سابق وزیر اعظم نے اپنی حکومت کے خاتمے سے چند روز قبل ایک پبلک جلسے میں جس سائفر کا ذکر کرتے ہوئے امریکی سازش کا الزام لگایا تھا البتہ کچھ عرصہ بعد انھوں نے اپنا موقف تبدیل کر لیا تھا اور سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو سازش کا ذمہ دار قرار دیا تھا۔ امریکی ویب سائٹ انٹر سیپٹ نے اس سائفر کا متن شائع کر دیا ہے۔ خبر میں لکھا گیا ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی کی حکومت کو گرانے کے پیچھے امریکی دباؤ کار فرما نظر آتا ہے۔ امریکی سفارت کار نے کہا تھا کہ اگر عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو گئی تو سب کچھ معاف کر دیا جائے گا۔ دی انٹر سیپٹ کے مطابق امریکی دفتر خارجہ نے چیئرمین پی ٹی آئی کی حکومت کو گرانے کی حمایت کی تھی۔ روس کے یوکرائن پر حملے کے بعد وزیراعظم پاکستان کے روس کے دورے سے امریکہ ناراض ہو گیا تھا۔ سائفر سے اس بات کا اشارہ ملتا ہے کہ امریکہ نے چیئرمین پی ٹی آئی کی حکومت کو گرانے پر تعلقات میں بہتری کا وعدہ کیا تھا اور نہ ہٹانے پر پاکستان کو تنہا کرنے کی دھمکی دی تھی۔
امریکہ میں پاکستان کے سفیر اسد مجید نے وزارت خارجہ کو ایک مراسلہ ارسال کیا تھا جس میں امریکہ کی دھمکی کے بارے میں آگاہ کیا تھا اور سفارش کی تھی کہ پاکستان میں امریکی سفیر کو بلا کر اسے ڈیمارچ کیا جائے۔ انٹر سیپٹ میں شائع ہونے والے متن کے مطابق امریکی اسسٹنٹ سیکریٹری آف سٹیٹ ڈونلڈ لو کی پاکستان کے سفیر اسد مجید سے ملاقات ہوئی جس میں امریکی محکمہ خارجہ کے حکام بھی موجود تھے۔ ڈونلڈ لو نے کہا کہ امریکہ اور یورپ کے لوگ یو کرائن جنگ کے سلسلے میں پاکستان کے غیر جانبدار موقف پر سخت پریشان ہیں۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی واضح طور پر وزیر اعظم کی پالیسی نظر آ رہی ہے۔ پاکستان کے سفیر اسد مجید نے اس تاثر کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ یو کرائن کے سلسلے میں پاکستان کا موقف حکومتی اداروں کے درمیان مکمل مشاورت کے بعد طے پایا ہے۔ ڈونلڈ لو نے واضح طور پر امریکہ کے شدید ردعمل کی وجہ وزیر اعظم پاکستان کے دورہ روس کو قرار دیا۔ پاکستان کے سفیر اسد مجید نے ڈونلڈ لو سے استفسار کیا کہ اگر امریکہ کو وزیر اعظم کے دورہ روس کے سلسلے میں تحفظات تھے تو اس نے دورے سے پہلے حکومت پاکستان سے ان کا اظہار کیوں نہ کیا۔ امریکی اہل کار نے کہا کہ پاکستان کے سیاسی حالات نہایت کشیدہ تھے ،لہٰذا ان حالات میں امریکہ نے پاکستان سے رابطہ کرنا مناسب نہ سمجھا۔ پاکستان کے سفیر کی رائے تھی کہ ڈونلڈ لو نے جو باتیں کیں ان کو وائٹ ہاؤس کی تائید حاصل تھی۔ انٹر سیپٹ نے سائفر کے سلسلے میں اپنا سورس ملٹری بتایا ہے۔
سائفر کے متن کے افشاء کے بعد امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ سائفر کی بنیاد بننے والی پاکستانی سفیر سے امریکی وزارت خارجہ کے افسر کی گفتگو میں امریکی اہلکار کی باتوں کو سیاق و سباق سے ہٹ کر سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ امریکی ترجمان نے انٹر سیپٹ میں شائع ہونے والے متن کی تصدیق نہیں کی اور کہا کہ امریکہ نے پاکستان کی داخلی سیاسی صورتحال میں مداخلت نہیں کی۔ یہ الزامات غلط ہیں کہ امریکہ نے حکومت کو گرانے میں کردار ادا کیا۔ سائفر کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ سفارت کاری کے فن کے مطابق سائفر اس خفیہ مراسلے کو کہتے ہیں جس میں کسی ملک کا سفارت کار اپنے ملک کو ریاست کے قومی مفاد میں حساس نوعیت کی خبروں سے آگاہ کرتا ہے۔ سائفر ایک قومی راز ہوتا ہے جسے افشاء نہیں کیا جاسکتا۔ پاکستان کے آئینی حلف کے مطابق ریاست کے صدر اور وزیراعظم ایسے قومی رازوں کو افشاء نہ کرنے کے پابند ہوتے ہیں جن کا تعلق قومی سلامتی سے ہو۔ سابق وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کے اقبالی بیان کے مطابق پی ٹی آئی کے چیئرمین نے سائفر کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا اور سائفر کی کاپی گم کر دی۔ پاکستان کے قوانین کے مطابق اس نوعیت کے سائفر کی کاپی وزیراعظم وزیر خارجہ اور آرمی چیف کو دی جاتی ہے۔ جو لوگ سائفر کی تاریخ اور اس کے نتائج کو سمجھنا چاہتے ہیں وہ کتاب ’خفیہ پیپرز‘ کا مطالعہ کریں جن میں امریکہ اور برطانیہ کے وہ سائفرز شامل کیے گئے ہیں جو قیام پاکستان کے 30 سال بعد ڈی کلاسیفائی کیے گئے۔ یہ کتاب علم و عرفان پبلشرز اردو بازار لاہور نے شائع کی ہے۔ مبصرین سائفر کے افشاء کی ٹائمنگ کو بڑی اہمیت دے رہے ہیں۔
پاکستان کے سابق وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے ایک بار پھر کہا ہے کہ سائفر کے افشاء اور گمشدگی کے سلسلے میں تحقیقات ہونی چاہیے تاکہ اصل حقائق عوام کے سامنے آ سکیں۔ پاکستان کی تاریخ شاہد ہے کہ سیاست دان اکثر اوقات قومی مفاد کو سیاسی مفاد کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں۔ چین کی ترقی کا راز یہ ہے کہ کمیونسٹ پارٹی نے ایک پارٹی سکول قائم کر رکھا ہے جس میں چین کے فیوچر لیڈرز کی تعلیم و تربیت کی جاتی ہے تاکہ وہ اپنے حکومتی فرائض بہتر طور پر انجام دے سکیں۔ افسوس پاکستان میں کوئی پولٹیکل اکیڈمی نہیں ہے اور کوئی بھی شخص تعلیم و تربیت کے بغیر سیاست دان بن کر حکومت کے اہم عہدے پر فائز ہو سکتا ہے۔
پاکستان میں شفاف اور اہل افراد کی کمی نہیں ہے مگر نیشنلزم کے فقدان کی وجہ سے ٹیلینٹڈ افراد کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ پاکستان میں چونکہ میرٹ کی قدر نہیں کی جاتی اور اقربا پروری کا مرض پھیل چکا ہے اس لیے پاکستان سے برین ڈرین ہو رہا ہے۔ ٹیلینٹڈ نوجوانوں کو پاکستان کے اندر سازگار ماحول نہیں ملتا، لہٰذا وہ بیرون ملک جا کر اپنی خدادا صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہیں اور ترقی کے معاون بنتے ہیں۔ اگست آزادی کا مہینہ ہے۔ ہمیں اپنا محاسبہ کرنا چاہیے کہ ہم علامہ اقبال اور قائد اعظم کے تصورات اور نظریات پر عمل کرنے میں کہاں تک کامیاب ہوئے ہیں۔ کیا ہم آج کے پاکستان کو قائد اعظم کا پاکستان کہ سکتے ہیں اگر نہیں تو ہم اپنا سیاسی قبلہ درست کریں تاکہ ہم موجودہ سیاسی معاشی اور سماجی بحران سے باہر نکل سکیں اور جمہوری فلاحی ریاست کی تشکیل کا خواب پورا کر سکیں۔
٭…٭…٭