27رمضان المبارک 1366ہجری درمیانی شب کی خوش قسمت گھڑی تھی جس کے لمحات نے ہر سو ہر طرف اور ہر جانب ایسی خوشبو پھیلائی کے جس نے پورے خطہ کو معطر کر دیا یہ کامرانی و خوش نصیبی ہمارے لئے مسرور کن اس لئے بھی قرار پائی کہ یہ شب شب قدر اور شب جمعہ الوداع بھی ٹھہری قارئین دو مبارک لمحوں اور ساعتوں میں پاکستان کا اعلان نصب شب کو ہونا ہماری خوش بختی نہیں تو پھر کیا ہے رات بارہ بجے ریڈیو پاکستان پشاور سے ایک عظیم الشان مملکت پاکستان کے قیام کا اعلان کیا گیا اور اس کے بعد قاری علی تجمل نے سورت القدر کی تلاوت و ترجمہ پیش کیا 14اگست ہماری خوشیوں کا سفیر کے اور یہ دن قوم بڑے جوش و خروش اور تزک و احتشام طریقہ سے مناتی ہے گاؤں گاؤں شہر شہر نگر نگر قریہ قریہ جشن کا سماں دکھائی دیتا ہے جشن آزادی کی رنگا رنگ تقریبات منعقد کی جاتی ہیں چھوٹا بڑا مرد عورت جوان بوڑھا سبھی کے سبھی مسرور وشادماں اور خوشی کا جشن مناتے ہیں اور ایک نیا ولولہ پیدا ہوتا ہے اور پاکستانی اپنے آباؤ اجداد کی ہمت اور استقلال کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں اخبارات و رسائل ریڈیو ٹیلی ویڑن اس سلسلہ میں خصوصی ایڈیشن اور پروگرام نشر کرتے ہیں ہمیں اپنی تاریخ کا ایک ایک ورق ایک ایک باب یاد ہے 1857ء کی جنگ آزادی کی ناکامی نے مسلمانوں کا شیرازہ بکھیر دیا اور برصغیر میں انگریزوں کی حکومت قائم ہو گئی جو مسلمانوں کا دشمن تھا اور مسلمانوں کو زلیل و رسوا کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتا تھا اور ہندو انگریزوں سے مل گئے تھے انگریز کا حکومت پر قبضہ تھا اور ہندوؤں کا دفاتر پر مسلمانوں پر تمام دروازے بند کر دیئے گئے جس سے مسلمان مایوس و پریشان ہو کر رہ گئے اور ان کی ثقافت ،مذہب ،معاشرت اور تاریخ کو مسخ کیا گیا اور جذبہ حریت کو کچلنے کی سامراجی کوشش کی گئی مسلمان اکابرین اس کیفیت کو دیکھتے تو خون کے آنسو روتے ان حالات میں چند درد مند رہنماؤں نے مسلمانوں کے اندر آزادی کی تڑپ پیدا کی جن میں سرسید احمد خان ، مولانا حالی ،مولانا ظفر علی خان ،علی برادران اور علامہ اقبال شامل تھے جنہوں نے آزادی کی تحریک پیش کی ان رہنماؤں نے مسلمانوں کو خواب غفلت سے بیدار کیااور مٹنے کا احساس دلایا مسلم لیگ کا قیام 1906ء میں ہوا قائد اعظم کی قیادت میں مسلم لیگ نے زبردست تحریک آزادی کی شکل اختیار کر لی قائد اعظم نے مسلمان کو خواب غفلت سے بیدار کیا چنانچہ قوم ان کی قیادت میں متحد ہوئی اور ان کی آواز پر لبیک کہا اور سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند ہو گئی اور دوقومی نظریہ کے تناظر پاکستان دنیا کے نقش پر ابھرا 23مارچ 1940ء کو مسلم لیگ کے اجلاس میں مسلمانوں کے لئے ایک علیحدہ اسلامی ریاست کا مطالبہ کیا گیا آخر کار قائد کی قیادت میں لاکھوں مسلمانوں نے قربانیاں دیں اور قائد کی ان تھک کوششوں سے پاکستان عالم وجود میں آ گیا اور قائد اعظم پہلے گورنر جنرل بنے اس وقت پاکستان مشکلات میں گھرا ہوا تھا آپ نے قوم کو حوصلہ دیا زندہ قومیں آزادی کا دن بڑی شان و شوکت سے مناتی ہیں اور ہم مسلمان بھی اس دن آزادی کا جشن مناتے ہیں ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم ان اسباب کو جانیں جن کی خاطر لاکھوں مسلمانوں نے اپنی جانیں قربان کیں اپنا گھر بار لٹایا بچوں کو یتیم اور ماؤ ں بہنوں بیویوں کو ان کے بیٹوں بھائیوں ،اور شوہر وں سے محروم کیا لیکن عہد نبھایا ہم پاکستان کے آزاد شہری ہیں پاکستان کو علامہ اقبال اور قائد اعظم کی خوابوں کی تعبیر دینی ہے پاکستان کے قیام کا مقصد محض ایک الگ حکومت بنانا نہیں تھا بلکہ ایک ایسی ریاست قائم کرنا تھا جو اپنے ذاتی مفاد کو عام مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لئے قربان کر دے اور انہیں اس قابل بنائے کی وہ اس دور میں اپنی اسلامی تشخص کو۔ نمایاں کر کے دنیا والوں کو بتا سکیں کہ اسلام صرف عقائد وعبادات کا مجموعہ نہیں بلکہ ایک جامع نظام زندگی ہے جو ہر دور میں ہر ملک کے حالات کے مناسب حال ہے اور بنی نوع انسان کو ترقی کی ان راہوں پر چلنے کے قابل بناتا ہے جو انسان کے شایان شان ہیں …قائد اعظم نے فرمایا ملت اسلامیہ کی عزت و آزادی اور مسلم ممالک کی خود مختاری کے لئے بھی پاکستان کا قیام از حد ضروری تھا آئیے پاکستان کو حقیقی معنوں میں اسلامی فلاحی ریاست بنا نے میں اپنا کردار ادا کریں یہی وقت کا تقاضا ہے پاکستان خدا کی خاص انعام ہے محبت امن ہے اور امن کا پیغام پاکستان ہے۔قائد اعظم محمد علی جناح نے عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد دکن کے طلبہ سے خطاب میں فرمایا میں نے قرآن مجید اور قوانین اسلام کے مطالعہ کی اپنے طور کوشش کی ہے اس عظیم کتاب میں انسانی زندگی کے ہر باب کے متعلق ہدایات موجود ہیں زندگی کا روحانی پہلو ہو یا معاشرتی ہو یا سیاسی ہو یا معاشی غرض کہ کوئی شعبہ ایسا نہیں جو قرآنی تعلیمات کے احاطے سے باہر ہو۔ ہم نت پاکستان تو حاصل کر لیا اب اس کو اسلامی فلاحی ریاست بنانا ضروری ہے 14اگست کا دن ہم سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ ہم اس کو مسائل ومصائب کی دلدل سے نکالیں اور ترقی کی شاہراہ پر گامزن کریں یہی وقت کی ضرورت اور تقاضا ہے!!