اسوہ شبیریؓ

پروفیسر ڈاکٹر حبیب اللہ چشتی
 سید الشہداء سیدنا امام حسینؓ کو اللہ تعالیٰ نے اس قدر اوصاف و کمالات عطاء فرمائے جن کا شمار ممکن نہیں ہے اور قسام ازل نے آپ کو اتنے فضائل و مناقب سے نوازاکہ عقل انسانی ان کا ادراک کرنے سے قاصر ہے۔ رزاق دو عالم نے آپ کی ذات والا صفات کو وہبی اور کسبی خوبیوں کا پیکر تمام بنا دیا تھا۔ آپ رسول اولین و خریںؐ کے نواسے، سیدنا علی ابن ابی طالب ؓکے لخت جگر اور سیدہ نساء العالمین حضرت فاطمہ الزہرا ؓ کے نور نظر ہیں۔آپ کی تعلیم و تربیت ولایت اور نبوت کے ماحول میں ہوئی۔ یہ فضائل عطائے ربانی اور عطیہ خداوندی ہیں۔ آپ کی شخصیت کی تکمیل اور آپ کی پوری حیات مبارکہ انسانیت کے لیے نمونہ عمل بننے میں یہ فضائل وہبی ایک بنیاد کی حیثیت رکھتے ہیں۔
آپ کی عظمتیں اورفضیلتیں اتنی کہ بیان سے باہر اور فضائل و مناقب و مناقب اتنے کہ شمار سے ماورا۔ خداوند ازل نے آپ کو شرف صحابیت بھی بخشا اور اہل بیت اطہار میں سے ہونے کی فضیلت بھی عطا فرمائی۔ نگاہ نبوت میں جو آپ کی قدر و منزلت تھی اس کا اظہار نبی کریمؐ نے تواتر سے فرمایا کہ جس کا انکار چمکتے سورج کے انکار سے بھی مشکل ہے۔ واضح رہے کہ رسول کریمؐ کی آپ کی ذات گرامی سے اتنی محبتیں تھیں محض نواسہ ہونے کے ناطے سے نہیں تھیں بلکہ آپ کا جو مقام و مرتبہ تھا اسے ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے تھیں، کیونکہ رسول کریمؐ نے فرمایا’’جس نے اللہ تعالیٰ کے لیے کسی سے محبت کی اور اللہ تعالیٰ کے لیے کسی سے دشمنی کی اور جسے کچھ دیا تو اللہ تعالیٰ کے لیے دیا اور اگر نہیں دیا تو اللہ تعالیٰ کے لیے نہیں دیا اس نے اپنا ایمان مکمل کر لیا‘‘۔ ایمان کی تکمیل اسی سے ہوتی ہے کہ انسان کسی سے محبت صرف اللہ تعالیٰ کے لیے کرے۔ فطری محبت اپنی جگہ پر لیکن رسول کریمؐ کی سید امام حسینؓ سے و بے پناہ محبتیں تھیں کہ کبھی آپ نے حضرت امام حسینؓ کی محبت کو اپنی محبت قرار دیا اور کبھی فرمایا کہ حسینؓ مجھ سے ہے میں حسینؓ سے ہوں۔ کبھی اپنا پھول قرار دیا اور کبھی فرمایا کہ جو کسی جنتی کو دیکھنا چاہے تو حسینؓ کو دیکھ لے اور کبھی فرمایا کہ حسنؓ اور حسینؓ جنتی جوانوں کے سردار ہیں(ترمذی)۔ رسول کریمؐ کی یہ منفرد محبتیں اس لیے تھیں کہ ’’پ‘‘ خوب جانتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک امام حسین کا مقام اور مرتبہ کیا ہے۔
؎ سو جان سے فدا تھے کیوں نبیؐ حسینؓ پر
عقدہ کھلا یہ مرحلہ کربلا کے بعد
تمام صحابہ کرام بھی حضرت امام حسینؓ کا بے حد احترام کرتے تھے۔ ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن عمر کعبہ کے سائے میں بیٹھے ہوئے تھے کہ حضرت امام حسینؓ کو تشریف لاتے ہوئے دیکھا تو آپ نے فرمایا کہ آ سمان والوں کو اور زمین والوں کو ان سے بڑھ کر کوئی محبوب نہیں ہے۔(الاصابہ)
 ان محبتوں اور عقیدتوں کے ماحول میں پلنے کے باوجود امام حسینؓ عجز و انکسار اور عاجزی و فروتنی کا پیکر تھے۔ ایک مرتبہ  آپ نے چند مزدوروں کو دیکھا کہ وہ بازار میں بیٹھ کر کھانا کھا رہے تھے۔ انہوں نے آپ کو کھانے کی دعوت دی۔ آپ  نے فوراً ان کی دعوت قبول کی اور کھانا کھانے کے بعد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تکبر کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ پھر آپ نے ان مزدوروں کو اپنے گھر کھانے پر مدعو کیا اور اپنی خادمہ سے فرمایا جو کچھ گھر میں ہے لے آئو اور پھر مختلف قسم کے کھانوں سے ان کی تواضع کی۔ غرباء پروری اور سخاوت میں آپ کا ایک منفرد اور ممتاز مقام تھا۔ کوئی سائل آپ کے دروازے سے خالی نہیں جاتا تھا،  آپ  غرباء کو ان کی ضروریات ان کے گھروں میں بھی پہنچاتے تھے۔ غریبوں کے قرض خود ادا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ کسی ضرورت مند نے   آپ سے سوال کیا:  آپ نے اپنے غلام سے پوچھا گھر میں کچھ ہے تو اسی نے عرض کی جو کچھ تھا غریبوں میں تقسیم کر دیا ہے جو آپ نے دو سو درہم اہل بیت میں تقسیم کرنے کو دیئے تھے وہ باقی ہیں فرمایا وہی لے آئو اور وہ درہم اس سائل کو دے دیئے۔
 اتنے زیادہ فضائل کسبیہ اور اہل ایمان کی محبتوں اور عقیدتوں کے باوجود  آپ کسی خوشی فہمی میں مبتلا نہیں تھے اور اللہ تعالیٰ کی عبادت اتنی کثرت سے کیا کرتے تھے کہ جو قیامت تک ہونے والے اہل ایمان کے لیے مشعل راہ ہے اور بالخصوص ان لوگوں کے لیے جنہیں اللہ تعالیٰ نے کسی بہت مقدس خاندان میں پیدا کیا ہے اور لوگ ان کی خاندانی وجاہت کے سبب ان کا احترام بجا لاتے ہیں۔ اسوہ شبیریؓ سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عطائیں اللہ تعالیٰ کی عبادت کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننی چاہئیں بلکہ ان چیزوں کا شکر الٰہی بجا لانے کے لیے عبادت الٰہی کا محرک بننا چاہیے۔ سیدنا امام حسینؓ سے بڑھ کر کسی کا خاندان مقدس نہیں لیکن آپ کی عبادت و ریاضت کا یہ عالم تھا۔ علامہ جزری لکھتے ہیں  آپ کثرت سے نمازیں پڑھنے والے، روزے رکھنے والے، حج کرنے والے اور صدقہ دینے والے تھے اور نیکی کے تمام کاموں میں شدت سے شغف رکھنے والے تھے(اسد الغایہ)۔  آپ نے پیدل چل کر پچیس حج کیے۔  آپ راتوں کو لمبا قیام  کرنے والے اور دن کو کثرت سے روزے رکھنے والے تھے۔
 آپ جذبہ جہاد سے سرشار تھے جس لشکر نے افریقہ میں جہاد کیا۔ آپ ایک مجاہد کی حیثیت سے اس میں شامل تھے اور جہاد کرتے ہوئے مغرب اقصیٰ تک جا پہنچے تھے۔ طبرستان کے جہاد میں بھی شریک  رہے اور جس جہاد اور استقامت نے  آپ کی ذات گرامی کو ایک حقیقت ابدی بنا دیا وہ معرکہ کربلا ہے۔ علامہ اقبال نے واقعہ کربلا کے اسباب اور نتائج بیان کرتے ہوئے بڑے اختصار اور جامعیت کے ساتھ فرمایا:
جب خلافت نے قرآن سے رشتہ توڑ لیا اور حریت کے حلق میں زہر ڈال دیا گیا ان حالات میں بہترین اُمت کا نمایاں ترین جلوہ یوں اُٹھا جیسے قبلہ کی جانب سے گھنگھور گھٹا اُٹھتی ہے۔ یہ گھنگھور گھٹا کربلا کی زمین پر برسی اور چھٹ گئی۔ ویرانوں کو لالہ زار بنا دیا اور چل دی۔ قیامت تک ظلم اور مطلق العنانی کی جڑ کاٹ دی۔ آپ کی موج خوں نے حریت کا گلزار کھلا دیا۔سیدنا امام حسین ؓ کی شان اقدس میں علامہ اقبال پھر فرماتے ہیں: آپ حق کی خاطر خاک و خوں میں تڑپے اور کلمہ توحید کی بنیاد بن گئے(اسرارخودی)۔ کلمہ حق کہنا اور باطل کے آگے کبھی نہ جھکنا یہ اسوہ شبیریؓ کا نمایاں ترین پہلو ہے۔  آپ کی پوری زندگی ہی اہل ایمان کے لئے مشعل راہ ہے۔امام عالی مقام ؓ کی حیات مبارکہ کا طرۂ امتیاز باطل کے گے کبھی نہ جھکنا،ایک اٹل حقیقت ہے ،بے شک سب کچھ قربان ہو جائے:

کٹا کر گردنیں بتلا گئے ہیں کربلا والے
 کبھی باطل کے آگے جھک نہیں سکتے خدا والے 

ای پیپر دی نیشن