میاں قمر الدین: مہتمم اول جامعہ فتحیہ

آپ 1868ء میں لاہور کی مضافاتی آبادی اچھرہ میں میاں محمد اسماعیل کے ہاں پیدا ہوئے۔ آپ کا تعلق لاہور کی معروف زمیندار فیملی سے تھا۔ آپ کے نانا میاں امام الدین مخدومان قصور کے آخری چشم و چراغ شاہ عبد الرسول قصوری کے مرید صادق اور آپ کے خلفاء میں سے تھے جبکہ آپ کے ماموں حافظ میاں فتح محمد اچھروی سلسلہ عالیہ نقشبندیہ کی ایک نمایاں شخصیت تھے۔ میاں قمرالدین کے چھوٹے ماموں حافظ میاں محمد اکرم اپنی وفات تک جامعہ فتحیہ میں جہری نمازوں کی امامت کرواتے رہے۔ حافظ میاں فتح محمد اچھروی کی بڑی صاحبزادی آپ کے عقد میں تھی۔
میاں قمر الدین نے مڈل سٹینڈرڈ تک تعلیم حاصل کی۔ آپ مطالعہ کا بہت شوق رکھتے تھے، تاریخ اسلام، تصوف اور رد رفض ان کے پسندیدہ موضوع تھے۔ تاریخ اسلام کے مطالعہ نے ان میں امت مسلمہ کا درد اور جذبہ حریت کوٹ کوٹ کر بھر دیا تھا۔ مہاراجہ پٹیالہ کے وقائع نگار مولانا طالب علی جب آپ کے نانا میاں امام الدین کے ہاں تشریف لاتے اور ان بزرگوں کی طویل علمی نشستیں ہوتیں تو میاں قمر الدین بھی بڑے شوق سے ان مجالس میں بیٹھتے۔ آپ نے خطے میں اٹھنے والی ہر ملی اور مذہبی تحریک میں بھر پور حصہ لیا۔ آپ تحریک خلافت میں بھی سرگرم عمل رہے۔ اسی دوران امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری سے کبھی نہ ختم ہونے والا تعلق بنا۔ دسمبر 1929ء میں جب مجلس احرار اسلام کا قیام عمل میں آیا تو میاں صاحب بھی اس کے بانی اراکین میں شامل تھے۔ آپ نے اپنا تن من دھن سب دین اسلام کی ترویج اور فرق باطلہ کی تردید میں لگا دیا۔ امیر شریعت انھیں احرار کا چلتا پھرتا بینک کہا کرتے تھے، جہاں بھی کوئی تقاضا سامنے آتا آپ اسے پورا کرنے میں پیش پیش ہوتے۔
انگریز کے خود کاشتہ پودے فتنہ قادیانیت کی سرکوبی کے لیے ان کے گڑھ، قادیان میں مرکز بنانے کا طے پایا تو اس کے لیے جگہ کا بندوبست کرنے کی سعادت ذیلدار فیملی کو ہی ملی۔ میاں قمر الدین، میاں محمد اسلم جان اور سید امیر علی گیلانی یہ جگہ خریدنے قادیان گئے۔ آپ نے رد قادیانیت و رافضیت اور دیگر ادیان باطلہ کی سرکوبی میں علمی وعملی طور پر بھر پور کردار ادا کیا۔بابو پیر بخش لاہوری(ریٹائرڈ پوسٹ ماسٹر) اور دیگر کئی مصنفین کی فتنہ قادیانیت کے رد میں لکھی گئی کتب آپ ہی کے تعاون سے زیور طباعت سے آراستہ ہوئیں۔بابو پیر بخش نے ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد فرق و ادیان باطلہ کی سرکوبی کے انھیں کی زیر سرپرستی ماہ نامہ ’تائید الاسلام‘ کا اجراء کیا۔ 1927ء میں بابو صاحب کی وفات کے بعد سے 1932ء تک اس کی سرپرستی کے ساتھ ساتھ آپ اس کے چیف ایڈیٹر بھی رہے۔ 1932ء میں جب مولانا لال حسین اختر قادیانیت سے تائب ہو کر دائرہ اسلام میں داخل ہوئے تو میاں صاحب نے ’تائید الاسلام‘ کی ادارت کی ذمہ داری انھیں سونپ دی۔
میاں قمر الدین انجمن حمایت اسلام کے معاونین میں سے بھی تھے۔ارباب انجمن نعمانیہ لاہور آپ کو اپنے مدرسہ کے سالانہ پروگراموں میں بطور مہمان اعزاز بلایا کرتے تھے۔ میاں صاحب کے چھوٹے بھائی میاں محمد رفیق 1946ء کے عام انتخابات میں لاہور سے مجلس احرار اسلام کی حمایت سے ممبر پنجاب اسمبلی منتخب ہوئے۔ میاں قمر الدین ایک بھر پور علمی و عملی زندگی گزار کر 1952ء میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔

ای پیپر دی نیشن

ہم باز نہیں آتے!!

حرف ناتمام…زاہد نویدzahidnaveed@hotmail.com یادش بخیر …یہ زمانہ 1960 کا جس کے حوالے سے آج بات ہوگی۔ یہ دور ایوب خاں کے زوال اور بھٹو ...