کسی ستم ظریف نے پی ٹی آئی کے ’’دانشور‘‘ اور ہمارے اچھوتے سیاسی قائد کے ’چیف آف آرمی سٹاف ‘شہبازگل کی گرفتاری کا بھی لطیفہ بنا دیا۔ یہ لطیفہ سوشل میڈیا پر اسی طرح حرکت میں ہے جیسے پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا ایکٹوسٹوں نے فوجی طیارہ کے حادثہ اور ایمن الظواہری کی امریکی ڈرون حملے میں ہلاکت پر پاک فوج کیخلاف سوشل میڈیا پر طوفان بدتمیزی اٹھایا تھا۔ لطیفے کا آغاز انتہائی سنجیدہ الفاظ کے ساتھ کیا گیا۔ متعلقہ صاحب نے پوری سنجیدگی کے ساتھ اپنے بارے میں ارشاد فرمایا کہ ’’میں کبھی بھی کوئی ایسا میسج نہیں کرتا جس سے کسی کی دل آزاری ہو۔ سیاسی مخالفت اپنی جگہ‘‘۔ اور پھر انکی اگلی سطور لطیفہ کے قالب میں ڈھل گئیں۔ ’’لیکن پی ٹی آئی رہنما ڈاکٹر شہبازگل کی گرفتاری کی جتنی بھی مذمت کی جائے‘ فضول ہے‘‘۔ یہاں تک پہنچتے پہنچتے سنجیدہ ماحول بے اختیار قہقہوں میں تبدیل ہو گیا۔
جناب! عمران خان کے وفادار اتحادی اور وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویزالٰہی نے تو نجی ٹی وی چینل پر شہبازگل کی جانب سے اپنے انٹرویو میں پاک فوج کو ’’رینکس‘‘ کا امتیاز پیدا کرکے تقسیم کرنے کی سازش اور ہرزہ سرائی کی دوٹوک الفاظ میں مذمت کردی ہے اور پی ٹی آئی کی قیادت (ظاہر ہے عمران خان) سے تقاضا کیا ہے کہ وہ شہبازگل کے اس بیان سے خود کو علیحدہ کرلیں۔ چلیں انہیں یہ احساس تو ہوا کہ فوج کیخلاف پراپیگنڈا کوئی ملک دشمن ہی کر سکتا ہے۔ ’’بہت دیر کی مہربان آتے آتے‘‘۔ اس سے پہلے تک چودھری پرویزالٰہی نے اپنے ممدوح عمران خان کی زبان سے فوجی قیادت کے بارے میں کیا کیا الفاظ نہیں سنے ہونگے۔ مجھے تو عمران خان کے ادا کردہ الفاظ دہرانے کا بھی یارا نہیں۔ مگر چودھری پرویزالٰہی عمران خان کی اداروں کو رگیدنے والی سیاست پر ’’جو کہے اپنایار‘ بسم اللہ‘‘ کی عملی تصویر بنے بیٹھے رہے۔ اب بھی عمران خان کیلئے انکی تابعداری کا یہ عالم ہے کہ پنجاب کابینہ میں مسلم لیگ (ق) کے یکسر نظرانداز ہونے کا بھی انہیں کوئی قلق نہیں اور وہ عمران خان کے اشارۂ ابرو پر پنجاب اسمبلی توڑنے کیلئے ایک سیکنڈ نہ لگانے والی وفاداری کا عندیہ دیئے چلے جا رہے ہیں۔ حضور! کیا عمران خان صاحب نے ابھی تک شہبازگل کی گرفت کا باعث بننے والے انکے بیان کی مذمت کی۔ انہوں نے تو شہبازگل کی گرفتاری کو انکے اغواء کے کھاتے میں ڈال دیا ہے اور آپ ان سے شہبازگل کے بیان سے الگ ہو جانے کا معصومانہ تقاضا کر رہے ہیں۔ اگر وہ آپ کے اس تقاضے کو درخورِاعتناء نہیں سمجھتے تو پھر آپ کا ان سے علیحدگی اختیار کرنا ہی بنتا ہے۔
بے شک پاک فوج کیخلاف اشتعال انگیز پراپیگنڈا کرنا ملک دشمنی ہی ہے جس کا چودھری پرویزالٰہی کو بخوبی احساس و ادراک ہے مگر جس پارٹی کی قیادت کے ساتھ وہ دل و جان سے جڑے ہوئے ہیں‘ ان کا تو محبوب مشغلہ ہی پاک فوج سمیت تمام ریاستی اداروں اور انکی قیادتوں کی بھد اڑانا ہے۔ آپ انکے اور اپنے موقف کو ایک دوسرے میں خلط ملط کیسے کر سکتے ہیں۔ آپ فوج کے حوالے سے اپنے موقف کو اٹل سمجھتے ہیں تو آپ کو خود بھی انکے فوج مخالف موقف سے علیحدگی اختیار کرنا پڑیگی۔ یقین مانیے‘ اس سے آپ کی سیاست کو بھی چار چاند لگ جائیں گے اور بچھڑے ہوئے بھائیوں کا بھی دوبارہ ملاپ ہو جائیگا۔ چودھری شجاعت حسین جو اپنی وضع کردہ سیاسی‘ اخلاقی قدروں کے امین ہیں‘ پہلے ہی آپ کو گھر واپس کی درخواست کرچکے ہیں جبکہ فوج کی عزت و تکریم کیلئے آپ کے اور چودھری شجاعت حسین کے موقف میں مکمل ہم آہنگی ہے۔ آپ اس ہم آہنگی کو سنبھالیں گے تو اپنے خاندان میں بھی سرخرو ہو جائیں گے اور آپ کی پارٹی میں نقب لگانے کی سازشیں بھی دم توڑ جائیں گی۔
بے شک شہبازگل نے پی ٹی آئی کے اندر بھی بہت سے لوگوں کو گہری آزمائش میں ڈالا ہے جن کیلئے ان کا سایہ بھی آسیب کا سایہ بن گیا ہے۔ اس حوالے سے میں نے ایک معروف وکیل کی ٹویٹ پڑھی تو مجھے مکافات عمل کی حقانیت پر یقین آگیا۔ انہوں نے اپنے ٹویٹ میں شہبازگل کی عدالت میں پیشی کے وقت کی منظرکشی کرتے ہوئے بتایا کہ اس وقت وہ بھی کمرۂ عدالت میں موجود تھے۔ انہوں نے پی ٹی آئی کے قائد یا کسی عہدیدار تو کجا‘ کسی معمولی سے کارکن کو بھی اظہار یکجہتی کیلئے شہبازگل کے ساتھ کھڑا نہیں دیکھا۔ انہوں نے بھی اپنے ٹویٹ کے آخر میں ایک سنجیدہ پیغام اپنی قیادتوں کیلئے حب و بغض میں ڈوب کر باہم دست و گریباں ہونیوالے دوستوں‘ عزیزوں کو یہ دیا ہے کہ آپ ان قیادتوں کی خاطر اپنے تعلقات خراب کر رہے ہیں جو کسی مشکل وقت میں اپنے وفادار کارکنوں کے ساتھ بھی کھڑا ہونا اپنی توہین گردانتی ہیں۔
ارے جناب! شہبازگل کی گرفتاری نے تو بڑے بڑے اسباق کے راستے کھول دیئے۔ انکی گرفتاری پر ہماری اپنی صفوں میں بھی آزادیٔ صحافت اور آزادیٔ اظہار رائے پر قدغنوں کے تناظر میں سیاست کا رنگ جمتا نظر آرہا ہے۔ میں نے خود بھی پنجاب اسمبلی پریس گیلری کمیٹی‘ لاہور پریس کلب‘ پی یو جے (دستور) اور پی ایف یو جے (دستور) کے مرکزی لیڈر کی حیثیت سے آزادیٔ صحافت کے بہت جھنڈے اٹھائے ہوئے ہیں اور فوجی و جمہوری ادوار میں آزادیٔ صحافت کی عملی جدوجہد بھی کی ہوئی ہے اس لئے مجھے شہبازگل کی ہرزہ سرائیوں کے معاملہ میں کوئی آزادیٔ صحافت کا سبق پڑھانے کی کوشش نہ کرے۔ ان صاحب کی زبان سے کیا ہمارے کسی صحافی بھائی یا اینکر پرسن نے اپنے لئے کلمۂ خیر ادا ہوتے ہوئے دیکھا ہے؟ اسکے برعکس اس نام نہاد دانشور کی جانب سے ہماری کمیونٹی کو ہمیشہ مغلظات سے ہی نوازا جاتا رہا۔ ہمیں آج بہرصورت آزادیٔ اظہار اور آزادیٔ صحافت کے ان پیرامیٹرز کو ملحوظ خاطر رکھنا ہے جو اظہار رائے اور صحافت کی آزادی کو تحفظ دینے والی آئین کی دفعہ 19 میں متعین کئے گئے ہیں۔ یہی آئینی دفعہ آزادیٔ صحافت کیلئے ہماری ڈھال ہے جس میں ہمیں پابند کیا گیا ہے کہ آزادیٔ رائے اور پریس کی آزادی کا حق ملک کے تشخص‘ اسکی آزادی و خودمختاری‘ اسکی سلامتی اور دفاع‘ اسلام کی حرمت‘ بیرونی ریاستوں کے ساتھ پاکستان کے دوستانہ مراسم‘ انسانی اخلاقیات اور توہین عدالت کے زمرے میں آنیوالے معاملات کیلئے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ یہ آئینی قدغنیں بلاشبہ اس وطن عزیز‘ اسکے اداروں اور دینِ اسلام کی توقیر کیلئے عائد کی گئی ہیں اور جو ان معاملات پر مجہول و منفی پراپیگنڈا آزادیٔ اظہار رائے کے کھاتے میں ڈالتا ہے وہ بلاشبہ ملک اور آئین سے سرکشی اختیار کرتا ہے۔ تو بھائی صاحب! کیا خیال ہے شہبازگل کی ایک نجی ٹی وی چینل پر کھلم کھلا ہرزہ سرائی پر ان دونوں کی گرفت ہوئی ہے تو اسے آزادیٔ صحافت پر زد پڑنے کا ایشو سمجھا جائے؟ انکے لچھن اور صحافت کا فریضہ دو الگ الگ راستے ہیں اور فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے کہ آپ نے کس راستے کا انتخاب کرنا ہے۔ اور جو ملک اور آئین سے سرکشی اختیار کریگا‘ وہ اس کا سزاوار بھی ہوگا۔ بہتر ہے کہ اپنے لئے بہتر راستے کا انتخاب کریں اور ہمارے لئے یہی سبق کافی ہونا چاہیے۔