پیارے نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم کی پیاری پیاری باتیں!!!!!

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ کے زمانہ میں سورج گرہن ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم نماز پڑھنے کےلئے کھڑے ہو گئے اور آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم نے خوب لمبا قیام کیا پھر رکوع کیا تو خوب لمبا کیا پھر رکوع سے سر اٹھایا تو لمبا قیام کیا اور یہ پہلے قیام سے کم تھا پھر رکوع کیا تو خوب لمبا کیا لیکن پہلے رکوع سے کم، پھر آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم نے سجدہ فرمایا اور کھڑے ہو گئے اور خوب لمبا قیام کیا اور وہ پہلے قیام سے کم تھا پھر رکوع لمبا کیا اور وہ پہلے رکوع سے کم تھا پھر آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم نے سر اٹھایا اور قیام کو لمبا کیا اور وہ قیام پہلے سے کم تھا پھر لمبا رکوع کیا لیکن پہلے رکوع سے کم، پھر سجدہ کیا پھر نماز سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم فارغ ہوئے تو آفتاب کھل چکا تھا آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم نے لوگوں کو خطبہ دیا: سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں یہ کسی کے مرنے یا جینے کی وجہ سے بے نور نہیں ہوتے، جب تم گرہن دیکھو تو اللہ کی بڑائی بیان کرو اور اللہ سے دعا مانگو، نماز پڑھو اور صدقہ دو، اے امت محمد! اللہ سے بڑھ کر کوئی غیرت والا نہیں اس بات میں کہ اس کا بندہ یا بندی زنا کرے، اے امت محمد! اللہ کی قسم اگر تم وہ جانتے جو میں جانتا ہوں تو تم زیادہ روتے اور کم ہنستے، خبردار رہو! میں نے اللہ کے احکامات پہنچا دیے ہیں۔ 
حضرت ہشام بن عروہ ؓ نے اسی سند کے ساتھ حدیث نقل کی ہے اور اضافہ یہ ہے کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم نے فرمایا کہ سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں پھر آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم نے ہاتھ اٹھائے اور فرمایا اے اللہ کیا میں نے احکام پہنچا دیئے ہیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم کے زمانہ میں سورج گرہن ہوگیا تو آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم نے پکارنے والے کو بھیجا کہ وہ کہے نماز کے لئے جمع ہوجاو¿، لوگ جمع ہوگئے اور آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم آگے بڑھے تکبیر ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم نے دو رکعتوں کو چار رکوع اور چار سجدوں کے ساتھ پڑھایا ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم نے صلوہ خسوف میں قرات بالجہر کی، آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم نے دو رکعتوں میں چار رکوع اور چار سجدے کیے۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے بھی یہی روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم نے دو رکعتوں میں چار رکوع اور چار سجدے کیے۔ 
یحییٰ بن عمرہ سے روایت ہے کہ ایک یہودیہ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے آکر کچھ مانگا تو انہوں نے کہا اللہ تجھے عذاب قبر سے پناہ دے، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا: میں نے عرض کیا، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم لوگوں کو کیا عذاب قبر ہوگا؟ عمرہ کہتی ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم نے فرمایا اس سے اللہ کی پناہ، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم ایک صبح سواری پر سوار ہوئے تو سورج گرہن ہوگیا حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم اپنی سواری سے اتر کر اپنی نماز پڑھنے کی جگہ تشریف لائے، پس آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم کھڑے ہوگئے اور لوگ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم کے پیچھے کھڑے ہوگئے، عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم نے قیام طویل کیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم نے رکوع کیا، پھر کھڑے ہوئے، پھر پہلے قیام سے کم لمبا قیام کیا، پھر رکوع کیا تو طویل لیکن پہلے رکوع سے کم، پھر آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم نے سر اٹھایا تو سورج گرہن نکل چکا تھا، آپ نے فرمایا میں تم کو دیکھتا ہوں کہ تم قبروں میں آزمائے جاو¿ گے فتنہ دجال کی طرح، عمرہ کہتی ہیں میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے سنا وہ فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم سے اس کے بعد سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم عذاب دوزخ سے اور عذاب قبر سے پناہ مانگتے تھے۔ جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم کے زمانہ میں سورج گرہن ہو گیا، سخت گرمی کے دنوں میں آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم نے اپنے اصحاب کے ساتھ نماز ادا کی تو قیام کو اتنا لمبا کیا کہ لوگ گرنا شروع ہوگئے پھر لمبا رکوع کیا پھر سر اٹھایا طویل دیر تک کھڑے رہے پھر طویل رکوع کیا پھر سر اٹھایا تو دیر تک کھڑے رہے پھر دو سجدے کئے پھر کھڑے ہوئے تو اسی طرح کیا یہ چار رکوع اور چار سجدے ہوئے، پھر فرمایا مجھ پر ہر وہ چیز پیش کی گئی جس میں تم کو داخل ہونا ہے مجھ پر جنت پیش کی گئی حتی کہ میں اگر اس میں سے خوشہ لینا چاہتا تو لے سکتا تھا،ا فرمایا کہ میں نے اس میں سے کچھ لینا چاہا تو میرا ہاتھ قاصر رہا اور مجھ پر دوذخ پیش کی گئی تو میں نے اس میں دیکھا کہ بنی اسرائیل میں سے ایک عورت کو ایک بلی کو باندھنے کی وجہ سے عذاب دیا جارہا تھا جو نہ تو اس کو کھلاتی تھی اور نہ چھوڑتی تھی کہ وہ زمین کے کیڑے مکوڑے کھا لے اور میں نے ابوثمامہ عمرو بن مالک کو دیکھا کہ وہ دوزخ میں اپنی انتڑیاں گھسیٹتا پھرتا تھا، لوگ کہتے تھے کہ سورج اور چاند کسی بڑے کی موت کی وجہ سے بے نور ہوتے ہیں حالانکہ یہ اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں جن کو وہ تمہیں دکھاتا ہے جب وہ بے نور ہوجائیں تو نماز پڑھو یہاں تک کہ وہ روشن ہو جائیں۔ 
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ جس دن ابراہیم بن رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم کی وفات ہوئی اس دن سورج گرہن ہوا تو لوگوں نے کہا کہ یہ گرہن ابراہیم کی موت کی وجہ سے ہوا ہے تو نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم کھڑے ہوئے اور لوگوں کو چھ رکوعات اور چار سجدات کے ساتھ (دو رکعت) پڑھائیں، شروع میں تکبیر کہی پھر خوب لمبی قرات کی پھر اسی طرح رکوع کیا جس طرح قیام کیا پھر رکوع سے سر اٹھایا تو دوسری قرات سے کم قرات کی پھر کھڑے ہونے کی مقدار رکوع کیا پھر رکوع سے سر اٹھایا پھر سجود کےلئے جھکے تو دو سجدے کئے پھر کھڑے ہوئے تو اسی طرح ایک رکعت تین رکوعات کے ساتھ ادا کی اس طرح کہ اس میں ہر بعد والا رکوع اپنے سے پہلے والے رکوع سے کم ہوتا اور ہر رکوع سجدہ کے برابر تھا پھر آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم پیچھے ہٹے اور آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم سے پیچھے والی صفیں بھی پیچھے ہوئیں یہاں تک کہ ہم عورتوں کے قریب آگئے پھر آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم آگے بڑھے اور صحابہ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم کے ساتھ آگے بڑھے یہاں تک کہ اپنی جگہ پر جا کھڑے ہوئے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم نماز سے فارغ ہوئے اور سورج کھل چکا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم نے فرمایا: اے لوگو! سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں اور یہ لوگوں میں سے کسی کی موت کی وجہ سے بے نور نہیں ہوتے، ابوبکر نے کہا کسی بشر کی موت کی وجہ سے جب تم اس میں کوئی چیز دیکھو تو نماز پڑھو یہاں تک کہ وہ روشن ہوجائے، ہر وہ چیز جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے میں نے اپنی اس نماز میں اسے دیکھا ہے، میرے پاس دوزخ لائی گئی یہ اس وقت تھا جب تم نے مجھے اس کی لپٹ کے خوف سے پیچھے ہوتے دیکھا یہاں تک کہ میں نے اس میں نو کیلی لکڑی والے کو دیکھا جو اپنی انتڑیوں کو آگ میں کھینچتا تھا یہ حاجیوں کے کپڑے وغیرہ آنکڑے میں ڈال کر چرایا کرتا تھا اگر کسی کو اطلاع ہوجاتی تو کہتا کہ وہ آنکڑے میں الجھ گئی ہے اور اگر اسے پتہ نہ چلتا تو وہ لے کر چلا جاتا اور یہاں تک کہ اس میں میں نے ایک بلی والی کو دیکھا جس نے اس کو باندھ دیا تھا اور نہ تو اس کو کھلاتی اور نہ چھوڑتی تھی کہ وہ زمین میں سے کیڑے مکوڑے کھالے یہاں تک کہ مرگئی، پھر میرے پاس جنت لائی گئی یہ اس وقت جب تم نے مجھے آگے بڑھتے ہوئے دیکھا یہاں تک کہ میں اپنی جگہ پر کھڑا ہوگیا اور میں نے اپنا ہاتھ دراز کر کے اس کا پھل لینا چاہا تاکہ تمہیں دکھاو¿ں پھر میرا ارادہ ہوا کہ ایسا نہ کروں ہر وہ چیز جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے میں نے اس کی اپنی اس نماز میں دیکھا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم کی سنتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطاءفرمائے۔ آمین

ای پیپر دی نیشن