پاکستان میں استحکام آسکتا ہے 

یہ نقطہ سمجھنا بہت ضر وری ہے کہ پاکستان میں استحکام ،معیشت کی مضبوطی،اکثریت کا مسلمان ہونا یا طاقتور فوج ہونے سے نہیں بلکہ عام لوگوں کا اپنے اداروں پر یقین ہونے سے آئیگا ۔ہر روز میرے جیسے کروڑوں  لوگ دعا کرتے ہیں کہ پاکستان میں استحکام آئے ۔ جب سے ہوش سنبھالا ہے ملک کو نازک دور سے گزرتے دیکھا ہے ۔سیاست دانوں کو آپس میں اُلجھتے دیکھا ہے ۔ اداروں کو اپنی حدود سے تجاوز کرتے دیکھا ہے ۔ قوم کی خدمت کے نام پر حکمرانوں کو اپنی دولت اور حثیت میں اضافہ کرتے دیکھا ہے ۔طاقتور عہدوں پر نوکری کرنے والوں کو اپنے لیے مراعات لیتے اور اپنی دولت اور بچوں کو دوسر ے ملکوں میں منتقل کرتے دیکھا ہے ۔ملک مستحکم تب ہوگا جب میرے ملک کے سیاست دان،جج ، جرنیل، بیوروکریٹ اور بڑے کاروباری لوگ اپنی دولت سے یہیں کاروبار شروع کرینگے۔یہیں فیکٹریاں لگائیں گے، اوربے روزگار نوجوانوں کو نوکریاں فراہم کریں گے۔آج کل ملک میں بجلی توانائی کے حوالے سے کھل کے گفتگو ہو رہی ہے اور اعداد و شمار کے ماہرین روز عوام کو بتا رہے ہیں کہ ملکی عوام کو مہنگی بجلی مہیا کرنے کے پیچھے ہمارے طاقتور لوگوں نے کیسے کیسے معاہدے کیے ہوئے ہیں ۔سچ کہوں تو،سیاسی منظر نامے میںآئے روز ہونے والی تبدلیوں،مالی بدعنوانیوں اور حدود سے تجاوز کو دیکھتے ہوئے میرے ملک کے لوگوں کی اکثریت حکمرانوں، عدلیہ، بیوروکریٹس اور اسٹیبلشمنٹ سے متنفر ہونے لگی ہے۔استحکام پاکستان کیلئے عوام کا اعتماد بحال  اورملک سے ڈر اور خوف کی فضا ختم کرنیکرنے کی بہت ضرورت ہے ۔پتہ نہیں قانون میںکیا لکھا ہوا ہے لیکن ہم دیکھتے چلے آرہے ہیں کہ کچھ کیسز کو ہمارے معزز جج روزانہ کی بنیاد پر سننا شروع کردیتے ہیں اور کچھ لوگ ساری زندگی عدالتوں ،کچہریوں میں چکر لگاتے انصاف لیے بغیر مر جاتے ہیں ۔پاکستان میں کیلئے بہت ضروری ہے کہ حکمران،سیاستدان ،عدلیہ ،اسٹبلشمنٹ، بیورکریٹس اور میڈیا لوگوں کا اعتماد بحال کرے۔ معیشت کی مضبوطی کیلئے مالی نظم و ضبط، انویسٹمنٹ کی حوصلہ افزائی، اور اقتصادی پالیسیوں میں بہتری لانی ضروری ہے۔ پھر تعلیم اور صحت کے نظام میں بہتری لا کر عوام کی معیار زندگی کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔شفاف انتخابات، مضبوط جمہوری ادارے، اور عوامی نمائندگی کو یقینی بنا کر سیاسی استحکام حاصل کیا جا سکتا ہے۔عدلیہ اور قانون نافذ کرنیوالے اداروں کی کارکردگی میں بہتری سے قانون کی حکمرانی مضبوط ہو سکتی ہے۔ملکی معیشت جو پہلے ہی تنکوں کے سہارے کھڑی تھی ۔پتہ نہیں چل رہا کہ ہمارے حکمرانوں نے آئی ایم ایف سے کتنا قرض لیا ہے اور وہ قرض کہاں خرچ کیا ہے لیکن ایک بات نظر آرہی ہے کہ اس قرض کے بعد ملک میں مہنگائی کا نہ ختم ہونے والے طوفان آچکا ہے۔معیشت کسی بھی ملک کی ترقی کی بنیاد ہوتی ہے اور اس کی مضبوطی عوام کی فلاح و بہبود کیلئے انتہائی ضروری ہے۔ اب اگر معیشت کو واقعی پاوں پر کھڑا کرنا ہے تو صرف فیکٹریوں اور دکانداوں سے ٹیکس وصول کرنے کی بجائے جاگیرداروںاور اشرافیہ کو ٹیکس نیٹ میں لانا ہوگا۔کسی بھی شہری کومستقل بنیادوں پر ریاستی زمین الاٹ کرنے کا عمل ختم کرنا ہوگا ۔ہر شہری کیلئے زمین کی حد مقرر کرنا ہوگی۔وڈیروں،جاگیرداروں سے زمین لے کے عام لوگوں،ہاریوں اور کسانوں کو الاٹ کرنی ہوگی تاکہ زیادہ لوگ زمین کے مالک بن سکیں اور پھر وہ محنت سے اتنا اناج اُگائیں کہ ہمیں دوسرے ملکوں سے گندم اور دوسری اجناس درآمد نہ کرنی پڑیں۔اس کے بعد اٹھارہ سے پچاس سال کی عمر کے ہر شہری کو پابند کیا جائے، وہ بتائے کہ اپنے اخراجات کیسے پورے کررہا ہے ۔اگر وہ کچھ کما رہا ہے تو اس میں سے ٹیکس ادا کرے اور اگر وہ بے روز گار ہے تو ریاست اسکے اخراجات کا بندوبست کرے۔کاروباری سرگرمیوں کیلئے آسانیاں پیدا کی جائیں، جیسے کہ لائسنس کے عمل کو سادہ بنانا اور سرمایہ کاری کے مواقع فراہم کیے جائیں۔توانائی کے شعبے میں بہتری سے معیشت کی ترقی کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ توانائی کی کم قیمت اور قابل بھروسہ فراہمی صنعتوں کی کارکردگی کو بہتر بناسکتی ہیں اور کاروباری لاگت کو کم کرسکتی ہیں۔ سرمایہ کاروں کو سیکیورٹی فراہم کی جائے۔انفرا اسٹرکچر جیسے سڑکیں، بندرگاہیں، اور ٹیلی کمیونیکیشن نیٹ ورک کی ترقی اقتصادی سرگرمیوں کے لیے اہم ہے۔ صرف ڈگریاں نہیں بلکہ طلبا و طالبات کو تعلیمی اداروں میںہنر سکھانے کی کوشش کرنا ہوگی۔تعلیمی نظام میں بہتری اور تکنیکی مہارتوں کی تعلیم، جدید صنعتی تقاضوں کیمطابق ورک فورس کی تیاری میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔صنعتی اور زراعتی شعبوں کی ترقی معیشت کی مضبوطی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ زراعت میں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے پیداوار بڑھائی جا سکتی ہے ۔

پاکستان میں جشن کا سا سماں ہے ۔چار دہائیوں بعد ملک کا باصلاحیت جوان اولمپکس مقابلوں میں گولڈ میڈل جیت کے وطن پہنچ چکا ہے ۔ہر کہیں اسی کی بات ہورہی ہے۔گھرو ںمیں،چائے بیٹھکوں میں،مدارس میں،مساجد میں، فون چیٹس میں، شادی بیاہ میں اور پھر ٹی وی چینلز پر لائیو نشریات چلتی رہی ہیں۔ہیرو ایسے ہی ہوتے ہیں جنہیں سب پیار کریں ،جنہیں سب عزت دیں۔جن کا سب مان بڑھائیں، جن سے سب تعلق بنانا چاہیں۔یہ نظریہ سچ ثابت ہوگیا کہ کھیل جہاں کامیابی لاتے ہیں وہیں لوگوں کے چہروں پر خوشیاں بکھیرتے ہیں،لوگوں کو آپس میں جوڑتے ہیں۔ہر طرف سے ارشد ندیم کیلئے انعامات کا اعلان کیا جارہا ہے ۔یہ سب دیکھ کے بہت اچھا لگ رہا ہے ۔لیکن یہی سب کچھ دیکھ کے دل میں یہ خیال بھی اُٹھ رہا ہے کہ کیا ہماری مٹی اتنی بانجھ ہو چکی ہے کہ اتنے سالوں بعد ہم صرف ایک گولڈ میڈل جیت پائے ہیں ۔استحکام پاکستان کیلئے  بہت ضروری ہے کہ کھیلوں کے شعبے میں وسیع سرمایہ کاری کی جائے،یونین کونسل کی سطح پر کھیل کے میدان بنائے جائیں۔آخری بات! پاکستان میں استحکام آسکتا ہے اگر بلدیاتی ادارے اور طلبا تنظیمیں بحال کردی جائیں۔سیاست میں پڑھے لوگ سامنے آئیںجو لیڈروں کی اندھا دھند تقلید کرنے کی بجائے عوامی فلاح اور ریاست کی بہتری کیلئے کام کریں۔موجودہ سیٹ اپ میں سیاسی شعور والے نہیں بلکہ دولت اور طاقت والے لوگ شامل ہورہے ہیں جن کا مقصد دولت اور طاقت میں مزید اضافہ ہوتا ہے ۔

ای پیپر دی نیشن