پاکستان کے معاشی مسائل پر قابو پانے کے لیے حکومت بہت سے اقدامات کررہی ہے جن میں سے کچھ واقعی لائق تحسین ہیں۔ دوست ممالک کو پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے آمادہ کرنا اور ملک کے اندر ایسا ماحول پیدا کرنا جس سے غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے سہولت پیدا ہو واقعی ایسے اقدامات ہیں جن کی ایک عرصے سے ضرورت محسوس کی جارہی تھی۔ خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (ایس آئی ایف سی) کا قیام بھی انھی اقدامات میں سے ایک ہے جن کے لیے بجا طور پر حکومت کو داد دی جانی چاہیے۔ لیکن اس سب کے باوجود بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ جس سطح پر جا کر معاملات طے کیے جارہے ہیں اس سے کوئی مثبت تاثر نہیں ابھرتا۔ اقتصادی الجھیڑوںسے نکلنے کے لیے آئی ایم ایف کے پاس جانا اگر ہماری مجبوری ہے بھی تو اس کے لیے طریقہ ایسا اختیار کیا جانا چاہیے جس سے یہ تاثر نہ ملے کہ ملک کو عالمی ساہوکار کے پاس گروی رکھ دیا گیا ہے۔
تازہ خبروں کے مطابق، پاکستان نے بیرونی فنانسنگ اور ٹیکس بیس کو بڑھانے سمیت تمام ضروری اعداد و شمار اور منصوبے آئی ایم ایف کے ساتھ شیئر کر لیے ہیں۔ جو معلومات آئی ایم ایف کو مہیا کی گئی ہیں ان میں آئندہ پانچ برس کا ڈیٹا شامل ہے۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی طرف سے شیئر کی گئیں معلومات سے متعلق جو خبریں سامنے آئی ہیں ان سے پتا چلتا ہے کہ آئندہ 5 برسوں کے دوران 2 کروڑ سے زائد افراد کو ٹیکس نیٹ میں لانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے جس کے لیے رواں سال 37 لاکھ 22 ہزار افراد کے علاوہ 23 ہزار 5 سو ایسوسی ایشن آف پرسنز رجسٹرڈ کی جائیں گی۔ اس نوعیت کے اقدامات جو آئی ایم ایف کے کہنے پر یا اسے ہمیں قرضہ دینے پر آمادہ کرنے کے لیے کیے جارہے ہیں، یہ ہم خود سے کیوں نہیں کرسکتے تھے؟ کیا اپنے مسائل کو حل کرنے کے لیے بھی ہمیں بیرونی عناصر کی طرف سے دی جانے والی ترغیبات کی ہی ضرورت ہے؟
محصولات یا ٹیکس کے حوالے سے ملک کے سب سے بڑے صوبے کی بات کی جائے تو اس کی وزیراعلیٰ مریم نوازشریف نے پنجاب ریونیو اتھارٹی (پی آر اے) کو ریونیو وسائل بڑھانے کا ہدف دیتے ہوئے کہا ہے کہ عام آدمی کو متاثر کیے بغیر ریونیو ہدف میں 50ارب کا اضافہ کیا جائے۔ مریم نوازشریف کی زیر صدارت خصوصی اجلاس میں اتھارٹی سے متعلق امور کا جائزہ لیا گیا۔ اس موقع پر پی آر اے کے نئے چیئرمین نعمان یوسف نے بریفنگ دی۔ وزیراعلیٰ نے ریونیو وسائل بڑھانے کی ہدایت علاوہ یہ بھی کہا کہ اتھارٹی کو ریئل ٹائم انٹی گریشن آف ڈیٹا بیس کے لیے ایف بی آر سے منسلک کیاجائے گا۔ یہ تمام اقدامات اپنی جگہ لیکن وزیراعلیٰ پنجاب کو یہ ضرور بتانا چاہیے کہ عام آدمی کو متاثر کیے بغیر ریونیو ہدف میں 50 ارب کا اضافہ کیسے ہوگا؟ جب اشرافیہ پر ٹیکس لگائے ہی نہیں جائیں گے اور انھیں ہر طرح سے تحفظ فراہم کیا جائے گا تو پھر ریونیو ہدف بڑھانے کے لیے عام آدمی کی کھال ہی اتاری جائے گی۔
دوسری جانب، مشیر خزانہ خیبر پختونخوا مزمل اسلم نے کہا ہے کہ وفاق نے صوبے کے پیسے نہ دیے تو آئی ایم ایف سے سرپلس کا جو وعدہ کیا ہے ہم سے اس کی توقع بھی نہ رکھے۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مزمل اسلم نے کہا کہ اس سال وفاق سے ضم اضلاع کے لیے 400 ارب ملنے چاہئیں تھے لیکن اے آئی پی اور بجٹ کو ملا کر ہمارے لیے 70 ارب روپے رکھے گئے، 70 ارب میں سے اب ملیں گے کتنے، یہ30 جون 2025ء کو ہمیں اپ ڈیٹ کریں گے۔ انھوں نے کہا کہ بجلی کاخالص منافع اور رائیلٹی کے واجبات نہ ملے تو سرپلس کو مینج کرنا مشکل ہو گا۔ 2 سال سے وفاق کی جانب سے واجبات کی ادائیگی سست روی کا شکار ہے۔ مزمل اسلم کا مزید کہنا تھا کہ آمدن کا تخمینہ پچھلے سال 70 ارب روپے اور اس سال 93 ارب روپے ہے، اب نیا نیشنل فنانس کمیشن (این ایف سی) ایوارڈ آجانا چاہیے اور ہمیں نئے این ایف سی کے حساب سے شیئر ملنا چاہیے مگر وفاق نیا این ایف سی نہیں ہونے دے رہا۔
ایک طرف اقتصادی مسائل نے حکومت کو گھیرا ہوا ہے تو دوسری جانب سیاسی عدم استحکام پریشانی کا باعث بنا ہوا ہے۔ خیبر پختونخوا کے مشیر خزانہ نے جو کچھ کہا ہے اس کا تعلق بھی ان سیاسی اختلافات سے ہے جو وفاق میں موجود اتحادی حکومت اور خیبر پختونخوا میں بر سر اقتدار پاکستان تحریک انصاف کے مابین پائے جاتے ہیں۔ ان سب مسائل سے نمٹنے کے لیے حکومت کو ایسی پالیسیاں تشکیل دینی ہوں گی جو قابلِ عمل ہوں اور جن سے مثبت نتائج برآمد ہوں۔ مزید یہ کہ آئی ایم ایف پر گزشتہ ساڑھے چھے دہائیوں سے انحصار کرنے کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم قرض لینے کے عادی ہوچکے ہیں اور ہر سیاسی جماعت جسے اکثریت حاصل ہوتی ہے وہ اقتدار بعد میں سنبھالتی ہے اور آئی ایم ایف کے پاس کشکول لے کر جانے کے منصوبے پہلے بناتی ہے۔ جب تک ہم اس عادت سے جان نہیں چھڑائیں گے تب تک ہمارے معاشی مسائل حل نہیں ہوسکتے، اور اس عادت سے جان چھڑانے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم اپنے اخراجات میں کمی لائیں۔ اور اس سلسلے میں اشرافیہ کو سرکاری خزانے سے دی جانے والی اربوں ڈالر کی مراعات و سہولیات کو فوری طور پر ختم کرنے کی اشد ضرورت ہے۔