اس حبس بھرے موسم چلچلاتی دھوپ اور بے یقینی کے موسم میں دو اچھی خبریں دیکھنے اور سننے کو ملی ہیں نہیں تو ہر طرف بڑھتے ہوئے شوروغل ،مہنگائی اور بجلی کے بلوں سے بلبلائی عوام کی آوازیں ہی سنائی دیتی ہیں ان میں سے ایک اچھی خبر تو ہمارے ہمسایہ ملک بنگلہ دیش میں مستقبل کے معماروں کے انقلاب اور اسکے نتیجے میں گرامین بنک کے بانی اور مائیکرو فائنانس کے ذریعے عام لوگوں کے قسمت بدلنے اور انہیں ایک زندہ قوم بنانے والے ڈاکٹر محمد یونس کا حکومت کے سربراہ کی حیثیت سے سامنے آنا ہے خوشی کی بات یہ ہے کہ 15 سالہ آمرانہ حکومت کے خاتمے کے بعد ملک کو صاف ستھرے کرپشن سے پاک نظام کی طرف سے لے جانے کیلئے بنائے جانیوالی 15 رکنی عبوری حکومت میں کوئی ایک سیاستدان بھی شامل نہیں کیا گیا کاش ہمارے ملک پاکستان میں بھی اس قسم کی روایات کو پنپنے دیا جاتا تو آ ج حالات اس قدر دگر گوں نہ ہوتے اس حوالے سے دوسری اہم خبر اولمپکس میں ہمارے وسیب میاں چنوں کے خطے میاں چنوں سے تعلق رکھنے والے ایتھلیٹ ارشد ندیم کا اولمپکس میں گولڈ میڈل حاصل کرنا ہے اس حوالے سے یہ خبریں خاصی اہم رہیں کہ سات رکنی کھلاڑیوں کے علاوہ 20 سے زائد آفیشل بھی موجود تھے جو اپنی فیملیوں کے ساتھ فرانس کے سیر سپاٹے کے مزے بھی لوٹ رہے تھے شکر ہے کہ اس ساری صورتحال میں ارشد ندیم ہوا کا ایک خوشگوار جھونکا ثابت ہوا کہ جہاں بھاگتے چور کی لنگوٹی کے مصداق تمغے کا حصول ہو گیا وہاں جشن آزادی کے نزدیک قوم کو بھی واری جانے کا موقع مل گیا ہے میاں چنوں کی ایک عام فیملی سے تعلق رکھنے والا ایک عام سا کھلاڑی کسی ادارے کی ٹریننگ اور تعاون کے بغیر اولمپکس مقابلوں میں شامل ہوا ہے جس کیلئے وہ ایک عرصے سے اپنے ملک کا نام کمانے کیلئے سرگرداں تھا بالآخر اس بار قسمت کی دیوی اس پر مہربان ہوئی اور اسکے سر پر جیت کا ہما بالآخر بیٹھ ہی گیا جولین تھرو میں 97.92 کے سکور سے تھرو کر کے اس نے اولمپکس میں چیمپین ہونے کا نہ صرف ورلڈ ریکارڈ حاصل کیا بلکہ 40 سال بعد پاکستان کو کوئی گولڈ میڈل مل سکا ہے حیرت کی بات یہ ہے کہ ہمارے کھیل اور دیگر اداروں پر برسوں سیایسے لوگ براجمان ہیں جو اداروں کی کارکردگی بڑھانے کے بجائے انہیں تنزلی کی طرف لے جا رہے ہیں اور اس کے عوض بے شمار مراعات حاصل اور عیش وعشرت والی زندگی بھی گزار رہے ہیں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ایسے اداروں کے سربراہوں سے اداروں کی خراب کارکردگی کا بھی حساب کتاب لیا جاتا لیکن یہاں تو سب آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے کے مصداق بالاخر ارشد ندیم اولمپکس کے منظر نامے میں پاکستان کا نام نمایاں کرنے میں کامیاب ہو ہی گیا ہے بیرون ملک پاکستان کو اگر پہچانا جاتا ہے تو وہ زیادہ تر کھیلوں کے حوالے سے ہی پہچانا جاتا ہے ایک وقت تھا کہ ہاکی ہمارے ملک کا قومی کھیل تھی اور اولمپک کا چیمپین پاکستان بنتا تھا 1992 میں کرکٹ کے ورلڈ کپ میں کرکٹ کی حکمرانی کا تاج پاکستان کے سر سجا لیکن بدقسمتی سے اسکے بعد ایک عرصے سے نہ تو ہم نے کرکٹ کے میدان میں کوئی نمایاں کارنامہ انجام دیا اور نہ ہی کھیل کے کسی اور شعبے میں ہم کوئی خاص کارکردگی کا مظاہرہ کر سکے حیرت کی بات یہ ہے کہ اسکے باوجود کرکٹ اور دیگر خرافات پر ملک کا قومی سرمایہ ضائع کیا جاتا رہا ہے ان اداروں کے آفیشل کی مراعات اور پرکشش تنخواہیں بھی بہت زیادہ ہیں لیکن اسکے باوجود کھیل کے شعبے میں ترقی کی رفتار صفر ہے اب جب کہ ارشد ندیم نے اولمپکس میں پاکستان کا نام روشن کر دیا ہے ہمارے قومی اداروں کو چاہیے کہ وہ اداروں کی بہتری کیلئے بھی اقدامات کریں تاکہ ملک میں ایسے عام طبقے اور نیچے سے آنے والے لوگ جو ملک و ملت کیلئے باعث فخر ہوتے ہیں انکی صحیح تربیت کا اہتمام کیا جا سکے جنوبی پنچاب کا اہم خطہ محض لائیو سٹاک اور مزے دار و خستہ برفی کی وجہ سے ہی مشہور نہیں بلکہ میاں چنوں ایک درویش وزیر اعلی غلام حیدر وائیں کی وجہ سے بھی وجہ شہرت بنا رہا ہے جہاں ایک درویش عوامی وزیر اعلی نے عوام کے مسائل کیلئے اپنا بھرپور کردار ادا کیے رکھا میاں چنوں سے ہی تعلق رکھنے والے شاید احسان چودہری بھی اس وقت امریکہ میں متعدد فلاحی منصوبوں کی وجہ سے مشہور ہیں جن کے اعزاز اور خدمات کے اعتراف میں پچھلے دنوں لاہور میں دوستوں کے دوست اور معروف شاعر شعیب بن عزیز نے ایک بھرپور محفل برپا کی تھی جس میں جن سے شاہد احسان چوہدری کے امریکہ میں پاکستانی کمیونٹی کے ساتھ ساتھ دیگر مستحق لوگوں کیلئے کیے جانے والے فلاحی منصوبوں سے بھی آگہی حاصل ہوئی میاں چنوں سے ہی تعلق رکھنے والے حمزہ یوسف سکاٹ لینڈ کے وزیراعظم کے عہدے پر فائز ہوئے ان سب مضبوط اور قابل ذکر حوالوں کے بعد اب سب سے بڑا حوالہ ارشد ندیم کی صورت میں سامنے آیا ہے جس نے پوری دنیا میں پاکستان کا نام روشن کر دیا ہے اور جب پوری پاکستانی قوم گھمبیر حالات اور مستقبل کے خدشوں میں گھری ہوئی ہے ایک ایسی امید کی کرن لایا ہے جس نے گویا تن مردہ میں پھر سے جان ڈال دی ہے جس کیلئے خود ارشد ندیم اور انکے والدین مبارکباد کے مستحق ہیں اب یہاں حکومتوں کی طرف سے انکو کروڑوں روپے کے انعامات دیے جا رہے ہیں جو ایک اچھا اقدام ہے تو ہمارے اداروں اور مخیر حضرات کے ساتھ ساتھ ایسے سیاست دانوں اور افراد کو بھی ان کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے اور ہر شعبے میں ایسے بے شمار افراد ہیں جو اداروں کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکیں اور کھیل کے شعبے میں بھی ایسے افراد شامل کیے جائیں جو اداروں کی کارکردگی بہتر بنائیں اور غریب کھلاڑیوں کی تعلیم و تربیت اور ان کو وسائل کی فراہمی کا بھی اہتمام کریں تاکہ ائندہ بھی ارشد ندیم جیسے لوگ آگے آ سکیں ارشد ندیم یقینا جشن ازادی کی ایک نوید بنا ہے ورنہ تو اس مہنگائی کے بوجھ تلے دبی عوام اب ایک زندہ قوم کی حیثیت نہیں رکھتی اب ہم صرف نعروں میں ایک زندہ قوم ہیں اور ہمارا جشن آزادی صرف باجوں کی پاں پاں سایلینسر نکلے بائیک کی گھن گرج اور شورو غل تک ہی محدود رہ گیا ہے ارشد ندیم جشن آ زادی پر سوئی ہوئی بے فکری قوم کو جگانے کا بہت شکریہ۔