اس موضوع پر اوپر تلے تین کالم لکھ چکا ہوں۔ محض یاد دہانی کے لئے ان کا عنوان ’’دورِ حاضر میں سوشل میڈیا کا اثر‘‘لکھ دینا کافی ہوگا۔ گزشتہ چند ہفتوں کے دوران دوستوں کی جمائی محفلوں میں نوجوان ساتھیوں کی اکثریت اس کا والہانہ ذکر رہی تھی۔وہ مصر رہے کہ سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارم جس انداز میں ہماری نوجوان نسل کی ذہن سازی میں حتمی کردار ادا کررہے ہیں میری عمر کے لوگ اس سے کماحقہ آگاہ نہیں۔ہم ابھی تک روایتی میڈیا ہی کو مؤثر ترین تصور کررہے ہیں۔
یہاں تک آنے کے بعد غالباََ مجھے لکھنے کی ضرورت نہیں کہ سوشل میڈیا کا ذکر چلے تو گفتگو کا رُخ فوراََ عمران خان صاحب کی جانب مڑجاتا ہے۔وہ 2011ء ہی سے سوشل میڈیا کو اپنا پیغام لوگوں تک پہنچانے کے لئے استعمال کرنا شروع ہوگئے تھے۔اس کی بدولت نوجوان نسل میں اپنے حامیوں کی ایک جذباتی کھیپ تیار کرنے میں کامیاب ہوئے۔ تحریک انصاف کے ناقدین وسیاسی مخالف ان کی جنونی طاقت کے روبرو بے اثر وبے بس نظر آنا شروع ہوگئے۔
رواں برس کے آغاز میں عمران خان صاحب کو وزارت عظمیٰ سے فارغ کروانے کی گیم لگی تو تحریک انصاف کے قائد نے سوشل میڈیا کو مزید جارحانہ انداز میں استعمال کرنا شروع کردیا۔ اس کی بدولت وہ اپنے حامیوں کو حیران کن انداز میں اس امر پر قائل کرنے میں کامیاب رہے کہ امریکہ ان کی حب الوطنی سے گھبرا گیا تھا۔انہوں نے ’’ایبسولوٹلی ناٹ‘‘ جیسے الفاظ استعمال کئے تو واشنگٹن مزید پریشان ہوگیا۔ انہیں رام کرنے کی کاوشیں شروع کردیں۔ خان صاحب مگر ’’مور اوور‘‘ جیسا پیغام دینے یوکرین پر حملے سے ایک رات قبل ماسکو روانہ ہوگئے جہاں ان کی روسی صدر پوٹن سے گرم جوش ملاقات ہوئی۔ پوٹن اور عمران خان صاحب کے مابین گہرے ہوتے رشتے نے واشنگٹن کو چراغ پا بناڈالا۔ واشنگٹن میں مقیم ہمارے سفیر کو امریکی وزارت خارجہ کے ایک انڈر سیکرٹری ڈونلڈ لو نے دھمکی آمیز پیغام دیا۔عمران خان صاحب اس کا پیغام ملنے کے باوجود اپنی قوم پرستی پر ڈٹے رہے تو پاکستان کے ’’چور اور لٹیروں‘‘کو ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا نسخہ فراہم کردیاگیا۔ غالباََ وہ نسخہ بھی کارگر ثابت نہ ہوتا۔ بدقسمتی مگر یہ ہوئی کہ امریکہ کی خوشنودی کے لئے ہمارے دائمی اداروں کے چند اہم افراد بھی ’’میر جعفر‘‘ کا کردار ادا کرنے کو تیار ہوگئے۔
مذکورہ بیانیے کو اقتدار سے فراغت کے بعد عمران خان صاحب نے سوشل میڈیا کے تمام تر پلیٹ فارم استعمال کرتے ہوئے مزید جارحانہ انداز میں ثابت قدمی سے دہرانا شروع کردیا۔ ان کی کاوشوں نے وطن عزیزمیں ’’انقلابی فضا‘‘ کو توانا تر بنادیا۔ ان کا پیغام گھر گھر پہنچانے نوجوان نسل کی مؤثر تعداد متحرک ہوگئی۔ ’’فرسودہ‘‘ ذہن کے مالک صحافی اس کی شدت کا اندازہ ہی نہ لگاپائے۔
عمر کے آخری حصے میں داخل ہوجانے کے باوجود میں ابھی ’’سترابہترا(70-72)‘‘ نہیں ہوا ہوں۔غالبؔ کی طرح مجھے بھی ماضی کا اسیر رہنے کی عادت نہیں۔جو نئی چیز اور سماجی رویے رونما ہورہے ہوتے ہیں انہیں کھلے ذہن کے ساتھ سمجھنے کی کوشش کرتا ہوں۔سوشل میڈیا کے اثر سے لہٰذا کبھی غافل نہیں رہا۔ پاکستان کو تاہم دُنیا سے کٹا جزیرہ بھی تصور نہیں کرتا۔ ہماری طرح دُنیا کے بے تحاشہ ممالک ہیں جہاں کے حالات ہمارے ہی جیسے ہیں۔ان میں بھی آبادی کی اکثریت نوجوان نسل پر مشتمل ہے۔اپنے ہاں کی سیاست کا لہٰذا وہاں کے سیاسی حالات سے موازنے کی سنجیدہ کوشش میں مصروف رہتا ہوں۔
مذکورہ جستجو مجھے اکثر اس سوال پر غور کرنے کو مجبور کرتی ہے کہ مصر میں ’’التحریر اسکوائر‘‘ کا بالآخر انجام ایک اور فرعون نما آمر کی صورت ہی کیوں ہوا۔ اس سوال کا جواب ڈھونڈتے ہوئے ترکی سے ابھری ایک محقق صحافی زینب توفیقی کے لکھے مضامین سے بھی رجوع کرنے کو مجبور ہوا۔صحافت کے ہنر کو عالمی اعتبار سے گرفت میں لانے کے لئے وہ امریکہ آئی تھی۔اس کے ملک میں بھی جمہوریت ’’مثالی‘‘ نہیں ہے۔ ’’سلطان اردون‘‘ کا مل گرفت کا حامل ہے۔
’’عرب بہار‘‘ کے نتیجے میں مصر میں بھی ’’التحریر اسکوائر‘‘ نمودار ہوا تو اس نے برسرزمین جاکر وہاں ابھرتے ’’انقلاب‘‘ کے مشاہدے کی ٹھان لی۔مصر پہنچ جانے کے بعد وہ ’’ٹویٹر‘‘ سے بہت متاثر ہوئی۔مصر رہی کہ یہ پلیٹ فارم دور ِ حاضر میں عوام کو آمرانہ نظام کے خلاف متحرک کرنے میں کلیدی کردار ادا کرنے کی صلاحیت سے مالا مال ہے۔اپنے قیام مصر کے دوران اس نے کئی واقعات بیان کئے جو گواہی دیتے تھے کہ کیسے ریاستی جبر کے خوف سے گھروں میں دبک کر بیٹھے نوجوان بچے اور بچیاں محض ٹویٹر پیغامات کی وجہ سے ازخود ’’التحریر اسکوائر‘‘ میں جمع ہوکر انقلاب کے خواہاں ہجوم کا حصہ بننا شروع ہوگئے۔ ’’التحریر اسکوائر‘‘ مگر بالآخر وقتی طورپر ’’چڑھے دریا‘‘ کی طرح’’ٹھس‘‘ ہوگیا۔امید کھودینے کے بجائے زینب توفیقی نے نہایت خلوص اور لگن سے یہ جاننے کی کوشش شروع کردی کہ مصر ’’التحریر اسکوائر‘‘ جیسے واقعہ کے باوجود بالآخر’’آنے والی تھاں‘‘پر کیوں واپس آگیا ہے۔تحقیق کے ان دنوں میں اس نے زیادہ توجہ ’’ٹویٹر‘‘ جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارموں کی ’’محدودات‘‘ دریافت کرنے پر مرکوز رکھی۔مذکورہ توجہ کی بدولت اس نے مصر جیسے ممالک کی دائمی اشرافیہ کے بنائے اس بندوبست کی طاقت کو بہت مہارت سے دریافت کرلیا جو عوام کو شہری کے حقوق سے کامل محروم رکھتے ہوئے محض ’’جی حضوری‘‘ والی ’’رعایا‘‘ بنائے رکھتا ہے۔ ہمارے ’’اقبال‘‘ نے اس روش کو ’’خوئے غلامی‘‘ پکارا تھا۔اس کے بارے میں مستقل فکر مند رہے۔اس کا توڑ مگر ڈھونڈ نہیں پائے۔
شہباز گل کی گرفتاری کے بعد تحریک انصاف کی صفوں میں جو رویہ ابھرتا نظر آرہا ہے مجھے مجبور کررہا ہے کہ دوبارہ زینب توفیقی کے لکھے مضامین سے رجوع کروں۔شاید دریافت ہوجائے کہ ’’تاہنگاں والے نین کدوں سکھ نال سون گے۔‘‘
خوئے غلامی اور دور حاضر میں سوشل میڈیا کا اثر
Aug 12, 2022