تحریک پاکستان اور اس کا پس منظر

Aug 12, 2024

شریف چودھری  اسسٹنٹ پروفیسر  ریٹائرڈ 

اسلامی جمہوریہ پاکستان دنیا کے نقشے پر ایک جداگانہ نظریاتی تشخص کی حامل مملکت خداداد ہے۔پاکستان بر صغیر جنوبی ایشیا میں مسلمان کی امد ،عروج اور زوال کا نتیجہ ہے۔باقول بابائے قوم، بانی پاکستان محمد علی جناح پاکستان اسی روز محرض وجود میں آ گیا تھا جب ہندوستان کا پہلا شخص مسلمان ہوا۔یہ اس زمانے کی بات ہے جب ہندوستان میں مسلمانوں کی حکومت قائم نہیں ہوئی تھی۔بر صغیر میں پہلے پہل 712 میں محمد بن قاسم نے سندھ فتح کر کے اسلامی حکومت کی بنیاد رکھی۔1022 میں محمود غزنوی نے پنجاب کا الحاق اپنی سلطنت سے کیا اور لاہور کو پایہ تخت بنایا۔1192 میں شہاب الدین غوری نے دہلی اور اجمیر کو تسخیر کیا 1206 میں قطب الدین  ایبک نے سلطنت دہلی کی بنیاد رکھی اور 1526 میں ظہیر الدین بابر نے سلطنت دہلی کی جگہ مغلیہ سلطنت قائم کی 1757 میں پلاسی کے میدان میں بنگال کا حکمران نواب سراج الدولہ اور 1899 میں ٹیپو سلطان میسور کی جنگوں میں انگریزوں کی ریشہ دوانیوں اپنوں کی سازشوں اور داخلی انتشار کا شکار ہوئے اور انگریزوں کی یلغار روکنے کی حتی المقدورکوشش کی لیکن کامیاب نہ ہوئے۔
1857 تک پورے بر صغیر میں برطانوی راج قائم ہو گیا مسلمانوں کے جداگانہ تشخص اور مسلم معاشرہ کی نشاط ثانیہ کے لیے شاہ ولی اللہ کی اصلاحی تحریک ،سید احمد شہید کی تحریک مجاہدین،  تیتو میر کی کسان تحریک، حاجی شریعت اللہ کی فرائضی تحریک ،دیوبند تحریک  اور سر سید احمد خان کی تحریک علی گڑھ مسلم اقتدار کی بحالی کے لیے بھرپور کوششیں تھیں۔
1707 میں اورنگزیب عالمگیر کے بعد اس کے نااہل جانشین وسیع و عریض سلطنت کا نظام سنبھال نہ سکے۔سات سمندر پار سے انے والی انگریز قوم تاجر کے روپ میں ائی اور بر صغیر کے مسلمانوں سے اقتدار، اختیار اور حق حکمرانی چھین لیا۔مسلمان مکار ہندو اکثریت اور عیار انگریز حکومت کی دوری غلامی کا شکار ہو گے۔1857 کی جنگ ازادی وسائل کی کمی، مسائل کی زیادتی ،قیادت کا فقدان اور بے وقت اغاز کی وجہ سے ناکام ہوئی۔مسلمان بحیثیت قوم زوال پذیر تھے اسمان سے انے والی ہر بلا کا شکار مسلمان تھے۔ان حالات میں اللہ تعالی نے مسلمانوں میں سر سید احمد خان جیسے بطل جلیل پیدا کیا جس نے ہندوستان کے مسلمانوں کی ڈگمگاتی  ہچکولے کھاتی ہوئی کشتی کو سہارا دینے اور ساحل مراد تک لے جانے کا بیڑا اٹھایا۔
سر سید احمد خان کی تحریک علی گڑھ کے نتیجے میں 1906 میں مسلم لیگ کا قیام ،1909 میں جداگانہ حق انتخاب ،1916 میں میثاق لکھنو کے نتیجے میں کانگرس اور مسلم لیگ کا وقتی اتحاد ، 1929 میں قائد اعظم کے 14 نکات ،1930 میں مصور پاکستان علامہ محمد اقبال کا خطبہ الہ آباد، 1933 میں خالق لفظ پاکستان، نقاش پاکستان چوہدری رحمت علی کے مشہور کتابچہ ناؤ اینڈ نیور کی اشاعت ،1937 میں کانگریسی وزارتوں کا قیام ،1940 کی قرارداد پاکستان اور 1945 _46 کے انتخابات تحریک پاکستان کے اہم موڑ ہیں۔
قرارداد پاکستان 1940 کی منظوری کے بعد بر صغیر کے مسلمانوں نے قائد اعظم محمد علی جناح کی ولولہ انگیز قیادت میں ان کے فرمان کے مطابق اتحاد ،یقین اور تنظیم کی قوتوں سے لیس ہو کر جدو جہد پاکستان میں حصہ لیا اور صرف سات سال کے مختصر عرصہ میں 14 اگست 1947 کو پاکستان دنیا کے نقشے پر ایک اسلامی مملکت کی حیثیت سے منصئہ شہود پر جلوہ گر ہوا۔
14 اگست ہمارے وطن اسلامی جمہوریہ پاکستان کا یوم ازادی ہے۔
اج پوری پاکستانی قوم اپنا 77واں سال ازادی اور 78واں یوم ازادی جوش جذبے اور ایک نئے ولولے کے ساتھ منا رہی ہے۔تحریک پاکستان کے دوران شہداء￿  کی قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کرتی ہے۔
نظریاتی بنیادوں پر اسلامی جمہوریہ پاکستان کا قیام انسانی تاریخ کا ایک اہم واقعہ ہے۔اس روز لارڈ ماؤنٹ بیٹن واسرائیہند نے دستور ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے قائد کو زبردست خراج تحسین پیش کرتے ہوئے شہنشاہ اکبر کی طرح پاکستان کی اقلیتوں سے حسن سلوک اور رواداری کا سبق دینے کی کوشش کی تو قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنے خطبہ میں فرمایا کہ شہنشاہ اکبر کا حسن سلوک کل کی بات ہے ہمیں یہ سبق ہمارے پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے 1400 سال پہلے دے رکھا ہے۔
دو قومی نظریہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی اساس ہے۔پاکستان ایک جمہوری اور قانونی جدوجہد کے نتیجے میں قائم ہوا۔اس کے قیام کے مقاصد میں مسلمانوں اور اسلامی معاشرہ کی نشاط ثانیہ ،محکوم اور مقہور عوام و اقوام کی مدد کرنا اور عالمی امن  کے فروغ میں اپنے حصے کا کردار ادا کرنا شامل ہیں۔
وطن عزیز کو ازادی حاصل کیے ہوئے 77سال گزر چکے ہیں اج بھی وطن عزیز شدید نوعیت کی معاشی مشکلات اور اور معاشی عدم استحکام کا شکار ہے جس کی سب سے بڑی وجہ سیاسی عدم استحکام ہے۔اس معاشی اور طبقاتی فساد نے سماجی فاصلے گہرے کر دیے ہیں۔سیاسی اور ائینی اداروں کا ایک دوسرے کے معاملات میں زور زبردستی نے ریاستی انتظامی توازن کو بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔
معاشی اور سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے مسئلہ کشمیر پر قرار واقعی توجہ نہیں دی جا سکی۔معاشی اور سیاسی لحاظ سے مستحکم پاکستان مسئلہ کشمیر میں کشمیریوں کا بہترین وکیل ثابت ہو سکتا ہے۔
قومی سطح پر ہمیں مایوسی اور افسردگی کی فضا سے نکلنے کی ضرورت ہے۔پاکستان خدا کے فضل و کرم سے ایک توانا قوم اور موزوں وسائل معیشت کا ملک ہے۔ نظریاتی تشخص کا دفاع کرنے ،ثقافتی شناخت کا تحفظ کرنے کی ضرورت ہے۔قومی وحدت کو قومی تقاضوں سے ہم اہنگ کر کے عصری چیلنجوں کا مقابلہ کرنا وقت کا تقاضہ ہے۔
یہی وجہ ہے کہ مہذب قوموں کی طرح ہم اپنا یوم ازادی جوش جذبے سے مناتے ہیں۔اپنی نئی نسل کو تحریک پاکستان اور اس کے پس منظر سے اگاہ کرنے کے لیے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

مزیدخبریں