ویل ڈن ! ارشد ندیم

ٰآٹھ اور نو اگست کی درمیانی شب تھی اور اکثر پاکستانیوں کی طرح میں بے چین تھا۔2024 کے اولمپکس میں جیولن تھرو کا آخری معرکہ تھا جس میں پاکستانی قوم کو اپنی کامیابی کے کچھ آثار نظر آرہے تھے۔ 2024 کے اولمپکس شروع ہوتے ہی پاکستان کی طرف سے شریک ٹیم جو صرف سات ممبران پر مشتمل تھی فرانس پہنچی۔ لوگ حیران تھے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ 24 کروڑ کی آبادی کے ملک میں صرف سات کھلاڑی اولمپکس میں شرکت کرنے کے قابل ہوئے ہیں جبکہ اِس کام کو احسن طریقے سے کرنے کے لیے بہت سے اِدارے کام کر رہے ہیں۔ اِ س پر مزید حیران کن معاملہ یہ کہ انتظامیہ کے 20 لوگ بھی سات کھلاڑیوں کی ٹیم کے ساتھ تھے۔اولمپکس کے باقی کسی کھیل میں شاید کسی پاکستانی کو کسی کامیابی کی توقع نہیں تھی لیکن جیولن کے مقابلے کے لیے ارشد ندیم سے لوگوں کی اْمیدیں وابستہ تھیں کیونکہ وہ تسلسل کے ساتھ مختلف مقابلوں میں مختلف اوقات میں کامیابیاں سمیٹ رہے تھے۔ اولمپکس کا مقابلہ بھلے سخت تھا لیکن ارشد ندیم کسی اچانک کامیابی کی اْمید ضرور تھے۔ 8 اگست کی شب پاکستان کیوقت کے مطابق رات 11 بجے ارشد ندیم نے جیولن تھرو کے فائنل میں حصہ لینا تھا۔ ارشد ندیم کے قریب ترین حریف نیرج چوپڑا کے بارے میں سوشل میڈیا پر ایک منظم مہم چلا ئی جار ہی تھی جس سے یہ تاثر اْبھر رہا تھا کہ ہندوستان سے تعلق رکھنے والے نیرج چوپڑا شاید ارشد ندیم سے بہتر پوزیشن میں ہیں۔ رواں سیزن میں جب ارشد ندیم اور نیرج چوپڑا فائنل رائونڈ کے لیے کوالیفائی ہوئے تو نیرج چوپڑا گولڈ میڈل کے لیے سب سے فیورٹ اْمیدوار قرار دیے جارہے تھے مگر ساتھ ساتھ بہت سے مبصرین کا خیال تھا کہ ارشد ندیم بھی گولڈ میڈل کے لئے کوئی سرپرائز دے سکتے ہیں۔
 9 اگست کی صبح پاکستانیوں کے لئے خوشی کا پیغام لے کر طلوع ہو ئی۔ صبح سوشل میڈیا پہ ارشد ندیم کی کامیابی کا ڈنکا بج رہا تھا۔ ارشد ندیم پاکستان کے لیے جیولن تھرو میں گولڈ میڈل جیت چکے تھے۔ میں بہت دیر تک فخرو انبساط کی کیفیت میں سوشل میڈیا دیکھتا رہا۔مجھے یاد نہیں پڑتا کہ میں نے کتنی بار 30 سیکنڈ کا وہ کلپ دیکھا جس میں ارشد ندیم جیولن کے ساتھ کھڑے ہیں اور پھر بھاگتے ہوئے تھرو لائن کی طرف جاتے ہیں اور جیولن تھرو کرتے ہیں اور پھرچند لمحے انتظار کرتے ہیں اور جیولن کو دیکھتے ہیں جو 92 میٹرز کے نشان سے آگے گر رہا ہے۔پھر سکرین پرفتح کے ہندسے اْبھرتیہیں اور ارشد ندیم کی آنکھیں بھیگ جاتی ہیںاور وہ اپنے رب کے ہاں سجدہ ریز ہوتے ہیں اور اِس عظیم کامیابی پر شکرانے کا اظہار کر تے ہیں۔
بدقسمتی سے پاکستان میں ایسے مناظر دیکھنے کو کم ملتے ہیں اِس لیییوں لگ رہا ہے کہ نہ صرف پورا پاکستان بلکہ دْنیا بھر میں مقیم پاکستانی اِس وقت ارشد ندیم کی کامیابی کا جشن منا رہے ہیں۔ ارشد ندیم طلا ئی تمغہ جیت چکے ہیں تو دْنیا بھر میں اْن کی مدح سرائی ہو رہی ہے۔ سوشل میڈیا پر ، بازاروں میں، دفاتر میں ہر جگہ ارشد ندیم کی عظیم کا میابی پر تبصرے ہو رہے ہیں۔ کوئی اْن کے خاندانی پس منظر پہ تبصرہ کر رہا ہے تو کوئی اْن کو کھیل کے لیے دی جانے والی سہولتوں کے فقدان کاذکر کر رہا ہے۔ کوئی اْن کی عظیم جدو جہد کو ذکر کر رہا ہے تو کوئی مختلف اوقات میں اْن کی کامیابیوں کا ذکر کر رہا ہے۔ارشد ندیم کے لیے 30 سیکنڈ میں سب کچھ بدل گیا۔ یہ 30 سیکنڈ ارشد ندیم کی سالوں کی جدوجہد کا ایک خوبصورت موڑ ثابت ہوئے جہاں نہ صرف ارشد ندیم انفرادی کامیابی کے ساتھ ایک اعلی مقام پہ کھڑے ہیں بلکہ اْنھوں نے اپنی قوم کے نوجوانوں کو بھییہ واضح پیغام دیا کہ جب آپ کا خدا پہ یقین پختہ ہو اور اپنی محنت پر بھروسہ کامل ہو تو کامیابی آپ کا مقدر ہوتی ہے۔یہ 30 سکینڈ پاکستانیوں کے لئے خوشی اور فخر کا سبب بن گئے۔
ارشد ندیم کی کامیابی کے چار اہم پہلو ہیں۔مسلسل جدوجہد، عزمِ مصمم، تیقن اور دعا!  ایک بہت ہی پسماندہ علاقے میں پیدا ہونے والے ارشد ندیم کے لیے کسی ایسے کھیل میں کامیابی حاصل کرنا جس میں دْنیا بھر میںتربیت اور تکنیک کی سہولیات ہوتی ہیں ایک نہایت مشکل کام تھا۔ ارشد ندیم نے ابتداء  میں گائوں کی سطح پر جسمانی تربیت اور اِس کھیل سے جڑی تکنیک پہ عبور حاصل کیا جو اْن کی لگن اور مسلسل جدوجہد کی وجہ سے ممکن ہوا۔ اْن کی تواتر کے ساتھ حاصل کی جانے والی کامیابیوں کے پیچھے اْن کی عظیم جدوجہد شامل ہے۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ اْن کی جدوجہد کے دوران جو ایک اہم صفت دیکھنے کو آئی وہ یہ تھی کہ وہ بلا کے عزم رکھنے والے کھلاڑی ہیں۔ اْن کے عزم ِ مصمم کا یہ عالم یہ ہے کہ وہ جسمانی تربیت اور تکنیکی سہولتیں نہ ہونے کے باوجود اپنے ارادوں میں مسلسل پختہ دکھائی دیتے ہیں۔یقین کا یہ عالم ہے کہ جیولن تھرو میں 118 سالہ ریکارڈ توڑ کر بھی وہ یہ کہتے ہیں کہ میں اور بھی دْور پھینک سکتا تھا۔ یہ اْن کے یقین اور اعتماد کی ایک مثال ہے۔ مجھے اِس ساری کہانی میں سب سے خوبصورت پہلو یہ معلوم ہوا کہ مقابلے سے ایک رات قبل اْنھوں نے اپنی ماں سے کامیابی کے لیے دْعا کی درخواست کی۔اِس میں ضروری بات یہ ہے کہ ارشد ندیم نے ماں سے کامیابی کی دْعا کی درخواست کی جب وہ جیولن تھرو کی فائنل لائن پر آکھڑا ہوا۔یعنی کھیل میں درکار محنت جو اْن کی بساط میں تھی وہ اْنھوں نے کر لی تو دْعا کی درخواست کی۔
ارشد ندیم عظیم کامیابی سمیٹ کر وطن واپس آچکے ہیں۔ لاہور ایئرپورٹ پر اْن کا فقید المثال استقبال بھی ہو چکا ہے۔پوری قوم اْن کی اِس عظیم کامیابی پر مسرور دکھائی دیتی ہے۔ ارشد ندیم پر انعام و اکرام کی بارش کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ حکومتی سطح پر بہت سے اِنعامات کا اعلان ہو چکا ہے۔ حکومت کے علاوہ دْنیا بھر میں رہنے والے مخیر پاکستانیوں کی جانب سے بھی انواع و اقسام کے انعامات کا مسلسل اعلان ہو رہا ہے۔ اور ہر پاکستانی سمجھتا ہے کہ ارشد ندیم نے پاکستان کی سربلندی کے لیے بہت جدوجہد کی اور اولمپکس میں پاکستان کا نام روشن کیا۔
ارشد ندیم کی اِس عظیم کامیابی میں ہماری قومی زندگی کا زاویہ بھی ہے۔ نو اگست کی صبح پوری قوم یکجاہ دِکھائی دے رہی تھی۔دْنیا بھر میں بسنے والے پاکستانی مسرور اور یکسو د کھائی دے رہے تھے۔ ارشد ندیم کی کامیابی کے بعد سب سے خوبصورت منظر اولمپکس کے میدان میں پاکستان کا سبز ہلالی  پرچم کا لہرایا جانا تھا اور سب سے زیادہ کانوں میں رس گھولنے والی آواز قومی ترانے کی تھی۔ نو اگست کی صبح ہمیں محسوس ہوا کہ ایسی قومی سطح کی کامیابیاں ہماری قوم کے لئے اتحاد اور یکسوئی کا باعث ہیں۔ ایسی قومی سطح کی کامیابیاں ہمیں بحیثیت قوم متحد کرتی ہیں اور شاید ایسی ہی قومی سطح کی ناکامیاں ہمیں بحیثیت قوم تقسیم کرتی ہیں۔ ارشد ندیم نے پاکستان کے نوجوانوں کے لئے اْمید کو زندہ کیا۔ ارشد ندیم نے ایک چراغ روشن کیا جس سے لاکھوں چراغ جلنے کی اْمید پیدا ہوئی۔ ارشد ندیم نے ہمیں بتایا کہ مسلسل جدوجہد، عزمِ مصمم، تیقن اور دعا کے ساتھ سب ممکن ہے۔ ویل ڈن ! ارشد ندیم ! ویل ڈن !

ای پیپر دی نیشن