حکیمانہ …حکیم سید محمد محمود سہارن پوری
hakimsaharanpuri@gmail.com
پاکستانی جھنڈا کہنے کو تو کپڑے کا ایک ٹکڑا ہے مگر جب اس کپڑے کو قومی پرچم کا رنگ اور ڈھنگ دیا جاتا ہے تو یہ 24 کروڑ شہریوں کا ترجمان بن کر ان کی جانوں سے زیادہ عزیز ہو جاتا ہے۔ ہمارا قومی پرچم سب سے پیارا ہے اقوام عالم کے پرچموں میں لہراتا ہوا یہ پرچم اپنی نرالی اور منفرد شان کی بدولت سب سے ممتاز نظر آتا ہے ۔پاکستان اور اپنے قومی پرچم کو پانے کیلئے برصغیر کے مسلمانوں نے خون کے جو دریا عبور کئے وہ تاریخ کا المناک باب ہے۔ 1947 میں دنیا کی سب سے بڑی ہجرت نے مسلمانوں کو آزاد فضا میں سانس لینے کا موقع دیا۔اللہ پاک میرے وطن کو صبح تا قیامت شاد و آباد رکھے۔قیوم ساقی یاد آ گئے۔
سوہنی دھرتی اللہ رکھے قدم قدم آباد تجھے
جب تک سورج چاند ہے باقی ہم دیکھیں آزاد تجھے
14اگست 1947ء کو بر صغیر کے مسلمانوں پر آزادی کا سُورج طلوع ہوا اور ہمیں اس طویل غلامی سے نجات ملی جو انگریزوں نے ہمارے اُوپر مسلط کر رکھی تھی۔یومِ آزادی مناتے ہوئے ہمیں اللہ تبارک و تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہئے جس نے ہمیں آزادی کی نعمت سے نوازا اور غلامی کی زندگی سے نجات دلائی۔آج ہم جتنی خوشیاں منائیں اور جتنا بھی اللہ کا شکر بجا لائیں سچ تو یہ ہے کہ حق پھر بھی ادا نہیں ہوسکتا۔پاکستان کا قیام تاریخ عالم کا ایک درخشندہ باب ہے اور قائداعظم کے حسن تدبر کا بہترین شاہکار ہے۔انہی کی جہد مسلسل سے منزل مراد حاصل ہوئی جس سے صبح آزادی طلوع ہوئی۔مردہ دلوں کو حیات نو اور زندہ دلوں کو ایک ولولہء تازہ نصیب ہوا۔اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں ایک بڑی نعمت آزادی ہے جسے نہ صرف انسان بلکہ ہر ذی روح پسند کرتی ہے۔ایک پرندہ بھی پنجرے سے باہر نکالا جائے تو کھلی فضا میں آزادی کا سانس لیکر بے حد خوشی محسوس کرتا ہے۔حقیقت تو یہ ہے کہ آزادی کے بغیر ہر جاندار کی زندگی بے معنی اور بے مقصد ہوتی ہے۔ایک ہزار برس کی حکمرانی کے بعد جب مسلمانوں کو غلامی کی زنجیروں میں جھکڑ دیا گیا تو اُن کو کوئی راستہ نہ سوجھتا تھاالبتہ اُن کو محرومئی اقتدار کا بے حد احساس ہوا اور اس احساس کو عملی جامہ پہنا کر اپنی انفرادیت کو دوبارہ متعارف کرانے میں کافی وقت لگ گیا۔تحریک آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے وقت بھی مسلمانوں کو اپنی ثقافتی آزادی کا تحفظ اور جداگانہ انتخابات کی قراردادیں منظور کرنے کا شدت سے احساس تھا۔قائداعظم محمد علی جناح ؒکو بخوبی علم تھا کہ ہندو اور مسلمان دو الگ الگ قومیں ہیں لیکن اُنہوں نے ابتدا میں مصلحت کے تحت کانگرس کے ساتھ ملکر آزادی کا نعرہ لگایا اور آگے چل کر شدت سے محسوس کیا کہ مسلمانوں کی ازلی دشمن ہندو قوم سے کسی بھلائی کی توقع نہیں کی جاسکتی چنانچہ اُنہوں نے اپنا راستہ خود متعین کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ایک طرف مسلمان صرف آزادی کے بجائے ثقافتی تشخص کے ساتھ آزادی کے خواہاں تھے دوسری طرف مہاتما گاندھی مسلمانوں کو ایک علٰحیدہ قوم تسلیم کرنے کیلئے تیار نہ تھے۔وزیر اُمور ہند نے جب پاکستان کی تشکیل کی طرف اشارہ کیا تو ہندو مہاسبھا کو آگ لگ گئی اور اُنہوں نے مطالبہ شروع کر دیا کہ حکومت برطانیہ واضح طور پر اعلان کرے کہ ہندوستان کو تقسیم کرکے کسی حال میں بھی پاکستان نہیں بننے دیا جائیگا۔چنانچہ کانگرس نے اکھنڈ بھارت کی قراردادمنظور کی اور ہندوستان چھوڑ دو کی تحریک کا آغاز کردیا جسکو بغاوت کا نام دیا گیا۔مختلف وجوہ کی بنا پر قائد اعظم محمد علی جناح نے کرپس تجاویز کو مسترد کردیا۔ جب ہندوستان چھوڑدو تحریک نے فرقہ وارانہ فسادات کی شکل اختیار کرلی تو قائد اعظم نے اس کے جواب میں "بٹ کے رہے گا ہندوستان ۔لے کے رہیں گے پاکستان "کا نعرہ بلند کیا ۔تنگ نظر کانگرسیوں نے اس کا جواب اس نعرہ میں دیا کہ "جو مانگے گا پاکستان اس کو ملے گا قبرستان"قائد اعظم ؒ نے لارڈ اٹیلے پر واضح کردیا کہ ہم ہندوستان کی تقسیم چاہتے ہیں اور پاکستان قائم کرنا چاہتے ہیں۔اور ہندوستان کے آئینی مسئلہ کا حل یہی ہے کہ پاکستان معرض وجود میں آئے اور بر صغیر کی دونوں خود مختار مملکتیں خوشی،فلاح اور تحفظ حاصل کر سکیں۔قائد اعظم کا عبوری حکومت میں شرکت کرنا اس لئے ضروری تھا کہ اقتدار سے علٰحیدگی مسلمانوں کیلئے نقصان دہ ثابت ہو سکتی تھی اور بعض مفاد پرست مسلمانوں کا کانگرس کے ہاتھوں بک جانے کا خدشہ تھا۔جب بحرانی کیفیت پیدا ہوگئی تو وزیر اعظم لارڈ اٹیلے کو تشویش لاحق ہوگئی چنانچہ ایک بیان جاری کیا کہ جون 1948ء تک اقتدار ہندوستانیوں کو منتقل کر دیا جائے گا اور اس کے ساتھ ہی لارڈ ویول کی واپسی اور لارڈ مائونٹ بیٹن کی تقرری کا بھی اعلان کردیا۔جواہر لال نہرو اور مہاتما گاندھی نے لارڈ مائونٹ بیٹن پر ڈورے ڈالنے شروع کردیئے مگر قائد اعظم محمد علی جناح نے پسند نہ کیا کہ خوشامدانہ انداز اپنایا جائے ۔وزارت ہند کا پہلا منصوبہ کانگرس نے مسترد کر دیا لیکن وائسرائے کے مشیر خاص وی پی مینن کا پیش کردہ منصوبہ نہرو نے منظور کرلیااور لارڈ مائونٹ بیٹن اس منصوبہ کو لندن سے منظور کراکے واپس آگئے۔نئے منصوبے کی رُو سے ایک مشکل یہ پیش آئی کہ تمام مسلم اکثریتی صوبوں کو پاکستان میں شامل ہونے کیلئے کوئی نہ کوئی رکاوٹ موجود تھی۔لارڈ مائونٹ بیٹن کی خواہش تھی کہ دونوں نو آبادیوں کا گورنر جنرل اُسے بنا دیا جائے جو قائد اعظم کو منظور نہ تھا۔وزیراعظم لارڈ اٹیلے نے قانون آزادی ہند کا مسودہ پاس کراکے شاہی منظوری حاصل کرلی۔باوجود ہر قسم کی نا انصافیوں کے اور جانبدارانہ رویہ کے قائد اعظم نے ریڈکلف ایوارڈ کو منظور کرلیا۔اور بر صغیر کے مسلمان اپنی منزل پانے میں کامیاب ہوگئے۔20جولائی کو عبوری حکومت قائم ہوئی۔11اگست کو کراچی میں پاکستان دستور یہ کا پہلا اجلاس منعقد ہوا جس میں قائد اعظم کو دستوریہ کا صدر منتخب کر لیا گیا۔14اگست 1947ء کی رات پاکستان کے قیام کا باقاعدہ اعلان کر دیا گیا اور دنیا کے نقشے پر ایک نئی طرز کی مملکت اُبھری جس کے باشندوں نے اللہ سے وعدہ کیا تھا کہ اس ریاست کو اسلام کے اصولوں پر استوار کیا جائے گا۔