اختر وحید
امراض معدہ و جگر ہماری روزمرہ زندگی میں ایک اہم اور نا قابل تردید حقیقت بن چکے ہیں، بڑ ھتی ہوئی آبادی، صنعتی وآبی آلودگی، معاشی ناہمواریاں، غذائی بے قاعدگی اور صحت عامہ سے لاعلمی، امراض جگر میں اضافہ کا باعث بن رہی ہے۔ امراض جگر جہاں صحت کے شعبہ پر ایک بہت بڑا بوجھ بن رہے ہیں وہیں یہ عام آدمی کی زندگی اور معمولات کو بری طرح متاثر بھی کرتے ہیں۔
ملک میں امراض جگر کی ایک بڑی وجہ ہیپاٹائٹس ہے۔یہ ایک خاموش قاتل ہے جو کہ جان لیوا ہوسکتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے جاری کردہ اعداد وشمار کے مطابق یہ دنیا بھر میں اموات کی چھٹی بڑی وجہ ہے اور ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا بھر میں تقریباََ 30سے 35کروڑافراد اس سے متاثر ہیں۔28جولائی کو دنیا بھر میں ہیپاٹائٹس کو عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے جس کا مقصد عوام الناس میں اس مرض اور اس کی پیچیدگیوں کے متعلق آگاہی عام کرنا ہے تاکہ درست تشخیص اور بر وقت علاج کی بدولت اس مرض کی روک تھام ہو سکے اور جگر کی دیگر پیچیدگیوں سے بچا جاسکے۔
اس حوالے سے کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی کے پروفیسر آف میڈیسن اور مشہور ماہر امراض معدہ وجگر، ڈاکٹر اسرار الحق طور نے ہمیںبتایا کہ پاکستا ن میں ہیپاٹائٹس کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستا ن میں صرف ہیپاٹائٹس کے مریضوں کی تعداد تقریباََ سوا کروڑ کے قریب ہے۔ اس بیماری کے باعث لگ بھگ 15لاکھ افراد دنیا بھر میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ہیپاٹائٹس کا مرض بنیادی طور پر سوزش جگر کہلاتا ہے۔ وائرل ہیپاٹائٹس کی پانچ اقسام ہیں، یعنی اے، بی، سی، ڈی اور ای۔ ان میں سے ہیپاٹائٹس بی اور سی عموماََ دائمی سوزش جگر کا باعث بن جاتے ہیں انہیں عرف عام میں کالا یرقان کہا جاتاہے، یہ عموماََ کوئی خاص علامات ظاہر کیے بغیر جگر کو تبا ہ کرتے ہیں اس لئے انہیں خاموش قاتل بھی کہا جاتا ہے۔ بالائی اور وسطی پنجاب، سندھ اور خیبر پختونخواہ ہیپاٹائٹس بی اور سی کا شکار ہے۔ کالا یرقان، ہیپاٹائٹس بی اور سی،خون کے ذریعہ اور خون آلود اوزاروں کے ذریعہ پھیلتاہے۔ اس کی وجوہات میں زیادہ تر غیر محفوظ انتقال خون، انجکشن کے لئے ایک ہی سرنج کا بار بار استعمال، حجام یا دندان ساز کے جراثیم آلود اوزار، متاثرہ شخص سے غیر محفوظ جنسی تعلق اور متاثرہ ماں سے نومولود بچے میں مرض کی منتقلی شامل ہیں۔
ہیپاٹائٹس اے اور ای عموماََ پیلا یرقان یا پیلیا کہلاتے ہیں۔ یہ متعدی قسم کی انفیکشن ہیں جو عموماََ پینے کے گندے یا آلودہ پانی اور ناقص نکاسی آب کے باعث پھیلتا ہے اس کے علاوہ ہمارے ہا ں گندے پانی سے آلودہ غذائیں جن میں دہی بھلے وغیرہ، کٹے ہوئے پھل اور ناقص خوراک قابل ذکر ہیں وہ بھی ہیپاٹائٹس کا باعث ہیں۔
وائرل ہیپاٹائٹس کے علاوہ بہت سی ادویات کا بے جا استعمال بھی سوزش جگر کا باعث بنتے ہیں یہ قسم عموماََ وقت کے ساتھ خود ہی ختم ہوجاتی ہے۔اس کے علاوہ ہماری روزمرہ زندگی کا طرز عمل بھی سوزش جگر کا باعث بنتا ہے جس میں مرغن غذاؤں، چکنائی، چربی اور بیکری اشیاء کے زیادہ استعما ل اور ورزش کی کمی کے باعث جگر پر چربی آجاتی ہے اور فیٹی لیور کا باعث بنتی ہے یہ فیٹی لیور بھی جگر کی سوزش یعنی ہیپاٹائٹس کرواتا ہے۔
ہیپاٹائٹس اے اور ای عموماََ 2سے 4ہفتوں میں ازخود انفیکشن کر کے ختم ہوجاتے ہیں اور اس دوران مریض کو صرف امدادی طریقہ علاج فراہم کیا جاتا ہے تاکہ جسم میں پانی اور نمکیات کی کمی سے بچاجا سکے اور اتنا وقت گزر جائے کہ مرض ازخود ختم ہو جائے اس دوران اوآر ایس، فریش جوسسز اور گلیکسوز ڈی عموماََ توانائی کو بحال رکھتے ہیں۔
کالا یرقان (ہیپاٹائٹس بی اور سی) کے علاج کے لئے عموماََ گولیوں پر مشتمل کورس کروایا جاتا ہے جو کہ پاکستان میں ہیپاٹائٹس کنٹرول پروگرام کے تحت سرکاری طور پر دستیاب ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ بروقت تشخیص اور جلد علاج شروع کیا جائے تا کہ اس کی پیچیدگیوں سے بچا جاسکے۔ کالا یرقان سے پیدا ہونے والی پیچیدگیاں خطرناک اور جان لیوا ہوتی ہیں جن میں پیٹ میں پانی پڑنا،جگر کا مستقل سکڑ جانا،غنودگی اور بے ہوشی کے دورے ،خون کی الٹی، کالا پاخانہ آنا،جگر کا کینسر۔ اس صورتحال اور پیچیدگیوں سے بچنے کے لئے بروقت تشخیص اور درست علاج ضروری ہے۔