اس وقت ہمارے سیاست دانوں کی تمام تر توجہ قومی مسائل کو حل کرنے کی بجائے اقتدار چھیننے اور اقتدار بچانے پر مرکوز ہے۔ اپنے ان سیاسی مفادات اور اقتدار کے حصول کے لیے وہ ایک دوسرے پر ہر طرح کے الزامات لگانے کے ساتھ ساتھ گالی گلوچ بھی کر رہے ہیں۔ ملک دشمن، غدار، جمہوریت دشمن ، آئین شکن ، سازشی، غیر ملکی ایجنٹ ہونے کے طعنے دئیے جا رہے ہیں۔ اپنے مخالفین کو زِچ کرنے کے لیے پرنٹ، الیکٹرونک اور سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کیا جا رہا ہے اور خاص کر سوشل میڈیا پر اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف جو دشنام تراشی اور اخلاق سے گرے ہوئے پیغامات دئیے جا رہے ہیں اس پر عوام ایسی جمہوریت اور سیاست سے توبہ توبہ کر رہے ہیں اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اس وقت ملک کو جن نامساعد حالات اور معاشی بدحالی کا سامنا ہے اور عوام مہنگائی ، بے روزگاری، ناانصافی، ظلم اور زیادتی کا شکار ہو رہے ہیں اس کی تمام تر ذمہ داری ہمارے ان عاقبت نا اندیش اور مفاد پرست سیاستدانوں کے سر ہے۔ ویسے تو پاکستان میں اقتدار کے حصول کی جنگ حضرت قائد اعظم کی وفات کے بعد سے ہی شروع ہو گئی تھی اور قائد ملت لیاقت علی خان کی شہادت بھی اقتدار کے بھوکے انہی سازشیوں کی وجہ سے ہوئی تھی اور پھر سیاست کے اسی پراگندہ کھیل کی وجہ سے کئی وزیر اعظم آئے اور پھر معزول کردئیے گئے، متعدد سے زبردستی استعفے لیے گئے۔
مکافات عمل کے اس تسلسل میں گن پوائنٹ پر اقتدار لیا بھی گیا اور پھر گن پوائنٹ پر اقتدار چھینا بھی گیا۔ یقیناً یہ سب کچھ ہماری سیاسی تاریخ کا نہ بھولنے والا المیہ ہے لیکن افسوس ناک بات یہ ہے کہ ہمارے سیاست دانوں نے نہ تو پاکستان کی ماضی کی سیاسی تاریخ سے سبق سیکھا اور نہ ہی آج کی بدلتی ہوئی صورتحال کو سمجھا۔ دن رات جمہوریت جمہوریت کا راگ الاپنے والے سیاست دان کب ہوش کے ناخن لیں گے؟ جمہوریت کے بنیادی ستون بلدیاتی اداروں کا گلہ گھونٹ کر اور ان پر کاٹھی ڈالنے والے کس منہ سے جمہوریت کا چیمپئن بننے کی سعی کر رہے ہیں۔ ان کے انہی غیر جمہوری رویوں،حرکتوں اور سازشوں کی وجہ سے عوام کا اس ’’نادرشاہی لولی لنگڑی اور عجوبہ جمہوریت‘‘ س پر سے اعتماد تیزی سے اٹھ رہا ہے۔ دوسروں کو چور، ڈاکو، لٹیرے، کرپٹ ، بے ایمان کہنے والے یہ سیاستدان اگر اپنے اعمال کا خود ہی جائزہ لیں اور فارن فنڈنگ کیس، منی لانڈرنگ کیس اور دیگر عدالتی مقدمات کا سامنا کریں تو قوم کو ان کے صادق اور امین ہونے کا واضح طور پر پتہ چل جائے گا۔ ہمارے سب سیاستدان عدالتوں میں اپنے زیرِ سماعت مقدمات کو طول دینے کے لیے ہر حربہ استعمال کرتے ہیں تاکہ انصاف کی راہ میں روڑے اٹکائے جائیں اور یہ اپنے اعمال کی سزا سے بچ سکیں۔ یہ ہمارے حکمرانوں اور سیاست دانوں کے اعمال کی سزا ہے جو ملک و قوم کو مل رہی ہے اور ہم غیر ملکی قرضوں اور گردشی قرضوں کے چنگل میں بُری طرح پھنس چکے ہیں۔
افسوس ناک بات یہ ہے کہ قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہونے کے باوجود ہم ا ب بھی غیر ملکی قرضوں کے حصول کے لیے ہاتھ پائوں مار رہے ہیں۔ اپنی ناقص منصوبہ بندی، انتظامی اور مالیاتی کمزوریوں اور ناکامیوں کی سزا ملک و قوم کو دینے والے یہ سیاست دان کب ہوش میں آئیں گے؟ ایک دوسرے کو گالیاں دینا، الزامات لگانا، سیاسی معاملات کو سیاسی میدان ’’پارلیمنٹ‘‘ کی بجائے عدالتوں میں گھسیٹنا اور پھر عدلیہ کو انڈر پریشر لانے کے لیے سوشل میڈیا سمیت ہر حربہ استعمال کرنا کیا اسے جمہوریت کہتے ہیں؟ سیاستدانوں کی یہ لڑائی اور دھینگا مشتی بازاروں گلیوں اور گھروں تک پہنچ چکی ہے۔ ایک طوفان بدتمیزی ہے جو کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتا ہی جا رہا ہے اور اصلاح احوال کی کوئی صورت دور دور تک نظرنہیں آتی۔
یہ کس قدر تکلیف دہ امر ہے کہ اسلام کے نام پر وجود میں آنے والے اس ملک میں اسلامی اور اخلاقی اقدار ہر سطح پر پامال ہو رہی ہیں۔ ملکی سالمیت ، ساکھ، وقار اور عزت کا کوئی خیال نہیں رکھا جا رہا۔ ہمارے سیاستدان کیل کانٹوں سے لیس ڈنڈوں کے ساتھ ایک دوسرے کو ’’پھینٹا لگانے‘‘ کی دھمکیاں دے رہے ہیں اور اس کا عملی مظاہرہ بھی کئی بار کر چکے ہیں۔ ملک کے آئینی اداروں اور عدلیہ کو متنازعہ بنانے کا ناٹک بھی کھیلا جا رہا ہے، نیوٹرل کو طعنے دے کر اشتعال دلایا جا رہا ہے اپنے سیاسی مخالفین کو نیچا دکھانے کے لیے ہر طرح کی’سازشیں کی جا رہی ہیں۔ اقتدار کی کرسی کے حصول کے لیے ہر حربہ استعمال کیا جا رہا ہے دوسری طرف عوام مہنگائی کی چکی میں پستے چلے جا رہے ہیں ۔پٹرول ڈیزل مٹی کا تیل گیس اور بجلی کی قیمتوں میں آئے دن اضافہ ہو رہا ہے ۔ادویات کی قلت ہو رہی ہے۔ زرعی اور صنعتی پیداوار تیزی سے گر رہی ہے۔ ڈالر اور سونے کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور غلط مالیاتی پالیسیوں کی وجہ سے پاکستانی روپے کو ہر روز ’’پھینٹی لگ‘‘ رہی ہے۔ لولی لنگڑی جمہوریت کو افضل قرار دینے والے ہمارے یہ سیاست دان خود کبھی بھی جمہوری رویوں کا مظاہرہ نہیں کرتے وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ سیاستدانوں کی محض اقتدار کے لیے یہ سیاسی رسہ کشی کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ ہو سکتی ہے پھر انہیں سیاسی اور اخلاقی اقدار کا خیال آئے اور سیاست میں شائستگی کی اہمیت کا علم ہو گا۔ اب بھی وقت ہے کہ وہ اپنی سیاسی لڑائیاں پارلیمنٹ کے اندر لڑیں اور گالم گلوچ، الزام تراشی کا سلسلہ ترک کر دیں ورنہ سیاستدان اپنے اعمال کے خود ذمہ دار ہوں گے۔