اسلام آباد (نمائندہ خصوصی+ عبدالستار چودھری+ خبر نگار خصوصی+ نوائے وقت رپورٹ) صدر عارف علوی نے وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف کو 12 اگست تک نگران وزیراعظم کا نام دینے کا کہہ دیا۔ ایوان صدر کے پریس ونگ کے مطابق صدر مملکت نے وزیراعظم محمد شہبار شریف اور تحلیل شدہ قومی اسمبلی کے قائد حزب اختلاف راجہ ریاض احمد کو خط تحریر کیا ہے جس میں کہا گیا ہے آئین کے تحت وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف کو قومی اسمبلی کی تحلیل کے 3 دن کے اندر نگران وزیراعظم کا نام تجویز کرنا ہوتا ہے۔ وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف 12 اگست تک موزوں نگران وزیراعظم کا نام تجویز کریں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے استفسار کیا ہے کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کو کس بات کی جلدی ہے؟ جو خط لکھ دیا ہے۔ صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو میں شہباز شریف نے کہا کہ نگران وزیراعظم کا فیصلہ آج رات تک ہوجائے گا، پوچھتا ہوں صدر کو کس بات کی جلدی ہے، جو خط لکھ دیا۔ انہوں نے کہا کہ خط لکھنے سے قبل صدر مملکت کو آئین پڑھ لینا چاہیے تھا، میرے بطور وزیراعظم پورے 8 دن ہیں، صدر آئین پڑھیں۔ شہباز شریف نے مزید کہا کہ نگران وزیراعظم کی تقرری تک میں وزیر اعظم ہوں، 3 دن میں فیصلہ نہ ہوا تو پارلیمانی کمیٹی 3 دن میں فیصلہ کرے گی۔ اور اگر پارلیمانی کمیٹی فیصلہ نہ کرسکی تو الیکشن کمیشن معاملہ دیکھے گا۔ وزیراعظم محمد شہباز شریف نے امید ظاہر کی کہ نگران وزیراعظم کے نام کا فیصلہ آج ہو جانے کا قوی امکان ہے۔ جمعہ کو یہاں وزیراعظم ہاﺅس کے بیٹ رپورٹرز کے ساتھ الوداعی بات چیت میں انہوں نے کہا کہ بطور وزیراعظم دور حکومت کے 16 ماہ میرے 38 سالہ سیاسی کیریئر کا سب سے مشکل وقت تھا تاہم تمام شراکت داروں کے مل کر کام کرنے اور کوششوں کے نتیجے میں حکومت نے مختلف محاذوں پر نمایاں کامیابیاں حاصل کیں۔ وزیراعظم محمد شہباز شریف نے کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ ایک بہت بڑا چیلنج تھا جس پر پوری ٹیم کی کوششوں سے قابو پایا گیا ورنہ ملک انتشار کا شکار ہو سکتا تھا۔ وزیراعظم محمد شہباز شریف نے سائفر سے متعلق خبر کا نام لئے بغیر کہا کہ کل جو کچھ ہوا اس نے سب کچھ بے نقاب کر دیا ہے۔ انہوں نے صحافیوں کو بتایا کہ حکومت نے خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کی شکل میں ایک طریقہ کار وضع کیا ہے جو کہ ملک کی ترقی اور خوشحالی کا وژن ہے۔ علاوہ ازیں نگران وزیراعظم کے معاملے پر مشاورت کے لئے وزیراعظم شہباز شریف اور اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض کے درمیان ملاقات راجہ ریاض کی مصروفیات کے باعث ممکن نہیں ہو سکی جس کے بعد دونوں رہنماﺅں کے پاس اتفاق رائے کے لئے آج رات 12 بجے تک کی مہلت رہ گئی ہے۔ اتفاق رائے نہ ہونے کی صورت میں یہ معاملہ پارلیمانی کمیٹی کے سپرد ہو جائے گا۔ ذرائع کے مطابق شہر اقتدار میں یہ چہ مگوئیاں زور پکڑ گئی ہیں کہ اپوزیشن لیڈر کے ناموں پر حکومتی اتحاد کو تحفظات کے باعث حکمت عملی کے طور پر یہ طے شدہ ملاقات ملتوی کر دی گئی۔ ادھر ذرائع نے یہ بھی بتایا ہے کہ نگران وزیراعظم کے لئے موجودہ چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی کافی فیورٹ بنتے جا رہے ہیں۔ چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی کی راجہ ریاض سے ملاقات ہوئی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ان ملاقاتوں کا مقصد نگران وزیراعظم کے تقرر کے لابنگ کے سوا کوئی اور نہیں ہے۔ ذرائع کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف آج لاہور میں اپوزیشن لیڈر سے نگران کے معاملے پر اتفاق رائے کے لئے آخری بار ملاقات کریں گے جس کے بعد اتفاق رائے نہ ہونے کی صورت میں معاملہ پارلیمانی کمیٹی کو بھیج دیا جائے گا اور دونوں رہنما دو دو ارکان پارلیمنٹ کے نام سپیکر کو بھجوائیں گے جو پارلیمانی کمیٹی کے قیام کا نوٹیفکیشن جاری کریں گے۔ ذرائع کے مطابق پارلیمانی کمیٹی کے پاس بھی اتفاق رائے کے لئے 15 اگست کی رات بارہ بجے تک کا وقت ہو گا۔ دوسری طرف وزیراعظم محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ نواز شریف آئندہ ماہ پاکستان آئیں گے اور قانون کا سامنا کریں گے، قوم ان کا بھرپور استقبال کرے گی، نااہلی کی مدت پانچ سال کرنے کا قانون موجود ہے، قانون سازی مقننہ کا اختیار ہے، سپریم کورٹ کا کام قانون سازی نہیں بلکہ اس کی تشریح ہے، آرمی چیف کی تعیناتی کیلئے 6 ناموں کی سمری میں موجودہ آرمی چیف کا نام پہلے نمبر پر تھا، 9 مئی کا واقعہ ریاست، فوج اور سپہ سالار کے خلاف بغاوت تھی، ہم نے اپنی سیاست قربان کرکے ریاست بچائی۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعہ کو نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کیا۔ ہم نے ریاست کو ڈیفالٹ ہونے سے بچایا۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان کے دور میں افراط زر ساڑھے تین فیصد سے 12 فیصد تک پہنچا، عمران خان نے گندم اور چینی پہلے برآمد کی پھر درآمد کی جس سے اربوں ڈالر کا نقصان ہوا، روس۔ یوکرین جنگ کی وجہ سے اشیاء خوردونوش کی قیمتوں میں نمایاں اضافہ ہوا، عمران نیازی نے معیشت تباہ کی۔ انہوں نے کہا کہ 9 مئی کے واقعات بغاوت تھی، یہ تاریک ترین دن تھا، اس میں ملوث لوگوں کے کیس چل رہے ہیں، آرمی چیف کی مدت میں تین سال کی توسیع کے فیصلہ میں تحریک انصاف، پیپلز پارٹی بھی شامل تھی، ہم نے شعوری طور پر اس ترمیم کی حمایت کی۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کا کام قانون بنانا نہیں بلکہ اس کی تشریح ہے، نئے قانون کے مطابق نااہلی کی مدت پانچ سال ہے، نواز شریف پر کوئی پابندی نہیں، نواز شریف قانون کا سامنا کریں گے، امید ہے کہ اگلے مہینے نواز شریف پاکستان آئیں گے، قوم ان کا بھرپور استقبال کرے گی۔ ہم دن رات پیشیاں بھگتتے رہے، ہماری بیٹیاں، بہنیں پیشیاں بھگتتی رہیں، عمران خان کی نااہلی یا قید کا فیصلہ عدالتوں نے کرنا ہے، قانون اپنا راستہ خود بنائے گا، حکومت کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں۔ وزیراعظم محمد شہبازشریف نے کہا ہے کہ 13 اتحادی جماعتوں نے مل کر کامیابی سے حکومت کی، حکومت چھوڑ رہے ہیں، کارکردگی سے مطمئن ہوں، ایس آئی ایف سی معاشی بحالی کی حکمت عملی ہے، آنے والی حکومت کو نیک نیتی سے اس پر عمل کرنا ہو گا۔ جمعہ کو پی ٹی وی ورلڈ کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مشکل صورتحال میں اتحادی جماعتوں کو عزت و احترام دیا اور کامیابی سے حکومت چلائی۔ انہوں نے کہا کہ حکومت چھوڑ رہے ہیں، کارکردگی سے مطمئن ہوں، اس کیلئے بھرپور محنت اور قربانیوں کی ضرورت ہے، مجھے امید ہے کہ ایسا ہی ہو گا۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہم امن چاہتے ہیں، بھارت کے ساتھ تنازعات حل کر کے آگے بڑھنا چاہتے ہیں لیکن اگر بھارت مثبت ردعمل کا مظاہرہ نہیں کرتا تو کچھ نہیں ہو سکتا، تاریخ فیصلہ کرے گی کہ کون حق پر کھڑا ہے۔ آخر میں وزیراعظم شہباز شریف نے اتحادی جماعتوں کے سربراہان کے اعزاز میں عشائیہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا یہ اتحاد 16 ماہ پہلے بنا تھا، بے نپاہ مشکلات‘ تکالیفت اور چیلنجز کے باوجود سیاسی اتحاد برقرار رہا۔ عالمی مہنگائی سے متعلق مجموعی طور پر بدترین دور تھا۔ تمام مشکلات کے باوجود مجموعی حکمت سے عبور کیا گیا۔ پٹرول کی قیمت کم بھی ہوئیں۔ امریکی ڈالر اوپر نیچے جا رہا تھا۔ اگر آئی ایم ایف سے معاہدہ نہیں ہوتا تو ملک میں تباہ کن صورتحال ہوتی۔ اجتماعی کاوشوں سے خارجہ محاذ میں بہتری آنا شروع ہوئی۔ 9 مئی کے واقعہ نے ملک میں نئی افراتفری اور بے یقینی کی صورتحال پیدا کر دی۔ پچھلے سال کبھی لانگ مارچ اور کبھی دھرنا ہوا۔ 9 مئی واقعہ کے مکروہ چہرے سامنے آ گئے۔ ریاست مدینہ کی دن رات گردان کی گئی اور عمل بالکل برعکس تھا۔