوصلہ سے معمور ہوا کرتی تھی جس کا جوڑ کسی مہنگی ٹینشن والی دوائی کے برابر ہوا کرتا تھا۔ آجکل سوشل میڈیا کی مصنوعی دنیا میں ہر چیز مصنوعی ہے حتی کہ احساس بھی سوشل میڈیا ہزاروں انسانوں کا مجمع ہے۔ نت نئے چہرے، اعلی اسٹیٹس، ہائی فائی اسٹینڈرڈ کے لوگ آپ کو ملیں گے۔ کون کس خاندان سے ہے، ماضی کیا ہے۔ کچھ معلوم نہیں! یہ ایسی دنیا ہے کہ جس نے بے پرواہ بنا ڈالا ہے۔ کوئی بلاک ہو رہا ہے تو کوئی ان فرینڈ ! کسی کو کسی کے جانے کی فکر نہیں۔کوئی یہ نہیں پوچھتا کہ فلاں شخص کیوں نالاں ہوا ہے اور کیوں رابطہ اور تعلق منقطع کیا ہے کیونکہ قطع تعلق کو معلوم ہے کہ یہ نہیں تو اور سہی اور نہیں تو اور سہی۔ پہلے پہل ناراضگی کسی صدمے سے کم نہیں ہوتی تھی۔ اپنے دوستوں کو منانے کیلئے باقاعدہ منصوبے بنائے جاتے تھے۔ تحفے تحائف کی خریداری کی جاتی تھی۔
یوں لگے دوست ترا مجھ سے خفا ہو جانا
جس طرح پھول سے خوشبو کا جدا ہو جانا
آج کے دور میں مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ ایموجیز کیک اور انٹرنیٹ وائرل تصاویر شیئر کر دی جاتی ہیں۔ یوں خلوص کا بیڑا غرق تقریباً ہو چکا ہے کیونکہ موسمی دوستوں کے ٹرینڈ کا دور دورہ ہے۔ بلاشبہ سوشل میڈیا نے ''وے آف ایکسپریشن یعنی اظہار'' کو آسان اور فوری بنا دیا ہے۔ آپکے دوست صرف ''ایک اسٹیٹس'' کے فاصلے پر ہوتے ہیں۔ مگر رکیے! اس عمدہ پیش رفت کے ساتھ ساتھ نمائش اور نرگسیت کا مرض بھی عام ہوا ہے۔ سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ وٹس ایپ گروپ بنا لیے جاتے ہیں اور کھایا پیا ادھر ہضم کیا جاتا ہے۔آج یہاں سیر و تفریح کیلئے گئے۔ شوہر نے ڈائمنڈ سیٹ گفٹ کیا۔باقی سہیلیاں واہ، واؤ، بہت خوب کہہ کر زمین و آسمان کے قلابے ملا دیتی ہیں۔ اب جس کے شوہر کی جیب اتنی اجازت نہیں دیتی اسکے دل میں اک خلش سی پیدا ہو جاتی ہے پھر یہ کیفیت اسے اپنے رفقاء سے دور کر دیتی ہے کہ'' میں اس سرکل کے قابل نہیِں ''! قارئین اگر آپ سے پوچھا جائے کہ کیا سوشل میڈیا نے دوستی کا معیار تباہ کیا ہے تو بلاتردد 60 فیصد کا جواب اثبات میں ہوگا۔ اسکی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ماضی سے شدید وابستگی اور نئے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کی دشواریاں اکثر اوقات ایسے ردعمل پر مجبور کرتی ہیں۔ وقت کی پکار ہے کہ حلقہ احباب مختصر مگر مکمل ہو، اب ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ دوستوں اور سوشل میڈیا دوستوں کے درمیان روابط کی کشمکش کو کس طرح استوار کر سکتے ہیں؟ اس کا آسان حل ''وقت کی تقسیم'' ہے۔ جس دن ہم وقت کی تقسیم میں توازن سیکھ گئے تو دوستی کے باب میں کچھ شکایات نہیں رہیں گی۔ دیکھئے! دوستی کی پرورش اور کاشت کرنا ضروری ہے۔ ازحد ضروری ہے کہ اپنے دوستوں کا دھیان رکھیں، انہیں سلام کریں، انہیں ہمیشہ حاضر رکھیں۔
سوشل میڈیا کے ’’دوستی‘‘ پر اثرات
Aug 12, 2022