تحریک آزادی میں بلوچستان کا کردار

1938 ء میں گرمی کا موسم تھا ایک دن یہ اعلان ہوا کہ شام کے وقت اینڈرسن روڈ(موجودہ لیاقت بازار)فروٹ مارکیٹ کے جنوب میں خالی پلاٹ پر ایک جلسہ عام ہوگا افواہ یہ تھی کہ یہ جلسہ مزدوروں کی بھلائی کیلئے کیا جارہاہے۔ شام کے وقت لوگ گروہ در گروہ وہاں پہنچے کہ دیکھیں مزدوروں کی بہتری کی خاطر کی کیاپروگرام بنایا جاتاہے۔ سارا پلاٹ لوگوں سے بھرا پڑا تھا اور لوگ چاروں طرف سڑکوں پرجمع تھے۔ سٹیج پر ایک کرسی ملک جان محمد، جوبعد میں بلوچستان مسلم لیگ نیشنل گارڈ کے پہلے سالار اعلیٰ مقررہوئے بیٹھے تھے۔ سٹیج پر چند اور لوگ بھی تھے۔ ملک جان محمد کی صدارت میں جلسہ تلاوت قرآن مجید کے بعد شروع ہوا اس میں بولنے والوں کا علم نہ ہوسکاملک جان محمدکی تقریر کا ایک فقرہ یہ تھا۔ ’ہندوستانی مسلمانوں کی جماعت مسلم لیگ ہے۔ ہم لوگ بھی مسلمان ہیں اس لیے ہم بھی مسلم لیگ قائم کریں گے ا ور ضرور کریں گے۔ ‘ مسلم لیگ کی ضرورت اور اہمیت پر زور دیاگیا نعرہ تکبیر مسلم لیگ زندہ باد اور قائد اعظم زندہ باد کے نعروں میں بے شمار لوگوں نے مسلم لیگ میں شمولیت کا اعلان کردیا۔ اگرچہ یہ کوئی باقاعدہ مسلم لیگ کا جلسہ نہ تھا تاہم لوگوں کے خیالات کا آئینہ دار تھا۔ 
اب ذرا آئینی طور پر نظر ڈالتے ہیں کہ جب قاضی محمد عیسیٰ خان انگلستان سے بیرسٹری کرکے واپس آئے تو ان کا ارادہ سارے ہندوستان کا دورہ کرنے کا تھا۔ وہ اسی سلسلے میں بمبئی پہنچے۔ 1939 ء جنوری کا آخر تھا قائد اعظم سے انکی ملاقات بمبئی ریس کورس میں بتوسط نواب طالع محمد خان والئی ریاست پالن پور ہوئی۔ قائد اعظم نے تعارف کے بعد پہلا سوال یہ کیا کہ ’بلوچستان میں مسلم لیگ ہے؟قاضی محمد عیسی ٰ نے کہا ’میں ابھی انگلینڈ سے آیا ہوں میرا خیال ہے کہ وہاں مسلم لیگ نہیں ہے۔ ‘ یہ سن کر قائد اعظم نے پوچھا ’آپ خود کیوں مسلم لیگ کا کام شروع نہیں کرتے۔ ‘قاضی صاحب نے جواب میں  عرض کیا، حضور میں ابھی ابھی انگلستان سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد آیا ہوں۔ میں خود بھی نہیں جانتا کہ ایک سیاسی جماعت کی بنیاد کیسے رکھی جاتی ہے۔ جواب ملا تواچھا تم اور نواب صاحب کل میرے ہاں لنچ پرآنا۔قاضی صاحب کا کہنا ہے کہ دوسرے دن غروب آفتاب تک ملاقات جاری رہی اور قائد اعظم نے اسی نشت میں مجھے مسلم لیگی بنادیا۔ شام کو اپنی موٹر میں تاج محل ہوٹل تک بھجوایا۔ ان کی محبت اخلاص اور جذبے نے اس حد تک مجھے گرویدہ کردیاکہ پریکٹس کرنے کا خیال دل سے جاتارہااور میں واپس کوئٹہ پہنچ کرتندہی سے مسلم لیگ کی خدمت میں مصروف ہوگیا۔قاضی صاحب نے ایک اور موقع پر کہاتھا کہ میرے ہاتھوں پہلا شخص جس نے بلوچستان میں مسلم لیگ کی ممبری قبول کی وہ مرحوم اخوند زادہ عبدالعلی خان تھے۔  علامہ عبدالعلی اخوندزادہ بذات خود ایک نامور عالم تھے۔ ان کی ذہانت اور علم کا چرچا بلوچستان کے علاوہ قندہار کابل سندھ اور ہندوستان میں بھی تھا۔
 28جولائی 1939ء میں مولانا ظفر علی خان بلوچستان کے دورے پر آئے۔ سٹیشن پر مسلمانوں کے ایک بڑے مجمع نے آپ کا پرجوش استقبال کیا۔ خاکساروں نے بینڈ کے ساتھ مولانا کو سلامی دی۔ سٹیشن سے جلوس کی صورت میں آپ کو مسلم لیگ کے دفتر لایاگیا۔ مسلم لیگ کے دفتر کے سامنے آپ نے پرتپاک خیر مقدم کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہاکہ وہ پہلی دفعہ کوئٹہ آئے ہیں۔ انہوں نے سنا تھا کہ زلزلہ عظیم سے کوئٹہ تباہ وبرباد ہوگیا ہے لیکن آج وہ اس کو شاد و آباد دیکھ رہے ہیں۔ یہی حالت امت مسلمہ کی ہے۔ اس لیے اس کا شیرازہ تو منتشر ہوسکتا ہے لیکن یہ تباہ وبرباد نہیں ہوسکتی۔
1940ء کے تاریخی اجلاس کے موقع پر قائد اعظم نے قاضی محمد عیسٰی کے ہمراہ بلوچستان کے وفد کی صورت میں تین طالب علموں فضل احمد غازی، ملک عبداللہ جان کاسی اور فتح محمد بلوچ کو چائے کی دعوت پر بلایا۔ پہلے تو قائد اعظم نے انھیں اپنی تحریک کے مقاصد اور اس تنظیم کے اجزائے ترکیبی سے روشناس کرایاپھر ان تینوں کی خاموشی پر گویا ہوئے ’تم بولتے کیوں نہیں؟ یاد رکھومیں یہ تحریک اس لیے چلارہاہوں کہ برصغیر کے مسلمانوں اور خاص کر نوجوانوں میں گویائی کی قوت پیداہو۔میں یہ ہر گز پسند نہیں کرتا کہ آپ میری ہاں میں ہاں ملائیں۔ اگر میرے نظریے اور طریق کار میں تمھیں کوئی ابہام محسوس ہوتاہے تواس کا اظہار کیوں نہیں کرتے تاکہ ہم بحث کرکے ایک دوسرے کو بہتر طور پر سمجھ سکیں۔ یہی وہ طریقہ ہے جس سے صحیح معنوں میں ایک منظم تنظیم وجود میں آسکتی ہے اور پھر گرج کر بولے میں جابر سلطان نہیں ہوں اور نہ ہی جابر سلطان بننا چاہتاہوں۔ اور تم وہ ہوجن کو ان کے آخری ،ابدی اور عالمگیر پیغمبر انحضرت ﷺنے حکم دیاہے کہ جابر سلطان کے سامنے حق کا اظہار سب سے بڑا جہاد ہے۔ اسی لئے تو کہتاہوں کہ بولولیکن بولنے سے پہلے جوکچھ کہنا چاہتے ہواسے حقانیت کے ترازومیں ضرور تولا کرو۔
قرارداد پاکستان اور بلوچستان کے پشتون
سردار محمد عثمان جوگیزئی نے اپنے مضمون ’ تحریک پاکستان میں کوئٹہ کے پشتونوں کا حصہ‘میں تحریر کیا ہے کہ 1940ء لاہور میں قرار داد پاکستان پاس ہونے کے بعد بلوچستان کے پشتون قاضی محمد عیسٰی کی سربراہی میں سردار غلام محمد خان ترین کی رہائش گا (پشین)پر جمع ہوئے۔ اس اجلاس میں علامہ عبدالعلی اخوند زادہ ،ارباب کرم خان کاسی،ملک جان محمد خان کاسی ،ملک شاہجہاں خان ،حاجی رحمت اللہ دومڑ اور خود سردار محمد عثمان جوگیزئی نے شرکت کی۔ ان سب حضرات نے متفقہ طور پر تحریک پاکستان کی حمایت کی اور ہر قسم کی مددکاوعدہ کیا۔ بعد میں مذکورہ بالا حضرات ڑوب کے مرکزی مقام قلعہ سیف اللہ میں سردار محمد عثمان جوگیزئی کے مکان پر جمع ہوئے اور یہاں بھی انہوں نے تحریک پاکستان کی متفقہ طور پر تائید کی اور اس کیلئے باقاعدہ کام کا آغاز کیا۔ 
9جولائی1943ء کو تاریخ میں پہلی مرتبہ دیہاتی بلوچستان کی پر عظمت پہاڑیاں جو صدیوں سے خاموش وپر سکوت تھیں قائد اعظم زندہ باد اور پاکستان لے کے رہیں گے ،کے فلک شگاف اور پرجوش نعروں سے گونجتی چلی گئیں جب قائد اعظم محمد علی جناح پشین تشریف لے گئے۔ پشین سے کچھ فاصلہ پر پاکستان گیٹ نصب تھا جس سے گزر کر قائد اعظم اور ان کی پارٹی کو جلوس کی صورت میں شہر کے بڑے بازار لے جایاگیا۔ گیٹ پر سردار غلام محمد خان ترین کی قیادت میں چھ ہزار لوگوں نے قائد اعظم کا خیر مقدم کیا تمام شہر کو دلہن کی طرح آراستہ کیاگیاتھا قائداعظم کی کار کے آگے پولیس بینڈتھا جسے خاص اس مقصد کیلئے کوئٹہ سے منگوایا گیا تھا ااور جس نے جلوس کی عظمت کو اور بھی دوبالا کردیا تھا لوگ اپنے قائد کی کار پر عقیدت کے پھول نچھاور کرتے جاتے تھے دور دراز علاقوں سے قبائیلی سردار ،ملک، بوڑھے ، جوان اور بچے سب اپنی اپنی عقیدت کے اظہار کے طور پر جلوس میں شریک تھے جلوس بالآخر سردار محمد خان ترین کے باغ میں جاکر ختم ہواجہاں لوگوں کی تعداد آٹھ ہزار تک پہنچ گئی۔ قائداعظم کیلئے مسند بچھایاگیاتھا۔ قائد اعظم نے لوگوں سے تقریر فرمائی کہ بلوچستان کو نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جانے لگاہے۔
 25 جون1943ء کو ساڑھے نو بجے شب حضرت قا ئداعظم کراچی میل سے سبی ریلوے سٹیشن پر جہاں ہندو ،مسلم پبلک ، مسلم لیگی حلقوں کے اراکین اورعوام موجود تھے،  گاڑی ٹھہرتے ہی بلوچستان مسلم لیگ کے وفد کے اراکین میر جعفر خان جمالی ، خان عبدالغفار درانی ، عبدالکریم فوراََ قائد اعظم محمد علی جناح کی خدمت میں پہنچ کر استقبالی حضرات کا تعارف کرانے لگے۔ عوام کے پر جوش نعروں سے فضا گونج رہی تھی قاضی دادمحمد صدر لیبر پارٹی بلوچستان نے بلوچی طرز کی مہمانی جس میں سجی تھی اپنے قائد کو پیش کی۔ آخر میں قائداعظم نے تمام حاضرین کاشکریہ چند سادہ اْردو جملوں میں ادا فرمایااور اتحاد ،اتفاق اور تنظیم ملت کیلئے ہجوم کو ہدایت فرمائی۔ 
قلات کے راستہ میں بمقام مستونگ سردار بہرام خان وزیر عدالت ریاست قلات نے چائے پارٹی دی قلات میں ہزاروں لوگ جو اپنے قائد کو دیکھنے کیلئے بے قرار تھے ان کا پرجوش خیرمقدم کیا۔ چاند باغ میں اعلیٰ حضرت خان آف قلات نے قائداعظم محمد علی جناح کا خیر مقدم کیا جناح کی آمد کے موقع پر قلات میں ڈنر دیاگیا جس میں تقریر کرتے ہوئے خان آف قلات نے قائداعظم کی تشریف آوری پر مسرت ظاہر کیا اور کہا کہ جناح صاحب کروڑوں مسلمانوں کے بلا اختلاف رہنماہیں جنکی تشریف آوری نے قلات کی عزت بڑھادی۔
آخر کار وہ گھڑی بھی آگئی جس کا سینکڑوں مسلمانوں کو انتظار تھا۔ چنانچہ صبح ساڑھے سات بجے صدر بلوچستان مسلم لیگ قاضی محمد عیسی نے سیکریٹریٹ پر پاکستان کا قومی جھنڈانصب کیا اس تقریب کا آغاز قرآن مجید کی تلاوت سے کیاگیا قاضی صاحب ہندوستان کی آزادی اور پاکستان کے قیام پر تقریر کرتے ہوئے کہاکہ ہم خوش نصیب ہیں کہ ہم یہ مبارک دن دیکھ رہے ہیں۔ آج سے اکثریت اور اقلیت کا جھگڑا ختم ہونا چاہیے اور سب کو مل کر اپنے عزیز وطن پاکستان کی ترقی کیلئے کوشش کرنی چاہیے۔ قاضی صاحب نے قائد اعظم محمدعلی جناح کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے اقلیتوں کو یقین دلایاکہ انکے حقوق پاکستان میں ہر طرح محفوظ ہیں۔ اسکے بعد مسلم لیگ نیشنل گارڈ اور مقامی سکولوں کے سکائوٹوں نے قومی جھنڈے کو سلامی دی اور اس سے وفاداری کا عہد کیا۔

ای پیپر دی نیشن

ہم باز نہیں آتے!!

حرف ناتمام…زاہد نویدzahidnaveed@hotmail.com یادش بخیر …یہ زمانہ 1960 کا جس کے حوالے سے آج بات ہوگی۔ یہ دور ایوب خاں کے زوال اور بھٹو ...